کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے محاذ سے آنے والی اس خبر پر یقیناً اطمینان کا اظہار کیا جائے گا کہ کورونا وائرس پر بحث کے لئے صدرِ مملکت نے 11 مئی کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ پاکستان گزشتہ تین ماہ سے کورونا جیسی مہلک وبا سے نبرد آزما ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے‘ جس کی ابھی تک کوئی دوا ایجاد یا دریافت نہیں ہو سکی۔ واحد تدبیر احتیاط ہے‘ جس کی انتہائی مشکل مگر موثر صورت صرف لاک ڈائون بتائی جاتی ہے‘ یعنی لوگ باہر نکلنا چھوڑ دیں اور اپنے گھروں میں محصور ہو جائیں۔ سکول‘ دفتر‘ کالج‘ یونیورسٹی‘ دکان‘ فیکٹری جانا بند‘ پبلک ٹرانسپورٹ بند‘ صرف ہسپتال‘ فارمیسی یا بیکری وغیرہ مخصوص اوقات کے لئے کھلی رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے‘ جس سے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو کبھی پالا نہیں پڑا تھا‘ مگر طبی ماہرین کے مطابق جب تک کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہو تی یا کوئی دوا بازار میں دستیاب نہیں ہوتی‘ لاک ڈائون اور مکمل لاک ڈائون ہی اس بیماری کے خلاف واحد دفاع ہے‘ لیکن اس پر مکمل عمل درآمد سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جنہیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ہر روز کام کی تلاش میں باہر جانا پڑتا ہے‘ وہ اتنا ہی سنگین چیلنج ہے جتنا کورونا وائرس کی وبا۔ بلا شبہ انسانی جان سے قیمتی کوئی چیز نہیں اور اسے بچانے کے لئے انتہائی اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ دنیا کے جن ممالک نے اس کا خطرہ مول لے کر موثر اور مکمل لاک ڈائون نافذ کیا‘ انہیں کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے میں مدد ملی‘ لیکن جہاں اس اقدام میں تاخیر ہوئی‘ وہاں کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور اس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ انہی خطرات کے پیش نظر پاکستان میں ایک طرف ماہرین مکمل لاک ڈائون پر اصرار کر رہے ہیں‘ اور دوسری طرف عوام خصوصاً کاروباری طبقہ اس کی پابندیوں کو ڈھیلا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسی دو متضاد مگر اہم پوزیشنوں کو ایک متفقہ ‘ یکساں اور مربوط پالیسی میں ڈھالنے کے لئے قوم کو اجتماعی کوشش اور دانش درکار ہوتی ہے۔ جمہوری ملکوں میں اس کوشش اور دانش کو بروئے کار لانے کے لئے جو پلیٹ فارم استعمال ہوتے ہیں‘ وہ نمائندہ اداروں یعنی پارلیمنٹ کی شکل میں موجود ہوتے ہیں‘ اور ان سے استفادہ کیا جاتا ہے‘ مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ روایت بہت کمزور ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو منظرِ عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد وبا سے متاثرہ اور اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 28 ہو چکی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر حکومت نے 13 مارچ کو ملک کے تمام تعلیمی ادارے‘ سینما ہال اور شادی ہال بند کرا دئیے اور پی ایس ایل کے میچ اور 23 مارچ کی ملٹری پریڈ منسوخ کر دی۔ حکومت کے اس اقدام کے پیچھے ملکی صورتحال سے زیادہ باہر کی دنیا خصوصاً امریکہ میں کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی تباہ کاریوں کا زیادہ ہاتھ تھا‘ کیونکہ 14مارچ تک یہ وبا دنیا کے 137 ممالک تک پھیل چکی تھی اور اس کے نتیجے میں 5764 افراد ہلاک اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب اس بیماری میں مبتلا ہو چکے تھے۔ 15 مارچ کو بھارتی وزیر اعظم نے جب اس وبا سے نمٹنے کے لئے علاقائی سطح پر ایک جامع اور دور رس حکمت عملی وضع کرنے کیلئے سارک ممالک کے سربراہان کی ایک ویڈیو کانفرنس بلائی اور پاکستان کو اس میں مدعو کیا تو یہاں بھی اس کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جانے لگا‘ لیکن کسی مربوط اور جامع پالیسی کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھایا گیا؛ تاہم جب مارچ کے وسط کے بعد ایران سے زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد یہاں کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا تو سندھ حکومت نے پہل کرتے ہوئے صوبے میں لاک ڈائون کا اعلان کردیا اور تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر‘ سکول اور دیگر تدریسی ادارے اور بازار بند کرا دئیے۔ اس موقعہ پر وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں‘ حالانکہ اس وقت تک دنیا کی کل آبادی کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ممالک میں لاک ڈائون نافذ ہو چکا تھا۔ اٹلی‘ فرانس اور سپین میں ہلاکتوں کی تعدادمیں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا‘ مگر 27 مارچ کو وزیر اعظم نے نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کے بعد اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ جلد بازی اور گھبراہٹ میں کئے گئے فیصلے غلط اور نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں سوچ سمجھ کر اور قدم بقدم کارروائی کرنا ہو گی۔ مگر جو لوگ دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں اس وبا کے شروع ہونے اور اس پر قابو پانے کی کوششوں کا مشاہدہ کر رہے تھے‘ ان کی رائے وزیر اعظم کی سوچ سے مختلف تھی۔ چین نے فوری اور مکمل لاک ڈائون کے ذریعے اس پر قابو پانے میں جو کامیابی حاصل کی‘ وہ باقی ساری دنیا کے لئے ایک ماڈل ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے شمالی کوریا ‘ جنوبی کوریا‘ ویت نام اور نیوزی لینڈ نے اپنے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو اس مہلک مرض سے محفوظ بنا لیا۔
کورونا وبا کے زور پکڑنے کے ساتھ ہی وفاقی حکومت حرکت میں آ گئی اور اس نے چاروں صوبوں‘ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو آن بورڈ کر کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (NCOC) اور نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی (NCC) جیسے ادارے متحرک کئے۔ یہ دونوں ادارے کورونا وبا سے متاثرہ افراد کو ریلیف فراہم کرنے کے علاوہ ضروری اور تازہ ترین اعداد و شمار اکٹھا کر کے فیصلہ ساز اداروں کو مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے ہسپتالوں‘ ڈاکٹروں اور طبی شعبہ سے تعلق رکھنے والے دیگر عملے کو کورونا کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔ کورونا وبا کے خلاف جنگ میں ان تینوں اداروں کا کردار قابلِ ستائش ہے‘ مگر ان کا بیشتر کام کورونا وبا سے پیدا ہونے والے روزمرہ مسائل کے حل میں مدد دینا اور کورونا وبا کے بدلتے ہوئے رجحانات پر نظر رکھنا ہے یا نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی جیسے اعلیٰ سطح کے ادارے کو تازہ ترین اعدادوشمار اور رجحانات سے آگاہ کرنا ہے‘ مگر ایک لانگ ٹرم‘ہمہ گیر اور وفاق کی تمام اکائیوں کی متفقہ رائے پر مبنی قومی حکمت عملی کی تشکیل ان اداروں کا کام نہیں ہے کیونکہ یہ آئینی ادارے نہیں ہیں بلکہ ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے وجود میں لائے گئے ہیں‘ آئینی ادارے مشترکہ مفادات کونسل اور وزارت صوبائی رابطہ ہیں۔ اس وقت ان اداروں کو حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک یکساں اور لانگ ٹرم پالیسی کے لئے واحد موزوں ادارہ پارلیمنٹ ہے۔ کورونا وائرس کی وبا سے متعلقہ ایک از خود نوٹس پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی حال ہی میں وفاقی حکومت کو ادھر ادھر بھاگنے کے بجائے پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن جب سے کورونا وائرس کی آفت نازل ہوئی ہے موجودہ حکومت نے نہ مشترکہ مفادات کونسل اور نہ ہی پارلیمنٹ کا اجلاس بُلایا۔ آئین کی رو سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہر نوے دن بعد بلانا لازمی ہے‘ لیکن گزشتہ برس 31 دسمبر کو اس کے آخری اجلاس کے بعد اس کا ابھی تک کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔ اجلاس نہ بلا کر وفاقی حکومت آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت نے اپوزیشن کی طرف سے پیہم اصرار کے باوجود قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں تاخیر کی‘ لیکن اب جبکہ صدرِ مملکت کی طرف سے 11مئی کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے تو اس سے کورونا وبا یا اسی قسم کی اور ممکنہ وبائوں کا طویل المیعاد بنیادوں پر مقابلہ کرنے کیلئے ایک مستقل اور پائیدار حکمت عملی کی تشکیل میں مدد ملے گی۔