"DRA" (space) message & send to 7575

چین بھارت سرحدی کشیدگی اور بھارتی میڈیا

اسلام آباد میں قیام کے دوران پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے چین کے ایک وفد کے ایک رکن سے میں نے پوچھا کہ آج کل چین اور بھارت کے تعلقات کیسے ہیں؟ یہ غالباً 2005ء یا 2006ء کی بات ہے۔ میرے سوال کے جواب میں وفد میں شامل ایک رکن نے کہا کہ حکومتی سطح پر تو تعلقات اچھے ہیں‘ مگر بھارتی میڈیا ان کو خراب کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہا ہے۔ یورپی نوآبادیاتی دور کے بے شمار متنازعہ علاقائی اور سرحدی معاملات میں سے ایک مسئلہ چین اور بھارت کی 4000 کلومیٹر لمبی سرحد بھی ہے۔ اس کا ایک سرا مشرق میں سکم اور اروناچل پردیش اور دوسرا سرا مغرب میں لداخ تک پھیلاہوا ہے۔ ایشیا کے ان دو بڑے ممالک کے درمیان اتنی لمبی اور دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں سے گزرتی ہوئی سرحدی لکیر کو 1914ء میں برطانوی سامراج نے اپنے مفادات کے تحت کھینچا تھا۔ اس میں نہ تو بھارتی اور نہ ہی چینی عوام کی رائے شامل تھی‘ کیونکہ اس وقت ہندوستان ایک برطانوی نوآبادی تھا‘ اور چین میں اندرونی خلفشار کی وجہ سے کوئی مضبوط مرکزی حکومت نہ تھی۔ ان حالات سے فائدہ اٹھا کر برطانیہ نے ایسے کئی علاقے بھی ہندوستان میں شامل کئے‘ جو تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے کئی صدیوں سے چین کا حصہ چلے آ رہے تھے۔ 
1949ء میں چین میں کمیونسٹ حکومت کے قیام کے بعد چین نے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ ایک واضح اور مستقل نشاندہی کی بنیاد پر سرحدیں طے کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ تقریباً 18 ممالک ہیں‘ جن کے ساتھ چین کی زمینی اور سمندری سرحدیں ملتی ہیں۔ گزشتہ تقریباً چھ دہائیوں میں چین ان تمام ممالک کے ساتھ پیچیدہ اور طویل مذاکرات کے ذریعے سرحدوں کی متفقہ نشاندہی کر چکا ہے۔ صرف بھارت ایک ایسا ملک ہے‘ جس کے ساتھ اس کا ابھی تک سرحدی تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ اس تنازعہ کی وجہ سے دونوں ملکوں میں 1962ء میں جنگ ہوئی‘ مگر اس جنگ سے یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ چین کا ابھی تک دعویٰ ہے کہ بھارت نے اس کے 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سرحد کے ساتھ ساتھ تعینات دونوں ملکوں کے فوجی دستے کبھی کبھی متنازعہ علاقوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور یوں دونوں ملکوں کے فوجی آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ بعض اوقات کئی ہفتوں بلکہ مہینوں پر محیط ہوتا ہے‘ مگر 1975 ء کے بعد سے دونوں ملکوں نے گولی چلانے سے احتراز کیا اور مسئلہ بات چیت‘ دلائل اور ڈپلومیسی سے حل ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال 2017 ء میں سکم‘ بھوٹان اور چین کی سرحدوں کے سنگم پر واقع ڈوکلام پر اٹھنے والا تنازعہ تھا۔ بھارت اور چین کے فوجی دستے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تقریباً نو ماہ تک کھڑے رہے۔ اس دوران دھکم پیل‘ گھونسہ بازی یا پتھروں کا استعمال بھی ہوتا رہا۔ آخرکار یہ مسئلہ حل ہو گیا‘ حالانکہ بھارتی میڈیا اسے اتنا بڑھاچڑھا کر پیش کرتا رہا کہ معلوم ہوتا‘ بھارت اور چین کے مابین ایک اور سرحدی جنگ ہونے والی ہے۔اسی طرح کا ایک تنازعہ حال ہی میں لداخ میں کھڑا ہوا ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین کے کچھ فوجی جوان لداخ میں سرحد پار کرکے ایسے علاقے پر قابض ہو گئے‘ جو بھارت کا علاقہ ہے‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ چارہزار کلومیٹر سرحد پر ایک نہیں متعدد علاقے ایسے ہیں‘ جن کی باقاعدہ نشاندہی نہیں ہوئی‘ مگر دونوں ممالک ان کے دعویدار ہیں۔ ان پر اپنی ملکیت ثابت کرنے کا واحد طریقہ فوجی گشت ہے۔ کبھی بھارتی فوجی ان علاقوں میں گھس آتے ہیں اور کبھی چینی فوجی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے ایک سابق صدر پرناب مکھرجی نے ایک دفعہ کہا تھا :مشترکہ سرحد پار کرکے متنازعہ علاقوں میں چینی فوجی جوانوں کے گھس آنے کے واقعات خلاف معمول نہیں۔ 1962ء سے اب تک ایسے سینکڑوں واقعات ہو چکے ہیں اور ایسے مسائل کو حل کرنے کا ایک میکنزم موجود ہے‘ اس لئے میڈیا میں ان کو ہوا دینے کی ضرورت نہیں۔ سابق بھارتی صدر نے یہ بیان اس وقت دیا جب بھارت میں 2014 ء کے پارلیمانی انتخابات ہونے والے تھے اور بی جے پی نے نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ نریندر مودی نے نامزدگی کے فوراً بعد پہلا بیان یہ دیا تھا کہ منتخب ہونے کے بعد پاکستان اور چین کو سبق سکھائوں گا۔ وجہ یہ تھی کہ بھارتی میڈیا نے 2013 اور 2014ء میں چین بھارت سرحدی کشیدگی کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھاکہ یہ بھارت میں 2014ء کے پارلیمانی انتخابات کا ایک اہم ایشو بن گیا تھا۔ نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم میں اس ایشو کو اچھال کر انتہا پسند ہندوئوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اپریل 2014ء میں چین بھارت سرحدی علاقوں‘ خصوصاً لداخ میں صورتحال کو بھارتی میڈیا نے بیان کرتے وقت مبالغہ آرائی کی تمام حدیں پار کر ڈالیں‘ حالانکہ یہ معمول کی دراندازی تھی‘ جس کی بقول پرناب مکھرجی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارت کے ایک سابق خارجہ سلمان حیدر نے کہا تھا کہ بھارتی میڈیا کاکردار اس مقولے پر پوری طرح صادق آتا ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ لداخ کی موجودہ صورتحال میں بھی بھارتی میڈیا کا ویسا ہی کردار ہے۔ 
اس دفعہ موسم گرما کے آغاز میں چین کی سرحدی فوج نے اپنی معمول کی گشت سنبھالی تو چارہزار کلومیٹر لمبی سرحد چارمقامات ایسے تھے‘ جہاں دونوں ملکوں کے سرحدی دستوں کے مابین مڈبھیڑ ہوئی۔ ان میں ایک مشرق میں سکم اوربھوٹان کی سرحدوں سے ملنے والا چند مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے۔ چین اور بھارت کیلئے یہ علاقہ جنگی اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر قبضہ کرنے کیلئے بھارت نے کچھ سڑکیں اور راستے تعمیر کئے۔ ان میں سے ایک سڑک نیپال سے گزرتی ہے۔ اس پر نیپال نے بھارت سے الگ احتجاج کیا ہے۔ باقی تین مقامات لداخ میں واقع ہیں۔ بھارت کا الزام ہے کہ چین نے لداخ میں چین بھارت سرحد‘ جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے‘ کو عبور کرکے 60 کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا ہے۔ بھارتی فوجیوں نے جب چینیوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی تو انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی اطلاعات نشر کرتے ہوئے بھارتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے رائی کا پہاڑ بنا دیا اور یہ تک پروپیگنڈا کیا کہ کورونا وائرس کے مسئلے پر دنیا کی تنقید سے بوکھلا کرچین بھارت پر فوجی دبائو ڈال کر اپنی طاقت منوانا چاہتا ہے۔ اسی طرح ساؤتھ چائنا سی میں چینی حکومت نے امریکہ کی اشتعال انگیزیوں پر جو وارننگ جاری کی‘ بھارتی میڈیا نے اسے بھی لداخ کی صورتحال سے جوڑ دیا‘ حالانکہ غیر جانبدار عالمی حلقوں کی طرف سے جو تجزیے سامنے آئے‘ ان سے واضح ہوگیا کہ اس محاذ آرائی کی اصل وجہ بھارت کی طرف سے سرحد کے ساتھ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ہے۔ ان سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کا مقصد چین کی سرحد کے ساتھ ملنے والے علاقوں میں بھارتی افواج کی نقل وحرکت کو آسان بنانا ہے۔ چین نے تو اپنا محض ردعمل ظاہر کیا ہے اور چین کے اس ردعمل کے نتیجے میں بھارت کو چین کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں‘ ان کو دور کرنے کیلئے دونوں ملکوں میں ملٹری کمانڈرز کی سطح پر بات چیت بھی ہوئی۔ اس بات چیت کو بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ''حوصلہ افزا‘‘ قرار دیا تھا۔ اس سے قبل چین اور بھارت کی حکومتیں اعلان کرچکی ہیں کہ وہ اس مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ‘ لیکن بھارتی میڈیا اس کے برعکس تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی میڈیا نے اس خبر کو نمایاں طور پر نشر کیاکہ چین نے بھاری ہتھیاروں سے لیس اپنی دس ہزار فوج سرحد پر جمع کردی ہے‘ جوکسی وقت بھی حملہ آور ہو سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مس انفارمیشن کی اس مہم میں امریکہ بھارت کا پوراپورا ساتھ دے رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں