وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور جناب بابر اعوان نے ایک اخباری انٹرویو میں موجودہ پارلیمنٹ کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ادارہ اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہا ہے اور اس کی بنا پر عوام کے اعتماد سے محروم ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ کا بنیادی مقصد عوام اور ملک کی بہتری کے لئے قانون سازی کرنا ہے‘ مگر پارلیمانی سال اختتام پذیر ہونے کو ہے‘ اور اس دوران کوئی قابلِ ذکر قانون سازی نہیں کی گئی‘ بلکہ 80 کے قریب پارلیمانی کمیٹیوں میں سینکڑوں مسودہ ہائے قوانین معرضِ التوا میں پڑے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمانی نظام میں جس طرح انتظامیہ مقننہ کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے‘ اسی طرح مقننہ کو بھی عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ جناب بابر اعوان درست فرماتے ہیں‘ جمہوری نظام کے تحت عوام کو پارلیمنٹ ہی نہیں‘ ہر ادارے کا تنقیدی جائزہ لینے کا حق ہے‘ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر موجودہ پارلیمنٹ اپنے مقصد یعنی عوامی اور قومی مفاد میں قانون سازی میں ناکام رہی ہے تو اس کی ذمہ داری کس پہ عائد ہوتی ہے؟ بابر اعوان صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدارتی نظام کے برعکس پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمنٹ کی باگ ڈور انتظامیہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے‘ کیونکہ اس کے ارکان یعنی وفاقی وزیر پارلیمنٹ کے رکن ہوتے ہیں۔ کابینہ کے سربراہ یعنی وزیر اعظم کا دوسرا نام قائدِ ایوان ہے اور وزیرِ اعظم کی سربراہی میں کابینہ‘ پارلیمنٹ میں نئے قوانین کی تشکیل کیلئے سرگرم ہوتی ہے تاکہ اپنی پارٹی کے وژن اور پالیسیوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے‘ لیکن ہمارے ملک میں ہر حکومت پارلیمنٹ کی بجائے متبادل ذرائع‘ مثلاً صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کو ترجیح دیتی رہی ہے۔ موجودہ حکومت کا رویہ اپنی پیش رو حکومتوں سے مختلف نہیں‘ بلکہ کورونا وائرس پر بحث کے لئے بلائے گئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں اپوزیشن تو ایک طرف خود حکومت کے ارکان نے جو رویہ اختیار کیا‘وہ افسوسناک ہے کہ اس کے بعد کوئی پارلیمنٹ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا دنیا کیلئے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے بڑا چیلنج ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے نزدیک یہ چیلنج اس قابل بھی نہیں کہ وہ ایوان میں خود آ کر قوم کا حوصلہ بڑھاتے۔ حکومت نے خود اعلان کیا کہ پارلیمنٹ کا وہ خصوصی اجلاس صرف کورونا وائرس پر بحث کے لئے بلایا گیا ہے اور اس کا مقصد وبا کے خلاف قومی حکمتِ عملی کی تشکیل میں اپوزیشن کی رائے شامل کرنا ہے‘ مگر اپنی تقریر میں وزیر خارجہ نے بلاول بھٹو زرداری پر سندھ میں صوبائی عصبیت کا نعرہ بلند کرنے کا الزام لگا دیا۔ اس الزام کے خلاف پیپلز پارٹی کی طرف سے سخت ردِ عمل ناگزیر تھا۔ اور اس نے اس کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بحث کا رخ کورونا کے بجائے حکومت اور اپوزیشن کے مابین الزام تراشی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی طرف مڑ گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بیکار اور غیر متعلقہ مقابلے بازی میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں میں سے کسی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ مگر بنیادی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ قومی سیاست کو ایک صحیح اور مثبت سمت میں لے کر چلنا اس کے اہم فرائض میں شامل ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کے اجلاس سے پہلے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت سیاسی تنائو کے پیشِ نظر امید کم تھی کہ پارلیمنٹ کا اجلاس کسی متفقہ لائحہ عمل پر منتج ہو گا؛ تاہم اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ خطرناک چیلنج سے دوچار ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کو توقع تھی کہ پاکستان کی سیاسی قوتیں‘ باہمی اختلافات سے بالا تر ہو کر پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے ایک یکساں اور ہمہ گیر حکمتِ عملی کا اعلان کریں گی‘ مگر قومی اسمبلی کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ اپوزیشن نے تجویز پیش کی تھی کہ کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک متفقہ اور ملک گیر حکمتِ عملی تشکیل دی جائے اور اس پر ایک مؤثر اور مربوط طریقے سے عمل درآمد کے لئے ایک پارلیمانی نگران کمیٹی بنائی جائے‘ مگر حکومت نے اس تجویز کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نہ صرف اپوزیشن بلکہ پارلیمنٹ کو بھی کورونا کے خلاف جنگ میں اپنے ساتھ شامل نہیں کرنا چاہتی۔ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ جب سے ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کا پتہ (26 فروری) چلا ہے‘ وفاقی حکومت نے نہ تو مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) اور نہ ہی بین الصوبائی رابطہ کے لئے تشکیل کردہ وزارت کا کوئی اجلاس بلایا ہے‘ حالانکہ موجودہ حالات میں ان اداروں کے متحرک ہونے کی اشد ضرورت ہے‘ کیونکہ ان کے ذریعے وفاق اور وفاق کی اکائیوں کے مابین رابطے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ مقصد نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی (NCC) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (NCOC) کے ذریعے بخوبی حاصل کر رہی ہے۔ اول الذکر کے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم کرتے ہیں اور مؤخر الذکر کی صدارت وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان دونوں اداروں میں نہ صرف چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بلکہ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم اور گلگت بلتستان کے چیف ایگزیکٹو حضرات بھی باقاعدہ شرکت کرتے ہیں اور اپنے اپنے زیرِ انتظام اکائیوں میں کورونا اپ ڈیٹ سے آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن مذکورہ دونوں ادارے آئین کی پیداوار نہیں بلکہ انہیں ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔
یہ مانا کہ این سی او سی کا تقریباً روزانہ اجلاس ہوتا ہے اور این سی سی کے اجلاس بھی تواتر سے ہوتے ہیں اور کورونا وائرس کی وبا کی تازہ ترین صورت حال سے قوم کو نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ اس کی روشنی میں متفقہ فیصلے بھی کرتے ہیں۔ مگر یہ دونوں ادارے مشترکہ مفادات کونسل اور وفاقی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ کے نعم البدل نہیں ہو سکتے کیونکہ این سی سی اور این سی او سی کا کام کورونا کی تازہ ترین اور بدلتی ہوئی صورت حال کی روشنی میں ڈے ٹو ڈے فیصلے کرنا ہے‘ جبکہ مشترکہ مفادات کونسل اور وفاقی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ کے ذریعے نہ صرف وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان تعاون اور رابطے کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا جاتا ہے بلکہ کورونا وائرس اور اس کی وبا جیسی مستقبل میں دیگر ممکنہ وبائوں کا طویل المیعاد بنیادوں پر مقابلہ کرنے کیلئے ایک مربوط حکمتِ عملی کی تیاری میں بھی ان اداروں کا کردار نہایت اہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت پارلیمنٹ اور متعلقہ پارلیمانی اداروں کو نظر انداز کر کے غیر پارلیمانی اداروں پر کیوں انحصار کر رہی ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ 1973 ء کے آئین کے تحت قائم شدہ پارلیمانی نظام کی جگہ لینے کیلئے ایک متوازی گورننس سسٹم کی بنیاد رکھی جا رہی ہے؟ موجودہ حکمران سیٹ اپ کے حوالے سے اکثر یہ اطلاعات گردش کرتی رہی ہیں کہ مقتدر طاقتیں 1973 ء کے آئین کے تحت قائم شدہ پارلیمانی نظام کی جگہ ایوب سٹائل کے صدارتی نظام کو نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اطلاعات غلط ہوں کیونکہ وزیر اعظم عمران خان یا ان کی حکومت کے کسی اہم رکن نے آج تک کھل کر ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرنے کی بات نہیں کی‘ لیکن گزشتہ تقریباً چھ برس سے پارلیمنٹ کو محض ڈاکوئوں‘ چوروں‘ کرپٹ اور نا اہل افراد کا ٹولہ قرار دے کر جس طرح اس ادارے کی تضحیک کی گئی ہے‘ اور اب جو یہ بیان دیا گیا ہے کہ موجود پارلیمنٹ ایک بیکار ادارہ ہے اور عوام کا اعتماد کھو چکا ہے‘ اس بات کا متقاضی ہے کہ مندرجہ بالا سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے۔