زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان سے اپیل کی تھی کہ رمضان المبارک کے احترام میں ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ بند کر دیں۔ جب ارد گرد کے دیگر ممالک کی طرح افغانستان میں بھی کورونا وائرس کی وبا پھیلنے لگی تو اقوام متحدہ‘ او آئی سی‘ نیٹو اور متعدد دیگر حلقوں نے بھی طالبان سے اپیل کی تھی کہ وہ عارضی جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں‘ تاکہ 29 فروری کو طے پانے والے سمجھوتے پر عمل درآمد کرکے افغانستان میں مستقل امن قائم کیا جا سکے‘ لیکن طالبان نے ان تمام اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے نہ صرف اپنے حملے جاری رکھے بلکہ ان کی تعداد اور وسعت میں اضافہ بھی کر دیا۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں متحارب فریق یعنی طالبان اور افغان سرکاری افواج کے درمیان جنگ میں رواں سال یعنی 2020 کے پہلے چار ماہ میں 1293 شہری ہلاک ہو چکے ہیں‘ اور کثیر تعداد میں یہ ہلاکتیں 29 فروری کو طالبان اور امریکہ کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد ہوئیں۔ بعض لوگ اس معاہدے کو افغانستان میں جنگ اور تشدد میں حالیہ اضافے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں کیونکہ جن شرائط پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اور اپنے نیٹو اتحادی ممالک کی فوجوں کو افغانستان سے باحفاظت واپس بلانے کا معاہدہ طے کیا تھا‘ بیشتر مبصرین اور تجزیہ کاروں کے نزدیک اس کی ''تباہی و بربادی‘‘ کے علاوہ اور کوئی حقیقت نہیں تھی۔ طالبان اسے بیرونی حملہ آوروں کی شکست اور اپنی فتح قرار دے چکے ہیں اور اس فتح کا جشن بھی منا چکے ہیں‘ مگر خلاف توقع صدر اشرف غنی کی حکومت ان کی مکمل فتح یعنی اقتدار پر قبضے کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔ اس رکاوٹ کو راستے سے ہٹانے کے لئے طالبان نے اپنے حملوں کو تیز کر دیا ہے۔ اس کی تازہ ترین اور انتہائی بھیانک مثال ہمیں کابل میں ایک ہسپتال پر مسلح حملے کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اس واقعہ میں حملہ آوروں نے نوزائیدہ بچوں کو بھی نشانہ بنایا اور بے بس مائوں کے سامنے ان کے ایسے جگر کے ٹکڑوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا‘ جو ایک دن کے تھے یا جن کی عمر زیادہ سے زیادہ چار دن تھی۔ جن ڈاکٹروں‘ نرسوں اور ہسپتال کے عملے کے دیگر ارکان کی آنکھوں کے سامنے خون کی یہ ہولی کھیلی گئی‘ ان کا کہنا ہے کہ ایسا ہولناک منظر دیکھنے کے بعد ان کی کسی بھی ہسپتال میں کام کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ اس سے قبل مشرقی افغانستان کے علاقے ننگرہار میں ایک جنازے پر حملے میں 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ کابل کے ہسپتال پر حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کو شامل کیا جائے تو صرف دو دنوں میں 56 افراد کو زندگیوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے مہلک حملوں کا یہ سلسلہ 11 مئی کو شروع ہوا تھا‘ جب 90 منٹ سے بھی کم وقت میں یکے بعد دیگرے افغانستان کی سرکاری فوجوں کی چوکیوں اور ٹھکانوں پر حملے کئے گئے ۔ ان حملوں میں اگرچہ طالبان کو بھی جانی نقصان اٹھانا پڑا‘ مگر ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق سرکاری فوج سے تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان حملوں سے پہلے افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے‘ زلمے خلیل زاد نے قطرکے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کرکے 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کو آگے بڑھانے پر بات چیت کی تھی۔ اسی عرصہ کے دوران طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر بھی کچھ پیش رفت کی خبر موصول ہوئی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ امن معاہدے پر عمل درآمد کی رفتار میں اضافہ ہوجائے گا‘ لیکن مئی کے آغاز میں ملک گیر سطح پر بم دھماکوں‘ مسلح اور خود کُش حملوں کے سلسلے نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور زلمے خلیل زاد کو پاکستان آ کر چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرنا پڑی۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق اس ملاقات میں امریکہ نے افغانستان میں تشدد کی تازہ لہر کو روکنے اور معاہدہ امن پر عمل درآمد کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان سے مدد کی درخواست کی۔
دوسری طرف افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافے اور طالبان کی طرف سے سرکاری فوجوں پر حملوں کے بعد صدر اشرف غنی نے اپنی سکیورٹی فورسز کو حکم دیا ہے کہ وہ مدافعانہ انداز ترک کرکے دشمن کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اختیار کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فروری میں طے پانے والا امن معاہدہ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے اور افغانستان میں گزشتہ 19 برسوں سے جاری جنگ میں مزید تیزی آئے گی۔ یہ جنگ صرف افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان تک محدود نہیں رہے گی‘ بلکہ اس میں امریکہ کے ملوث ہونے کا بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے‘ کیونکہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے کابل کے ہسپتال پر مسلح حملے اور ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اگر طالبان نے افغانستان کی سرکاری افواج پر حملے جاری رکھے‘ تو امریکہ کو اپنے اتحادیوں کی مدد کیلئے کارروائی کرنا پڑے گی۔ حالات کے ایک بھرپور اور خونریز جنگ کی طرف جانے کے راستے میں صرف ایک امید بند باندھے کھڑی ہے‘ یہ کہ امریکہ اور افغانستان‘ دونوں حکومتوں کو توقع ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں حملوں کی شدت میں کمی لانے پرآمادہ کرے گا۔ اس توقع کی بنیاد یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان افغانستان میں جنگ کے اختتام اور وہاں امن کے قیام کا خواہاں ہے‘ دوسری طرف طالبان کی فوجی کمانڈ میں حالیہ تبدیلی سے طالبان کی صفوں میں امن کے حامی عناصر کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ طالبان کی اعلیٰ قیادت نے ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب کو فوجی آپریشنز کا کمانڈر مقرر کیا ہے۔ ملا یعقوب اپنے پیشرو کے مقابلے میں پاکستان کے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے زلمے خلیل زاد کے ذریعے پاکستان سے طالبان کو جنگ کے بجائے امن کی راہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کی درخواست کی ہے‘ لیکن طالبان کے بیشتر کمانڈر جنگ بندی کے خلاف ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اشرف غنی کی حکومت کے خلاف جنگ نہ صرف جاری رکھی جائے بلکہ اسے مزید تیز کرکے سرکاری افواج کی رہی سہی مزاحمت بھی ختم کر دی جائے۔ مغربی ذرائع کے مطابق طالبان کو انٹرا افغان ڈائیلاگ سے اب کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ فروری میں طے پانے والے معاہدے کے تحت معاہدے پر دستخط کے دس دن کے اندر انٹرا افغان ڈائیلاگ کا انعقاد لازمی تھا۔ مگر اب دو ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور انٹرا افغان ڈائیلاگ کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ طالبان کی جانب سے اس تاخیر کی ذمہ داری صدر اشرف غنی کی حکومت پر ڈالی جاتی ہے‘ جس نے قیدیوں کے تبادلے میں جان بوجھ کر تاخیر کی۔ امریکہ‘ پاکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک کی طرف سے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے جلد از جلد انعقاد کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر عملاً صورتحال یہ ہے کہ ان انٹرا افغان ڈائیلاگ کا کوئی امکان نہیں اور افغانستان میں جنگ کی شدت میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جو لوگ افغانستان کی تاریخ سے واقف ہیں‘ انہیں اس پر کوئی تعجب نہیں کیونکہ افغانستان میں امن اور جنگ کے فیصلے مذاکرات کی میز پر نہیں بلکہ میدان جنگ میں ہوتے رہے ہیں۔ اب افغانستان کے عوام ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت اس کے دیر ہمسایہ ممالک کو افغانستان میں تشدد اور جنگ میں تیزی کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ پاکستان کیلئے یہ صورتحال خصوصی طور پر مشکلات سے بھری ہوئی ہو گی کیونکہ اس کی نہ صرف افغانستان کے ساتھ ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی سرحد ہے بلکہ اس سرحد کی دوسری طرف جنگ‘ تصادم‘ تشدد اور تباہی کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑ ے گا۔ ایک طرف کورونا وائرس کا چیلنج اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کا مسئلہ ہے؛ چنانچہ دوسری جانب افغانستان میں جنگ تیز ہونے سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔