بین الاقوامی سیاسی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کی توجہ آج کل امریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی پر مرکوز ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین اختلافات اور کشیدگی کی کہانی اگرچہ خاصی پُرانی ہے‘ مگر گزشتہ تین برسوں یعنی جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارت کا منصب سنبھالا ہے‘ اس میں اتنی شدت پیدا ہو گئی ہے کہ بعض حلقوں کی نظر میں صورت حال امریکہ اور چین کے مابین ایک نئی سرد جنگ (کولڈ وار) کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دونوں ملکوں کے مابین جن امور پر شدید اختلافات پیدا ہوئے‘ ان میں دو طرفہ تجارتی تعلقات‘ جنوبی بحیرہ چین (South China Sea) میں جہاز رانی کے حقوق‘ ہانگ کانگ میں چین کی طرف سے اندرونی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لئے کئے گئے اقدامات‘ کورونا وائرس کے بارے میں صدر ٹرمپ کے چین پر الزامات اور چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں سکیورٹی کے چینی اقدامات پر امریکہ کی نکتہ چینی شامل ہے۔ توقع تھی کہ کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد ان دونوں ملکوں میں کشیدگی کم ہو جائے گی تاکہ اس وبا پر قابو پانے کے سلسلے میں مل کر کام کیا جا سکے‘ مگر یہ توقع پوری نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے‘ کیونکہ امریکہ نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وبا کی آڑ میں ''علاقائی توسیع پسندی‘‘ کے اقدامات کر رہا ہے۔ چین کی جانب سے جنوبی بحیرہ چین میں عسکری سرگرمیوں میں اضافہ اور بھارت کے ساتھ مشترکہ مگر متنازع سرحد پر لداخ میں دونوں ملکوں کی سرحدی افواج کے درمیان جھڑپیں بھی اس فہرست میں شامل ہیں‘ جس پر صدر ٹرمپ کو تشویش ہے۔
جواب میں امریکہ نے بھی ایسے ہی اقدامات کئے‘ جن میں سے ایک موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان ٹکرائو کا بھی خطرہ پیدا ہو گیا تھا‘ مثلاً جون کے وسط میں لداخ میں بھارت کے ساتھ چین کی مڈ بھیڑ کے حوالے سے الزام اور ردِ الزام کی جنگ زوروں پر تھی۔ امریکہ نے اپنے تین بڑے طیارہ بردار جہازوں ''رونلڈ ریگن‘‘ ''تھیوڈور روز ویلٹ‘‘ اور ''نمٹز‘‘ کو چین کی طرف بڑھنے کا حکم دے دیا۔ امریکی بحریہ کے ان تین طیارہ بردار جہازوں کے ہمراہ تباہ کن جہاز‘ کروز‘ لڑاکا طیارے بھی موجود تھے۔ تبصرہ کاروں کی رائے میں امریکہ کا یہ ایک غیر معمولی اقدام تھا اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان تین طیارہ بردار جہازوں کی بیک وقت روانگی سے امریکہ انڈوپیسیفک خطے میں چین پر دبائو ڈالنے کے لئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے‘ مگر چین نے مشتعل ہونے سے انکار کر دیا اور یوں ان دونوں ملکوں کے مابین کسی تصادم کی نوبت نہیں آئی‘ لیکن امریکہ کی طرف سے چین کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ اپنے تازہ ترین اقدام میں صدر ٹرمپ نے امریکی شہر ہیوسٹن میں چینی قونصل خانہ بند کر دیا ہے۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ہیوسٹن کے قونصل خانے میں چین کا سفارتی عملہ جاسوسی کی کارروائیوں میں مصروف تھا۔ جواب میں چین نے بھی چنگ ڈو میں امریکی قونصل خانے کو بند کرنے اور عملے کو 72 گھنٹوں کے اندر چین سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اختلافات کے باوجود عام حالات میں قومیں ایک دوسرے کے خلاف ایسے اقدامات سے اجتناب کرتی ہیں‘ مگر صدر ٹرمپ کی انتظامیہ یکے بعد دیگرے اشتعال انگیز بیان جاری کر کے سیاسی پارہ اوپر چڑھانے پر بضد نظر آتی ہے اور اس کی وجہ سے متعدد حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ چین اور امریکہ اسی طرح سرد جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جو 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد 1991 تک امریکہ اور سابق سوویت یونین کے مابین جاری رہی تھی۔ کیا امریکہ اور چین کے مابین اس قسم کی سرد جنگ کا فی الواقع اندیشہ ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے جب ہم امریکہ اور سوویت یونین کے مابین کولڈ وار کا جائزہ لیتے ہیں تو چین اور امریکہ کے تعلقات میں موجودہ کشیدگی کے باوجود اس کا امکان کم نظر آتا ہے۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں: اس وقت بے شک چین امریکہ کے بعد دوسری بڑی معیشت ہے اور اگر اس کی ترقی کی رفتار کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو آئندہ بیس برسوں میں اس کی معیشت کا حجم امریکی معیشت سے بھی زیادہ ہو جائے گا‘ مگر امریکہ پھر بھی عسکری اور معاشی لحاظ سے دنیا کا طاقتور ترین ملک رہے گا۔ ایک اطلاع کے مطابق چینیوں نے اندازہ لگایا ہے کہ کم از کم اگلے پچیس برسوں میں عالمی مالیاتی منڈیوں میں ڈالر کا ہی راج رہے گا اور دنیا کے کسی ملک کی کرنسی اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ دفاعی اخراجات کے لحاظ سے دنیا بھر میں امریکہ کے بعد چین کا نمبر ہے‘ مگر امریکہ کا دفاعی بجٹ چین کے دفاعی بجٹ سے تقریباً تین گنا بڑا ہے۔
پُرانی کولڈ وار کی ایک اہم خاصیت یہ تھی کہ اس میں امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر سابق سوویت یونین اور چین کو عالمی تجارتی اور مالیاتی نظام سے بالکل الگ تھلگ کر کے رکھا ہوا تھا؛ اگرچہ آج کل کے دور میں بھی امریکہ جاپان‘ بھارت‘ آسٹریلیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ان ممالک‘ جن کے ساتھ سمندری حدود پر اختلافات ہیں‘ کو ساتھ ملا کر چین کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ مگر یہ کوششیں اس لئے کامیاب نہیں ہو سکتیں کہ چین سابق سوویت یونین کے برعکس موجودہ عالمی مالیاتی اور تجارتی نظام کا ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے۔ خود چین اور امریکہ اس سطح کی سرد جنگ شروع نہیں کر سکتے۔ پُرانی سرد جنگ کے دوران امریکہ اور روس کے مابین براہ راست دو طرفہ تجارت اور معاشی تعلقات نہیں تھے‘ مگر اس وقت چین اور امریکہ کے مابین نہایت قریبی اور گہرے تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ چین نے دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں مگر امریکہ اس کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ گزشتہ برس چین اور امریکہ کی دو طرفہ تجارت کا مجموعی حجم 559 بلین امریکی ڈالر تھا‘ جو کہ 107 بلین ڈالر کی امریکہ کی چین کو برآمدات اور 452 بلین ڈالر چین سے امریکی درآمدات کی مالیت پر مشتمل تھا۔ امریکہ کے علاوہ چین نے ان ممالک سے بھی قریبی تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات قائم کر رکھے ہیں‘ جنہیں امریکہ اتحادی بنا کر چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ ممالک ہیں: جاپان‘ جنوبی کوریا‘ آسٹریلیا‘ بھارت اور ''آسیان‘‘ (ASEAN) کے رکن ممالک۔ جنوب مشرقی ایشیا کی 10 رکنی علاقائی تنظیم ''آسیان‘‘ اس وقت چین کی دوسری بڑی ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ دونوں کے مابین گزشتہ برس دو طرفہ تجارت کا حجم 647 بلین ڈالر تھا۔ جاپان کا شمار ان پانچ ممالک میں ہوتا ہے جن کے ساتھ چین کے سب سے زیادہ تجارتی تعلقات ہیں۔ اسی طرح بھارت‘ جنوبی کوریا‘ ویت نام اور ہانگ کانگ کے ساتھ چین کے گہرے تعلقات ہیں۔ جن دنوں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین کولڈ وار جاری تھی‘ امریکہ نے سوویت یونین اور چین کو گھیرے میں لے کر سولہ ہزار فوجی اڈے قائم کر رکھے تھے۔ اس کے بھاری B52بمبار طیارے ایٹم اور ہائیڈروجن بم لاد کر ہر وقت سوویت یونین اور چین کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ محوِ پرواز رہتے تھے۔ اب امریکہ سے باہر امریکہ کے فوجی اڈوں کی تعداد 800 رہ گئی ہے۔ امریکہ نے ناروے سے جاپان تک اپنے فوجی اڈوں پر ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح راکٹ اور میزائل تیار حالت میں نصب کر رکھے تھے۔ اس کے سات بحری بیڑے اور ایٹمی آب دوزیں‘ دونوں سابق سوویت یونین اور چین کو ایٹمی حملوں کا نشانہ بنانے کے لئے ہر وقت سمندروں میں گشت کرتے رہتے تھے۔ امریکہ اور چین میں محاذ آرائی ابھی اس سطح تک نہیں پہنچی اور نہ ہی اس سطح پر پہنچنے کا امکان ہے۔ اس لئے دونوں کے مابین سرد جنگ کی بات ابھی قبل از وقت ہے۔