وفاقی حکومت کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت بیشتر حلقوں کی طرف سے جو اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں مشیروں اور معاونینِ خصوصی کی تعداد نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ حکومتی معاملات نمٹانے میں غیر منتخب اراکین‘ منتخب اراکینِ کابینہ سے زیادہ فعال اور با اختیار ہیں۔ فنانس‘ کامرس‘ صحت اور پارلیمانی امور ایسے محکمے ہیں‘ جن کا چارج رسمی طور پر تو منتخب پارلیمانی ارکان کے ہاتھ میں ہے‘ مگر عملاً فیصلہ سازی کے اختیارات اور عمل درآمد غیر منتخب مشیران اور معاونین خصوصی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس صورت حال پر وفاقی کابینہ کے منتخب ارکان میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اب یہ بے چینی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ وفاقی کابینہ کے کم از کم دو سینئر ارکان نے میڈیا کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے تو کھل کر اس کی مخالفت کی‘ اسے پارلیمانی روایات کے منافی قرار دیا اور دعویٰ کیا ہے کہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بہت سے اراکین پارلیمنٹ اس صورت حال پر ناخوش ہیں۔
وفاقی وزیر برائے ہوا بازی نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابینہ میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں‘ جن کا خود انہیں اتا پتا معلوم نہیں۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے دو ارکان قومی اسمبلی میڈیا کے سامنے کر چکے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ کی بھاری تعداد ان کے خیالات سے متفق ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ عوام کے سامنے جواب دہ وہ ہیں‘ مگر اختیارات ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہیں‘ جو غیر منتخب ہونے کی وجہ سے کسی فورم پر عوام کے سامنے جواب دہ نہیں۔
وفاقی کابینہ کے حجم اور اس میں شامل غیر منتخب ارکان کی موجودگی پر انگلیاں اگرچہ کافی عرصے سے اٹھائی جا رہی تھیں‘ مگر اس پر سب سے پہلے اعتراض پاکستان کے فاضل چیف جسٹس مسٹر جسٹس گلزار احمد نے اپریل‘ مئی میں کورونا وائرس کے خلاف حکومتی پالیسی اور اقدامات پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹھایا تھا۔ معزز چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں وفاقی کابینہ کے غیر معمولی حجم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ نصف سنچری کے بجائے وفاقی کابینہ کی تعداد دس تک کافی ہے۔ اس دوران فاضل چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ وفاقی کابینہ میں غیر منتخب ارکان کی تعداد غیر معمولی ہے۔
اس موضوع پر مزید کچھ کہنے سے پہلے ہم اس مسئلے کو آئین کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ارکان کل اراکینِ پارلیمنٹ کے گیارہ فیصد تک رکھ سکتے ہیں۔ موجودہ صورت حال کے تحت اس حساب سے وزیر اعظم اپنی کابینہ میں زیادہ سے زیادہ 49 ارکان شامل کر سکتے ہیں۔ اس وقت کابینہ کے ارکان کی تعداد 49 ہی ہے جو کہ آئین کی متعلقہ دفعات کے عین مطابق ہے۔ ان 49 ارکان میں سے 29 منتخب اور 20 غیر منتخب اراکین ہیں۔ 29 منتخب میں سے 25 وزیر اور 4 وزرائے مملکت ہیں جبکہ 20 (تاحال) غیر منتخب اراکین میں سے 5 مشیران ہیں جبکہ 15 معاونینِ خصوصی ہیں۔ آئین کے تحت وزیر اعظم زیادہ سے زیادہ پانچ مشیر مقرر کر سکتے ہیں۔ اس لئے جہاں تک وفاقی کابینہ کے حجم اور اس کی ہیئت کا تعلق ہے‘ کابینہ کے غیر منتخب اراکین کے مقابلے میں منتخب اراکین کی تعداد زیادہ ہے۔ کابینہ کے کل اراکین کی تعداد بھی آئین کی طرف سے مقرر کردہ حد سے تجاوز نہیں کرتی‘ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکینِ کابینہ اور پارلیمنٹ کی بے چینی اور شکایت کا اصل سبب یہ ہے کہ فیصلہ سازی میں وزیر اعظم منتخب اراکین کے بجائے غیر منتخب اراکینِ کابینہ کی رائے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وزیرِ اعظم کی جانب سے اپنے سابقہ اعلانات اور وعدوں کے برعکس قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے اجتناب بھی پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی کے لئے سبکی کا باعث بن رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سینئر پارٹی رہنمائوں اور منتخب اراکینِ کابینہ نے وزیر اعظم کی توجہ اس معاملے کی جانب مبذول کرائی اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ غیر منتخب مشیران اور معاونینِ خصوصی کی طرف اپنا جھکائو کم کر کے منتخب اراکین کابینہ کو اپنے اپنے محکموں کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا موقعہ دیں۔ جناب وزیر اعظم پر یہ بھی دبائو ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس بلا کے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے سینیٹرز اور ایم این ایز کی معروضات کو سنیں اور اس طرح پارٹی کے رینک اینڈ فائل میں پائی جانے والی بے چینی کو ختم کریں۔ ممکن ہے ارکانِ پارلیمنٹ کے اس دبائو کے تحت وزیر اعظم دونوں ایوانوں کی پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس بُلا لیں اور ان کے اراکین کو اپنے تحفظات بیان کرنے کا موقعہ دیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وزیر اعظم کابینہ کے منتخب اراکین کی کارکردگی کی برسرِ عام تعریف کریں‘ انہیں خوش کرنے کی کوشش کریں‘ لیکن جہاں تک منتخب اور سیاسی اراکین کے مقابلے میں غیر سیاسی اور غیر منتخب اراکینِ کابینہ پر زیادہ انحصار کرنے کا سوال ہے‘ اس میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں۔ اس لئے کہ یہ راہ ایک مخصوص سوچ اور منصوبے کے تحت اختیار کی گئی ہے اور اس کا مقصد 1973 کے آئین کے تحت قائم پارلیمانی نظام کے متبادل ایک ایسے سیاسی اور انتظامی نظام کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے‘ جس میں سیاست دانوں کا عمل دخل کم از کم ہو۔ گزشتہ چھ برسوں سے سیاست دانوں کو بد عنوان‘ اقربا پرور‘ نا اہل‘ بلکہ چور اور ڈاکو کہہ کر سیاسی قوتوں کو بدنام کرنے کی جو کوشش کی گئی ہے‘ وہ اس منصوبے کی ایک کڑی ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو چوروں اور ڈاکوئوں کا ٹولہ کہا گیا‘ اور بار بار مطعون کیا جاتا رہا۔
وزیر اعظم کے ایک قریبی مشیر بابر اعوان کہہ چکے ہیں کہ یہ پارلیمنٹ عوام میں اپنا اعتماد کھو چکی ہے‘ کیونکہ جس مقصد کے لئے اس کی تشکیل کی گئی تھی‘ موجود پارلیمنٹ اس کے حصول میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم بابر اعوان صاحب کی اس رائے سے پوری طرح متفق ہیں۔ اسی لئے خواجہ آصف کے بقول انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسے وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کر لیا ہے‘ جس نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اوسطاً سب سے کم شرکت کی ہے۔ اور غالباً یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے حکومت کو ایک سے زیادہ مرتبہ مشورہ دینے کے باوجود کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ کرنے کیلئے ایک واضح اور متفقہ پالیسی بنائی جائے اور اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے‘ وزیر اعظم صاحب نے پارلیمنٹ کی طرف رجوع نہیں کیا‘ بلکہ پارلیمنٹ اور آئینی فریم ورک سے باہر ایسے افراد اور اداروں پرانحصار کیا ہے جو پل پل کی خبر رکھے اور موقعہ پر حکم صادر کرنے میں مستعدی تو دکھا سکتے ہیں‘ مگر ایک طویل المیعاد ہمہ گیر پالیسی تشکیل نہیں دے سکتے۔ اس کے لئے پارلیمنٹ ہی مناسب اور موزوں پلیٹ فارم ہے۔ خود فاضل چیف جسٹس آف پاکستان کہہ چکے ہیں کہ اگر دیگر ادارے کام کر سکتے ہیں تو پارلیمنٹ فعال کیوں نہیں ہو سکتی؟ اور خاص طور پر اس موقعہ پر جب کہ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا عصرِ حاضر کے سب سے بڑے چیلنج سے نبرد آزما ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو آئین کے مطابق پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے اپنا کردار ادا کرنے کا موقعہ ملنا چاہئے‘ مگر وزیر اعظم اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق اس کی ضرورت کے قائل نہیں۔ انہیں اپنی سوچ کے لئے چونکہ غیر سیاسسی اور غیر منتخب عناصر کی طرف سے سپورٹ اور حوصلہ افزائی حاصل ہوتی ہے‘ اس لئے وہ کبھی بھی اپنے پسندیدہ سیاسی اور غیر سیاسی اراکینِ کابینہ پر انحصار کم کرنا پسند نہیں کریں گے۔