"DRA" (space) message & send to 7575

آئی ایم ایف کے مطالبات اور نیشنل سکیورٹی

پاکستان نے اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے گزشتہ برس جولائی میں آئی ایم ایف کے ساتھ سوا تین سال پر محیط 6 ارب ڈالر کے قرض کے حصول کیلئے ایک پیکیج پر دستخط کئے تھے۔ اس پیکیج کی منظوری دیتے ہوئے آئی ایم ایف نے کچھ شرائط عائد کی تھیں۔ ان شرائط میں سے کئی کا تعلق ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر کے تعین اور سٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ فیڈرل بیورو آف ریونیو کی تنظیم اور اختیارات کے بارے میں اصلاحات سے تھا‘ لیکن سب سے زیادہ اہم شرط یہ تھی کہ آمدن اور اخراجات کے درمیان وسیع عدم توازن کی وجہ سے ملک کو ہر سال جس مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اسے ذرائع آمدنی یعنی ٹیکس ریونیو میں اضافے اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کر کے پورا کیا جائے کیونکہ یہ اقدامات نہ صرف قرضوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کیلئے ضروری ہیں بلکہ ان کے بغیر نہ تو زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی برآمدات میں اضافہ کر کے بیرونی تجارتی خسارے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے معیشت کی سست روی کی وجہ سے پاکستان ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باوجود اپنی برآمدات میں اضافہ نہ کر سکا لیکن تجارتی خسارے کو کم کرنے کیلئے حکومت نے درآمدات پر پابندی لگا دی۔ اس سے بیرونی تجارت میں خسارہ تو کم ہو گیا‘ لیکن معیشت کا پہیہ جام ہو گیا‘ کیونکہ جن اشیا کی درآمدات پر پابندی لگائی گئی‘ ان میں بعض ایسی خام اشیا بھی شامل تھیں جو ہماری انڈسٹری میں استعمال ہوتی ہیں اور ان کے بغیر مصنوعات کی تیاری ممکن نہیں۔ اس طرح پیداواری عمل ٹھپ ہونے سے ٹیکسوں کی وصولی متاثر ہوئی اور کم ٹیکس وصول ہونے کی وجہ سے مالی خسارے میں کمی نہ ہو سکی۔ آئی ایم ایف نے مالی خسارہ کم کرنے کیلئے حکومت پاکستان کو ٹیکس وصولیوں کی شکل میں جو ٹارگٹ دیا تھا‘ وہ اس سال پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ مالی خسارے کو کم کرنے کیلئے غیر پیداواری اخراجات میں مزید اضافہ نہ کیا جائے‘ غیر پیداواری اخراجات کی نمایاں آئٹمز دفاعی بجٹ‘ پنشن اور ملازمین کی تنخواہیں ہیں۔آئی ایم ایف نے اپنی تازہ ترین ہدایات میں حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستانی معیشت پر جو دبائو پڑا ہے‘ اس کے پیشِ نظر غیر پیداواری اخراجات میں مزید اضافہ فوراً روک دیا جائے۔
آئی ایم ایف کی اس ہدایت نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ ملک میں ہوش ربا گرانی اور افراط زر نے تنخواہ دار طبقے کا جینا محال کر دیا ہے اور حکومت کو معلوم ہے کہ مہنگائی اور افراطِ زر میں اضافے کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے عوام میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ حکومت نے گزشتہ دو ماہ میں دو دفعہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی ہے۔ امید تھی کہ اس اقدام سے روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتیں نیچے آئیں گی‘ مگر اس کے برعکس آٹا‘ چینی‘ سبزی اور گوشت کے علاوہ تمام اشیا کے بھائو آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے تنخواہ دار طبقے کو آئندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں دس تا پندرہ فیصد اضافہ کرکے ریلیف دینے کا اعلان کیا تھا‘ مگر اب آئی ایم ایف کے بیان کی روشنی میں اس کیلئے ایسا کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے‘ کیونکہ اگر حکومت آئی ایم ایف کے بیان کو نظر انداز کر کے سول اور ملٹری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کر کے آئی ایم ایف کی ایک بنیادی شرط یعنی مالی خسارے کو کم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کا پورا پروگرام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے پاکستان کو 1.4 بلین ڈالر کی ہنگامی امداد مہیا کی ہے۔ اس طرح پاکستان کی سہولت کیلئے ایف اے ٹی ایف نے بھی انسدادِ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے ٹارگٹ پورا کرنے کے لئے پاکستان کو جون تک توسیع دے رکھی ہے۔ اگر ان رعایتوں کے باوجود حکومت آئی ایم ایف کے اصرار پر ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں مزید اضافے کو نہیں روکتی‘ یا دفاعی اخراجات کو منجمد نہیں کرتی تو اسے آئی ایم ایف کی طرف سے سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کو روکنے سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ دفاعی اخراجات کو منجمد کرنے کا مسئلہ ہے‘ کیونکہ پاکستان کو اپنی مشرقی اور مغربی‘ دونوں سرحدوں پر ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ اس کیلئے دفاعی اخراجات کو منجمد کرنا تقریباً نا ممکن نظر آتا ہے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر میں ملنے والی سرحد یعنی لائن آف کنٹرول پر صورتحال انتہائی کشیدہ ہے‘ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے مورچوں پر ناصرف ہلکے بلکہ بھاری ہتھیاروں‘ جن میں دور مار توپیں بھی شامل ہیں‘ کے ساتھ گولہ باری تقریباً ہر روز جاری رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان نے متعدد بار بین الاقوامی برادری کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ صورتحال کسی وقت بھی ایک خطرناک موڑ لے سکتی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو بھارت کی طرف سے کسی بھی ممکنہ مہم جوئی کا مقابلہ کرنے کیلئے چوکنا رہنا پڑے گا اور اپنی بری‘ بحری اور ہوائی افواج کو صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہر قسم کے کیل کانٹے سے لیس رکھنا پڑے گا۔ ان حالات میں دفاعی اخراجات کو منجمد کرنا محال نظر آتا ہے۔ اسی طرح مغربی سرحدیں بھی پوری طرح پُرامن نہیں۔ افغانستان سے ملحقہ اپنی بین الاقوامی سرحد پر پاکستان نے دو سے ڈھائی لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔ اتنی بڑی فوج کی تعیناتی کا مقصد اندرونی طور پر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا اور سرحد پار سے دہشت گردوں کے حملوں کو روکنا ہے۔ پاکستان نے افغانستان سے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے گھس آنے کو روکنے کیلئے پاک افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ اس باڑ پر اب تک اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں اور ابھی مزید رقم خرچ کرنا پڑے گی کیونکہ باڑ ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ اسی طرح بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد پاکستان نے 900 کلو میٹر لمبی پاک ایران سرحد پر بھی باڑ لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کے اصرار پر دفاعی اخراجات منجمد کر دئیے جائیں تو ان منصوبوں کو روکنا پڑے گا‘ جبکہ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ 
اطلاعات کے مطابق حکومتِ کے نمائندے عنقریب آئی ایم ایف سے بات چیت کریں گے اور عالمی مالیاتی ادارے کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ حکومت نہ تو مہنگائی تلے دبے سرکاری ملازمین کے لئے اعلان کردہ ریلیف پیکیج کو مکمل طور پر واپس لے سکتی ہے اور نہ ہی موجودہ نازک صورتحال کے پیشِ نظر دفاعی اخراجات کو منجمد کر سکتی ہے کیونکہ اس سے ملک کی سکیورٹی کے خطر ے سے دوچار ہونے کا اندیشہ ہے‘ لیکن امریکہ کی ایک سابق سفارت کار ایلس ویلز کے حالیہ کچھ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ چاہے گی کہ پاکستان بھارت اور افغانستان‘ دونوں کی جانب امن اور مصالحت کا ہاتھ بڑھا کر سرحدوں پر کشیدگی کم کرنے اور امن قائم کرنے کی کوشش کرے۔ اسی لئے پاکستان پر بار بار زور دیا جا رہا ہے کہ وہ خطرات کا سدِ باب کرنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرے‘ مگر پاکستان اور بھارت اور پاکستان و افغانستان کے درمیان اعتماد کے فقدان کے سبب ایسا کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس کیلئے شاید امریکہ جیسی بڑی طاقت کو مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں