ہمالیہ کی بلندوبالا چوٹیوں‘ چھوٹی بڑی ہزاروں ندیوں‘ آبشاروں اور حسین وادیوں کے ملک نیپال کی 81 فیصد آبادی ہندو ہے۔ بھارت کی تین ریاستوں اتر کھنڈ‘ اتر پردیش اور بہار کے ساتھ منسلک اس کی 1800 کلومیٹر لمبی سرحد ہے‘ جیسی ہماری افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن ہے۔ روزانہ ہزاروں افراد دونوں طرف سے سرحد پار کر کے رشتے داروں سے ملنے یا دیگر ضروریات پوری کرنے کیلئے آتے ہیں۔ نیپال کے ہندو مندروں میں صرف نیپالی ہی نہیں بلکہ بھارت کے ہندو بھی پوجا پاٹھ کرنے کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ بھارت کے علاوہ دنیا میں اگر کوئی ہندو ملک ہے تو وہ نیپال ہے۔ 2008 میں بادشاہت کے خاتمہ سے پہلے ہندوازم کو ملک کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل تھی۔ دارالحکومت کٹھمنڈو میں سابقہ شاہی محل کے سامنے مندر‘ مسجد اور پوگوڈا ساتھ ساتھ موجود ہیں‘ لیکن مجال ہے کہ کبھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہوں۔
معاشی طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات کی حالت یہ ہے کہ اس کے ساتھ ملنے والی طویل سرحد نیپال کیلئے ناصرف بھارت بلکہ بیرونی دنیا کے ساتھ بھی تجارتی لین دین کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘ کیونکہ چین کے ساتھ ملنے والی سرحد دشوار گزار ہے اور یہ برف پوش پہاڑوں نے بلاک کر رکھی ہے۔ اگرچہ چین اور نیپال کو ملانے والی ایک سڑک موجود ہے‘ جس پر سارا سال آمدورفت جاری رہتی ہے اور تبت کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کیلئے پہاڑی درے بھی ہیں‘ اس کے باوجود چین کے ساتھ نیپال کی تجارت بڑے محدود پیمانے پر ممکن ہے۔ سیاسی اور سماجی شعبے میں نیپال اور بھارت کے تعلقات کی گہرائی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں نیپالی طلبہ بھارتی سکالرشپ پر بھارت کی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ تقریباً تمام نیپالی سیاسی پارٹیوں کی قیادت‘ یونیورسٹیوں‘ کالجوں اور سکولوں کے اساتذہ اور بیوروکریسی‘ سب بھارت کی یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے ہیں۔ نیپال کی سب سے پُرانی سیاسی پارٹی نیپالی کانگریس‘ جو ایک لمبے عرصے تک ملک میں برسرِ اقتدار رہی‘ کو آل انڈیا نیشنل کانگریس کی ایک شاخ سمجھا جاتا تھا‘ کیونکہ سیلون (موجودہ سری لنکا) کی سیلون کانگریس کی بنیاد بھی ہندوستان کی تحریکِ آزادی سے متاثر ہو کر رکھی گئی تھی۔ سیلون کانگریس چونکہ تامل لوگوں کے مفادات کی زیادہ نمائندگی کرتی ہے‘ اس لئے سری لنکا میں سنہالی نسل کے مفادات کی نمائندہ پارٹیوں مثلاً سری لنکا فریڈم پارٹی اور یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے ابھرنے سے یہ پارٹی جلد ہی سری لنکا کے سیاسی افق سے غائب ہو گئی‘ مگر نیپالی کانگریس کو ایک عرصہ تک ملک کی سب سے بڑی اور مقبول ترین پارٹی کی حیثیت حاصل رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1950 میں رانا فیملی کے آمرانہ دور کو ختم کرنے کیلئے شاہ تریبھوان کی حمایت میں جو جمہوری تحریک چلائی گئی تھی‘ اس کی قیادت نیپالی کانگریس نے کی تھی اور اس تحریک‘ جس کے نتیجے میں نیپال میں پارلیمانی نظام پر مبنی بادشاہت قائم کر دی گئی تھی‘ میں بھارت نے نیپالی کانگریس کی حمایت کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نیپال میں آج تک نیپالی کانگریس کو بھارت نواز سیاسی پارٹی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے نیپالی کانگریس کو بھاری سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑی اور کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ‘ لیننسٹ) اور مائو پرست پارٹیوں کے مقابلے میں اس کی عوامی حمایت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ نیپالی کانگریس اور اس کی قیادت پر اپنے ملک میں جب بھی کوئی افتاد نازل ہوئی تو اس نے بھاگ کر بھارت میں پناہ لی‘ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ مذہب‘ ثقافت‘ سیاست اور معیشت کے شعبوں میں اتنے قریبی اور گہرے تعلقات ہونے کے باوجود اگر آپ کو کسی بین الاقوامی فورم پر نیپالی اور بھارتی مندوبین کے درمیان جنوبی ایشیا کے سیاسی مسائل یا نیپال بھارت تعلقات پر بحث دیکھنے کا موقعہ ملے تو آپ پاک بھارت مندوبین کے مابین بحث میں پیدا ہونے والی گرمی بھول جائیں گے۔
راقم الحروف کو نیپال میں منعقدہ سیمینارز اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کیلئے جانے کا متعدد بار اتفاق ہوا۔ ان مواقع پر نیپال کے پڑھے لکھے طبقے‘ خصوصاً یونیورسٹیوں کے پروفیسروں اور طلبہ سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ ملک میں بھارت کے بارے میں انتہائی درجے کی اور حیران کن حد تک بد گمانی پائی جاتی ہے۔ اپنے ایک نیپالی دوست سے ایک دفعہ میں نے ذکر کیا کہ نیپال اپنے دریائوں‘ ندی نالوں اور آبشاروں کی بدولت پن بجلی کی دولت سے مالا مال ہے جبکہ شمالی بھارت کو بجلی کی سخت کمی کا سامنا ہے‘ آپ بھارت کو اس میں سرمایہ کاری کی کیوں دعوت نہیں دیتے؟ نیپالی دوست کاجواب تھا: نیپالیوں کو ڈر ہے‘ بھارت جغرافیائی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر سستے نرخ پر بجلی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
نیپال اور بھارت کے تعلقات کے بارے میں اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ نیپال میں بھارت کے چند اقدامات پر احتجاجی مظاہروں کا جو سلسلہ جاری ہے‘ وہ اصل مسئلہ نہیں بلکہ مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی بنا پر چین بھارت مخاصمت میں نیپال کی جیو سٹریٹیجک اہمیت کے سبب ہے۔ 1950 میں امن اور دوستی کے ایک معاہدے پر بھارت اور نیپال نے دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت نے نیپال کے خارجہ تعلقات کو کسی حد تک اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا؛ اگرچہ اس کے بعد اس معاہدے میں ترمیم کر دی گئی تھی‘ مگر اب بھی نیپال سے بھارت کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہاں چین کو قدم جمانے کا موقعہ فراہم نہ کرے۔ مگر نیپال کے عوام اور بیشتر سیاسی پارٹیاں چین کے ساتھ تجارتی اور معاشی ہی نہیں بلکہ عسکری تعلقات بھی قائم کرنا چاہتی ہیں۔ نیپال چین کے بارے میں بھارت کی پالیسی پر من و عن کاربند نہیں ہونا چاہتا‘ بلکہ قومی مفاد کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال چین کے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں بھارت کی مخالفت کے باوجود نیپال کی شمولیت ہے۔ بھارت نیپال کی خارجہ پالیسی خصوصاً ہمسایہ ممالک کے ساتھ نیپال کے تعلقات پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ وہ نیپال کی سرزمین کو چین کے خلاف اپنی جنگی حکمتِ عملی کے لئے بھی استعمال کرنا چاہتا ہے‘ مثلاً چین کے ساتھ سرحد پر اپنی فوجیں بھیجنے کیلئے بھارت نے چار سڑکوں کی تعمیر شروع کر رکھی ہے۔ ان میں سے ایک 80 کلومیٹر سڑک کا 19 کلومیٹر حصہ ایسے علاقے سے گزرتا ہے‘ جو نیپال کی ملکیت ہے۔ نیپال نے اس پر اپنی ملکیت ثابت کرنے کیلئے ایک نقشہ بھی شائع کیا۔ اس پر بھارت نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور نیپال کی طرف سے ملکیت کے دعوے کا اعلان کرنے کے باوجود بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 9 مئی کو اس سڑک کی تعمیر کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ اس پر نیپال کی حکومت اور عوام نے سخت احتجاج شروع کیا‘ جو اب تک جاری ہے۔ نیپال اور بھارت کے درمیان سٹریٹیجک اہمیت کے حامل دیگر علاقوں پر بھی تنازعات چلے آ رہے ہیں۔ ان میں ایک کالا پانی کا علاقہ بھی ہے۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپال کے درمیان ایک معاہدے کے تحت یہ علاقہ نیپال کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور بھارت کی یہاں کسی قسم کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں تھے‘ مگر 1962 کی سرحدی جنگ میں جب بھارت نے چین کے ہاتھوں شکست کھائی تو پسپا ہوتی ہوئی بھارتی فوج نے کالا پانی پر قبضہ کر کے یہاں چھائونی قائم کر لی۔ تب سے یہ علاقہ بھارت اور نیپال کے مابین متنازعہ چلا آ رہا ہے۔ بھارت ان تنازعات کو حل کرنے کے بجائے اس وقت خصوصی طور پر جو ہوا دے رہا ہے‘ اس کی بڑی وجہ لداخ اور دوسرے علاقوں میں بھارت اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔