گزشتہ دنوں پاکستانی میڈیا میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے بارے میں امریکی سینئر سفارت کار ایلس جی ویلز کے ایک بیان پر بحث کا سلسلہ جاری تھا۔ ویلز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں پرنسپل ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ کے عہدے سے ریٹائر ہو رہی ہیں۔ ان کے ذمہ دنیا کے جن خطوں میں امریکی مفادات کی نگہداشت اور (خصوصاً صدر ٹرمپ) کی سوچ کے مطابق امریکی پالیسی پر عمل درآمد کا جائزہ لینا ہے‘ ان میں وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا بھی شامل ہیں‘ لیکن خود ان کی خاص دلچسپی جنوبی ایشیا‘ بحرِ ہند اور انڈوپیسیفک خطوں سے متعلق امور پہ مرکوز ہے۔ 20 مئی کو انہوں نے اپنے الوداعی آن لائن خطاب میں سی پیک پر سخت تنقید کی‘ اور سابقہ موقف کو دہرایا کہ اس کی وجہ سے پاکستان‘ جس کی معیشت پہلے ہی کمزور ہے‘ ناقابلِ برداشت قرضوں تلے دب جائے گا۔ ایلس ویلز نے پھر الزام عائد کیا کہ 60 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر مبنی یہ منصوبہ شفافیت سے خالی ہے اور بین الاقوامی قرضوں اور سرمایہ کاری کیلئے جن ضابطوں اور اصولوں کو مدِنظر رکھا جاتا ہے‘ سی پیک میں انہیں مدِنظر نہیں رکھا گیا۔ ایلس ویلز نے کہا کہ اگر چین واقعی پاکستان کی مخلصانہ مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ سی پیک کے تحت فراہم کئے جانے والے قرضے معاف کر دے۔ ایلس ویلز کے اس بیان پر پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے اپنے ایک بیان میں ان الزامات کو بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔ بیان میں چینی سفیر نے واضح کیاکہ چین پاکستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پرتعلقات استوارکرتا ہے اور پاکستان کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ کو پاکستان کے واجب الادا قرضوں کی اتنی فکر ہے تو سات دہائیوں میں امریکہ نے دو طرفہ بنیادوں پر اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ذریعے جو اربوں ڈالر کے قرضے چڑھا رکھے ہیں‘ سب سے پہلے ان قرضوں کو معاف کرے۔
سی پیک پر تنقید پر مبنی ایمبیسیڈر ایلس ویلز کا یہ پہلا بیان نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ 20 نومبر 2019 کو واشنگٹن میں امریکہ کے مشہور تھنک ٹینک ''ولسن سینٹر‘‘ میں ایک گھنٹہ طویل خطاب میں سی پیک کے مختلف پہلوئوں کو ایک وسیع تناظر میں تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ اپنے اس خطاب میں ایمبیسیڈر ایلس ویلز نے اعتراف کیا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں چین بین الاقوامی سطح پر قرضے دینے والے ایک بڑے ملک کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ جنوبی ایشیا میں چین کی مالی اور تکنیکی امداد سے بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے والے ممالک میں پاکستان تنہا نہیں بلکہ نیپال‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور مالدیپ بھی چین کی اس پالیسی سے مستفید ہو رہے ہیں‘ مگر امریکی سفارتکار کا اعتراض یہ ہے کہ چین ''پیرس کلب‘‘ کے بجائے اپنے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) کے ذریعے یہ قرضے کیوں فراہم کر رہا ہے؟ ان کی نظر میں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ چین عالمگیر سطح پر سڑکوں‘ شاہراہوں‘ ریلوے لائنوں‘ پائپ لائنوں اور ٹرانسمشن لائنوں کا جال بچھا کر نا صرف جنوبی بلکہ وسطی ایشیا‘ مغربی ایشیا اور افریقہ میں تجارت کی منڈیوں اور خام مال خصوصاً تیل‘ گیس اور معدنیات کے ذخائر کو اپنی معیشت کی ترقی کیلئے استعمال میں لانا چاہتا ہے‘ اور اس مقصد کیلئے آئی ایم ایف اور پیرس کلب جیسے ملٹی لیٹرل (Multilateral) اداروں کے بجائے دو طرفہ بنیادوں پر معاہدے کر رہا ہے‘ جن کے کئی مندرجات کو نا صرف خفیہ رکھا جاتا ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک کو قرضہ جات کی فراہمی میں جن مروجہ اصولوں اور ضابطوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے‘ چین ان کی پابندی نہیں کرتا بلکہ ایسی شرائط پر قرضہ جات فراہم کر رہا ہے جن کا فائدہ چینی کمپنیوں کو ہو‘ اور سی پیک اس کی ایک مثال‘ جو مقامی کمپنیوں کے مقابلے میں چینی کمپنیوں کو زیادہ نفع کمانے میں مدد دے رہا ہے۔ یہ کمپنیاں اپنے منصوبوں کیلئے نا صرف سامان اور مشینری بلکہ مزدوروں کو بھی چین سے درآمد کرتی ہیں‘ اس طرح مقامی طور پر نہ تو صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی مقامی لوگوں کو روزگار اور فنی تربیت کے مواقع میسر آئے ہیں۔ پاکستان کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے اپنے لیکچر میں کہا کہ آبادی کے 64 فیصد حصے پر مشتمل ہونے کے باوجود پاکستان کے تیس برس سے کم عمر کے پڑھے لکھے اور محنتی نوجوان روزگار سے محروم رہتے ہیں کیونکہ چینی کمپنیاں اور مزدور اپنے منصوبوں کا منافع اور محنت کی کمائی چین منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح چین کو معاشی طور پر فائدہ ہوتا ہے اور پاکستان‘ سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں‘ جن کی وجہ سے بعض صورتوں میں ان سے نجات نہ پاکر یہ ممالک اپنے بعض اثاثوں کو چین کو لیز کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سی پیک سے موازنہ کرتے ہوئے ایمبیسیڈر ایلس ویلز نے دعویٰ کیا کہ امریکہ اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے بہتر اور مفید شرائط پر ترقی پذیر ملکوں کو اقتصادی اور تکنیکی امداد دیتے ہیں۔ لیکن لیکچر کے آخر میں سوال و جواب کے سیشن میں حاضرین میں سے جب ایک پاکستانی خاتون نے یہ سوال پوچھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے متعدد پیکجز کا تجربہ کرنے کے بعد سی پیک کو کیوں ترجیح دی؟ تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اسی طرح جب ان کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرائی گئی کہ 2015 میں جب سی پیک پر پاکستان اور چین کے مابین بات چیت چل رہی تھی‘ اس وقت ملک میں بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی‘ مگر سی پیک کی بدولت اب پاکستان بجلی کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے ‘ تو انہوں نے اس پر جو رائے دی‘ وہ حاضرین کو مطمئن نہ کر سکی۔ سی پیک کا تجزیہ کرتے ہوئے ایمبیسیڈر نے اس کے صرف ایک پہلو یعنی قرضہ جات کا ذکر کیا‘ حالانکہ اس منصوبے میں گرانٹ کا پہلو بھی برابر کی اہمیت کا حامل ہے اور پاکستان میں کئی منصوبے ایسے ہیں‘ جن کیلئے چین نے قرضوں کی صورت میں نہیں بلکہ گرانٹ کی صورت میں سرمایہ فراہم کیا ہے۔ اسی طرح ایلس ویلز کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ سی پیک سے پاکستانی نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں ملیں۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کے اختتام پر پاکستان میں ستر ہزار لوگوں کو ملازمتیں حاصل ہوئی تھیں۔ اسی طرح ہزاروں پاکستانی طلبا اور انجینئرز کو چین میں تکنیکی اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر آئے ہیں۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کا 70 سالہ تجربہ ہے اور انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ چین نے معاشی اور تکنیکی امداد کو کبھی سیاسی شرائط کا پابند نہیں کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جن میں ترقی سے یہ ممالک اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا یا افریقہ‘ ہر خطے میں چینی سرمایہ کاری کا اس لئے خیرمقدم کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے چین نے ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی‘ اور ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی‘ جن میں امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ کی کمپنیاں اس لئے سرمایہ کاری سے گریزاں رہتی تھیں کہ ان سے فوری اور بھاری منافع کا امکان نہیں ہوتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر رسک فیکٹر موجود ہوتا تھا۔ وسطی ایشیا میں روس اور امریکہ کو مات دے کر چین نے ناصرف تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری میں اول پوزیشن حاصل کی بلکہ افریقہ کے بعض ممالک جیسے سوڈان اور نائیجیریا میں ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جن میں مغربی کمپنیاں سرمایہ لگانے کو تیار نہیں تھیں۔ چین نے یہ سارے اقدامات کرکے ناصرف ان ممالک بلکہ اقوام متحدہ سے بھی دادوتحسین حاصل کی۔ ان معاملات پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے‘ لیکن کالم کی گنجائش اس کی اجازت نہیں دیتی‘ لہٰذا اس پر کسی اور موقع پر تفصیل سے بات کریں گے۔ فی الحال سی پیک پر امریکی اعتراضات کے تناظر میں یہ کہنا کافی ہوگا کہ پاکستان اور چین کے مابین ایک دوطرفہ معاہدے پر مبنی ہونے کے باوجود وسطی اور مغربی ایشیا کے علاوہ دیگر کئی ممالک نے اس میں شمولیت کیلئے جس طرح دلچسپی کا اظہار کیا ہے‘ اس سے اس کے بارے امریکی شکوک و شبہات بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔