پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھارت کو اتنی مرکزیت حاصل ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کے علاوہ سمندر پار دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو اسی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ بھارت کے ساتھ ہماری تین بڑی اور دو محدود پیمانے پر جنگیں ہو چکی ہیں۔ جن وجوہات یعنی تنازعات کی بنا پر یہ جنگیں لڑی گئیں‘ وہ ہنوز موجود ہیں‘ اس حوالے سے جو مسائل پیدا ہوئے تھے وہ بھی حل طلب ہیں اور ان مسائل کی موجودگی کے باعث دونوں ملکوں کے مابین شدید کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ اور یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ یہ کشیدگی بڑھ کر کہیں ایک بڑے تصادم کا باعث نہ بن جائے۔ اسی لئے پاکستان کو ہر دم چوکنا اور بھارت کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ہمارے وسائل بلکہ سفارتی توجہ بھی صرف ایک مسئلے پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں ہم متعدد ایسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ نہیں دے سکے‘ جن کے ساتھ نا صرف ہمارا ماضی مشترک رہا ہے بلکہ حال اور مستقبل میں بھی باہمی مفاد کی بنیاد پر متعدد شعبوں میں تعاون ہو سکتا ہے۔
دور جانے کی ضرورت نہیں‘ بھارت کو چھوڑ کر ایسے ممالک ہمارے اپنے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں موجود ہیں۔ ان میں سے جو ملک ہماری توجہ کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے‘ وہ بنگلہ دیش ہے‘ کیونکہ 24 برس تک یہ ملک پاکستان کا حصہ رہا ہے‘ اور اب بھی اس ملک کے باسیوں کے دلوں میں پاکستان کیلئے گہری محبت‘ خیر سگالی اور باہمی احترام کی بنیاد پر موجود ہے؛ تاہم ہم نے اس کا پورا پورا فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ تلخیوں کے کانٹوں سے اپنے دامن چھڑانے کی کوشش نہیں کی گئی؛ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ اب پاکستان اور بنگلہ دیش نئے سرے سے اپنے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دونوں ملکوں کے سینئر سفارت کاروں نے حال ہی میں ڈھاکہ میں ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں بنگلہ دیش کیلئے پاکستان کے ہائی کمشنر عمران صدیقی اور بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ شریک تھے۔ ملاقات کے بعد پاکستان کے ہائی کمشنر نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کا ملک ماضی کو پسِ پشت ڈال کر اور مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنگلہ دیش کے ساتھ خصوصاً تجارت اور کاروبار کے شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملاقات میں جن امور پر بات چیت ہوئی ہے ان میں کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے اقدامات اور دونوں ملکوں کے مابین ثقافتی تعلقات کا احیا بھی شامل تھا۔ پاکستان کے بنگلہ دیش کے ساتھ اس وقت بھی تجارتی‘ کاروباری اور ثقافتی تعلقات موجود ہیں‘ مثلاً 2018 میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو 778.8 ملین ڈالر کا سامان برآمد کیا تھا اور بنگلہ دیش سے 72 ملین ڈالر کی اشیا درآمد کی تھیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے بنگلہ دیش میں اہم سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان تجارت کے اس حجم کو ناکافی سمجھتا ہے اور اس میں مزید اضافہ کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے پرائیویٹ سیکٹرز کے مابین تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اگرچہ یکم جولائی کی اس ملاقات پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا؛ تاہم پاکستان کو امید ہے کہ بنگلہ دیش کی طرف سے مثبت جواب آئے گا کیونکہ ڈھاکہ کی طرف سے متعدد بار اسلام آباد کے ساتھ خوشگوار اور باہمی طور پر مفید تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے‘ بہرحال اب جبکہ پاکستان نے قدم آگے بڑھائے ہیں تو جس سپرٹ کے ساتھ پاکستان نے تعلقات کو آگے بڑھانے کی بات کی ہے‘ بنگلہ دیش کو بھی اسی سپرٹ کے ساتھ ماضی کو پسِ پشت ڈال کر آنے والے ادوار میں بہتر تعلقات کے لئے فراخ دلی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ جو تنازعات ہیں‘ وہ اپنی جگہ‘ ان کی موجودگی میں بھی تجارتی‘ کاروباری اور سماجی تعلقات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اختلافات اور تنازعات کے باوجود دو طرفہ بنیادوں پر مفید تعلقات اور تعاون جاری ہے جیسے بھارت اور سری لنکا میں متعدد معاملات پر اختلافات موجود ہیں بلکہ بعض معاملات میں تو ایک دوسرے کے خلاف شدید الزامات کا تبادلہ بھی ہو چکا ہے‘ مگر سری لنکا نے بھارتی شہریوں کو یہ رعایت دے رکھی ہے کہ وہ اس کے کسی ایئر پورٹ پر ملک کا ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وقت بھارت کے 12 شہروں اور کولمبو کے درمیان ہفتہ وار 147 پروازیں چل رہی ہیں۔ پاکستان سے اگر کولمبو جانا ہو تو براستہ دبئی جانا پڑتا ہے‘ کیونکہ کچھ عرصہ سے کراچی اور کولمبو کے درمیان براہ راست ہوائی رابطہ معطل ہے‘ حالانکہ پاکستان نے سری لنکا کو تامل باغیوں کی بغاوت کچلنے میں بہت اہم مدد فراہم کی تھی۔ اس کا اعتراف سری لنکا کی حکومت بھی کرتی ہے‘ مگر عوامی سطح پر دونوں ملکوں کے مابین روابط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دو طرفہ تجارت اس وقت تک فروغ نہیں پا سکتی جب تک فریقین کے مابین اعتماد نہ ہو‘ اور اعتماد کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات (CBMs) کی ضرورت ہوتی ہے‘ جن میں سب سے اہم نتیجہ خیز عوامی سطح پر روابط کا فروغ ہے۔ اس لئے بنگلہ دیش ہو یا جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک‘ پاکستان اگر باہمی تجارت اور کاروباری تعلقات کے قیام اور فروغ کا خواہش مند ہے تو اسے ایک ایسی اپروچ اختیار کرنا پڑے گی‘ جو پوری طرح دو طرفہ ہو اور کسی تیسرے ملک کے ساتھ وابستہ نہ ہو‘ کیونکہ جنوبی ایشیا کے ہر ملک کا جیو سٹریٹیجک مطمح نظر الگ ہے اور ضروری نہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ بھی مطابقت لازمی نہیں ہے۔ اس لئے پاکستان کو جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بناتے وقت آئیدر آر (Either or) کی پوزیشن اختیار نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنی توجہ صرف ایسے امور پر مرکوز رکھنی چاہئے جو سب کے لئے وِن وِن (Win Win) کا درجہ رکھتے ہوں۔ جنوبی ایشیا کے ممالک مثلاً نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ چین کے تعلقات کیوں پائیدار ثابت ہوئے ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین نے صرف دو طرفہ بنیادوں پر تعلقات استوار کرتے ہوئے تیسری پارٹی سے بالا تر تعلقات قائم کرنے کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔ دوسرے‘ پاکستان نے جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرتے وقت عوامی رابطوں کی طرف توجہ نہیں دی۔ ایک زمانہ تھا‘ جب پاکستان کی جامعات میں نیپال اور سری لنکا کے طالب علم نمایاں تعداد میں زیرِ تعلیم تھے‘ مگر اب نیپال‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور مالدیپ کے طالب علم بھارت کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ کیونکہ بھارت انہیں وطائف فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اس شعبے میں خاصا پیچھے چلا گیا ہے۔ ہمارے اربابِ بست و کشاد اس حقیقت سے یقیناً آگاہ ہوں گے کہ کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کے فروغ میں ایسے اقدامات بنیادی اہمیت و افادیت کے حامل ہوتے ہیں۔
2004 میں جب ''سارک‘‘ کی چیئرمین شپ پاکستان کے حصے میں آئی تھی تو اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے بنگلہ دیش‘ نیپال‘ بھوٹان اور سری لنکا کا دورہ کرتے ہوئے ان ممالک کے طلبا کے لئے 100 وظائف کا اعلان کیا تھا‘ مگر یہ اعلان محض اعلان تک ہی محدود رہا۔ جنرل مشرف کی حکومت یا ان کے بعد آنے والی کسی حکومت نے جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لئے کوئی اہم اقدام نہیں کیا۔ امید ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کے احیا سے پاکستان اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون کے اب ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔