ڈیوک آف ولنگٹن کا اصلی نام آرتھر ولزلے (Arthur Wellesley) تھا۔ ڈیوک آف ولنگٹن کا خطاب انہیں 1815 میں نپولین بونا پارٹ کو واٹرلو کی جنگ میں فیصلہ کن شکست دینے پر ملا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس لڑائی میں نپولین کی شکست کا باعث آرتھر ولزلے کی جرنیلی سے زیادہ پرشین (Prussian) جنرل بلوشر کی فوج کی عین اس وقت لڑائی میں مداخلت تھی‘ جب آرتھر ولزلے کی کمان میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی فوج نپولین کے ہاتھوں تقریباً شکست کھا چکی تھی۔ اس کے باوجود جب آرتھر ولزلے اپنے ملک واپس پہنچے تو برطانیہ کے عوام نے ان کا ہیرو کی حیثیت سے استقبال کیا اور انہیں فرسٹ ڈیوک آف ولنگٹن کے خطاب سے نوازا گیا۔ ایک حد تک یہ عوامی پذیرائی جائز بھی تھی‘ کیونکہ نپولین‘ جس نے انقلابِ فرانس کے بعد پورے یورپ کو فتح کر لیا تھا‘ کو شکست دینا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس سے نپولیونک وارز (The Napoleonic Wars) کا وہ سلسلہ ہمیشہ کے ختم ہو گیا‘ جو 1803 سے 1815 تک جاری رہا اور جس نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا‘ اور اس کا کریڈٹ یقیناً ڈیوک آف ولنگٹن کو ہی جاتا تھا‘ مگر اس مرحلے پر ڈیوک آف ولنگٹن کے ذہن میں خیال آیا کہ میں میدان جنگ کی طرح میدانِ سیاست میں بھی ایسی ہی شہرت اور کامیابی حاصل کر سکتا ہوں‘ آخر جنگ اور سیاست کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جرمنی کے مشہور سٹریٹیجک تھنکر کلازوٹز (Clausewitz) نے کہا تھا کہ جنگ سیاست کا ہی تسلسل ہے‘ فرق صرف یہ ہے کہ مقاصد کے حصول کے لئے استعمال ہونے والے ذرائع مختلف ہوتے ہیں۔ ڈیوک آف ولنگٹن‘ کلازوٹز کے اس مشہور مقولے سے یقیناً واقف ہوں گے۔ اسی لئے انہوں نے وردی اتار کر سول لبادہ اوڑھا‘ اور سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے ٹوری (قدامت پسند) پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی‘ لیکن جلد ہی انہیں معلوم ہو گیا کہ جنگ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تو ہو سکتا ہے‘ مگر دونوں کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ بعض اوقات جنگ کے بجائے دیگر ذرائع مثلاً ڈپلومیسی‘ سیاسی مقاصد کے حصول میں زیادہ کامیاب اور مفید ثابت ہوتے ہیں۔
ماضی قریب سے ایسے کئی جرنیلوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں‘ جنہوں نے اپنے ملٹری کیریئر میں شہرت کی انتہائی بلندیوں کو چھونے کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور شہرت حاصل کی‘ لیکن ان کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ ملٹری کیریئر کو خیر باد کہہ کر جب انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور کبھی اپنی فوجی خدمات کے عوض عوام سے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جنرل آئزن ہاور دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کے سپریم کمانڈر تھے‘ مگر صدر آئزن ہاور بننے کے بعد انہوں نے کبھی اپنی فوجی کامیابیوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ چارلس ڈیگال دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس پر جرمنی کے قبضے کے خلاف مزاحمت کا سمبل تھے۔ ملک کا صدر بننے کے بعد انہوں نے الجزائر کے تنازع میں فرانس کی جان چھڑائی‘ لیکن جب اپنی سوچ کے مطابق فرانس میں آئینی اصلاحات نافذ کرنا چاہیں تو اس کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے فرانسیسی قوم کو اپنی ''فوجی خدمات‘‘ کا واسطہ نہیں دیا‘ بلکہ جب قوم کی اکثریت نے ان کی سیاسی سوچ سے اتفاق نہ کیا تو وہ مستعفی ہو کر گھر چلے گئے‘ لیکن ڈیوک آف ولنگٹن کی داستان مختلف ہے۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنی قدامت پسند پارٹی کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوشش کی‘ حالانکہ حالات ایک لبرل اور ڈیموکریٹک ماحول کے حق میں تھے‘ مگر ڈیوک آف ولنگٹن نے اپنی یعنی کنزرویٹو پارٹی کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ایسے اقدامات کئے کہ برطانیہ میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ مہنگائی بڑھ گئی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ عوام کی شکایات کا ازالہ کرنے اور مسائل پر کان دھرنے کے بجائے آنکھیں بند کر کے وہ اپنی ضد پر اڑا رہا۔ اس کے نتیجے میں حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ عوام نے احتجاج کا راستہ اپنا لیا اور احتجاج کا ٹارگٹ ڈیوک آف ولنگٹن تھا۔ ان کے احتجاج کا طریقہ یہ تھا کہ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ڈیوک آف ولنگٹن کے محل کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور اپنا پُر زور احتجاج رجسٹر کروانے کے لئے محل کی دیواروں اور کھڑکیوں پر پتھر برساتے۔ چونکہ ڈیوک کے محل کی کھڑکیاں اور دروازے شیشے کے بنے ہوئے تھے‘ اس لئے مظاہرین کے پتھرائو سے کافی نقصان ہوا۔ لیکن عوام کی آواز پر توجہ دینے کے بجائے اس نقصان کو روکنے یعنی اپنے محل کی کھڑکیوں اور دروازوں میں لگے شیشوں کی حفاظت کے لئے ڈیوک آف ولنگٹن نے لوہے کی بڑی بڑی چادریں نصب کرا دیں۔ اس طرح ڈیوک آف ولنگٹن کا نام ''آئرن ڈیوک‘‘پڑ گیا‘ جو آج تک اس کی سوانح عمری اور تاریخ کا حصہ ہے۔ ڈیوک آف ولنگٹن کو دو دفعہ برطانیہ کا وزیر اعظم بننے کا موقع ملا‘ مگر وہ عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ برطانیہ کی تاریخ میں واٹرلو کے اس ہیرو کو ملک کا ناکام ترین وزیر اعظم گردانا جاتا ہے۔
کسی ایک شعبے میں غیر معمولی پرفارمنس کی بنیاد پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے بعد سیاست کے میدان میں پستی کا شکار ہونے کی ایک مثال بنگلہ دیش کے پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کی ہے۔ ڈاکٹر یونس چٹاگانگ یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر تھے۔ وہیں پہ ان کے ذہن میں مائیکرو کریڈٹ/ فنانس کی سکیم کا خیال آیا‘ جسے انہوں نے سب سے پہلے اپنے ملک میں رائج کیا۔ غریب لوگوں خصوصاً خواتین کو چھوٹے پیمانے پر بغیر سود یا بہت کم شرح سود پر قرضہ دینے کی یہ سکیم اتنی کامیاب ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے اختیار کر لیا۔ ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش اور دنیا کے دیگر ممالک میں 70 لاکھ غریب افراد‘ جن میں اکثریت عورتوں کی تھی‘ اس سکیم سے مستفید ہوئے اور ان کی زندگیاں بدل گئیں۔ ڈاکٹر یونس کو ''غریب آدمی کے بینکر‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 2006 میں انہیں نوبیل امن انعام عطا کیا گیا۔ نوبیل انعام حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر یونس نے بھی ڈیوک آف ولنگٹن یعنی ''آئرن ڈیوک‘‘ کی طرح سوچا کہ وہ سیاست کے میدان میں بھی اسی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں۔ 2007 میں بنگلہ دیش میں فوج نے اقتدار سنبھال لیا اور بنگلہ فوج کو اس وقت ایک ایسے آدمی کی تلاش تھی جسے دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے مقابلے میں ایک ''کلین‘‘ لیڈر کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ ان کی نظر ڈاکٹر یونس پر پڑی اور فوج کی ایما پر انہوں نے اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ان کا سیاست میں آنے کا مقصد روایتی سیاست دانوں کی کرپشن اور اقربا پروری سے ملک کو نجات دلانا ہے۔ لیکن بنگلہ دیشی فوج‘ جس نے عارضی طور پر ملک کا اقتدار سنبھالا تھا‘ نہ تو سیاسی استحکام پیدا کر سکی اور نہ ہی کرپشن سے ملک کو صاف کر سکی‘ بلکہ سیاسی ابتری اور معاشی بد حالی پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی؛ چنانچہ عوام سڑکوں پر نکل آئے اور نتیجتاً اقتدار واپس سیاست دانوں کے حوالے کر دیا گیا ‘ مگر اس مختصر ڈرامے میں اگر کسی نے سب سے زیادہ کھویا اور نقصان اٹھایا تو وہ ڈاکٹر یونس تھے۔ وزیر اعظم حسینہ واجد نے انہیں جمہوریت کا غدار کہہ کر ''گرامین بینک‘‘ کی سربراہی سے الگ کر دیا۔ عالمی سطح پر ڈاکٹر یونس کو جس تنقید اور مذمت کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ اس کے علاوہ ہے۔