ان دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک تین رکنی معزز بینچ فاضل چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی میں ناجائز تجاوزات‘ پبلک پارکس اور مفادِ عامہ کے لئے وقف زمینوں پر ناجائز قبضے‘ شہر میں بلا اجازت کئی کئی منزلہ عمارتوں کی خلافِ ضابطہ تعمیر کے خلاف اور کراچی سرکولر ریلوے کی بحالی کے حق میں شہریوں کی طرف سے دائر کردہ پٹیشنز کی سماعت کر رہا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی مداخلت کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اس سے قبل انہی آئینی اختیارات کے تحت 2011 میں سپریم کورٹ نے کراچی میں امن و امان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کا از خود نوٹس لے کر سماعت فرمائی تھی۔ اس وقت مسئلہ زیر بحث آج کل کے مسئلے سے الگ اور مختلف تھا‘ لیکن سپریم کورٹ نے سماعت کے اختتام پر جو حکم نامہ جاری کیا تھا‘ اس میں شامل متعدد ہدایات اور آبزرویشنز کراچی کے مسائل کے دیرپا حل کے لئے آج بھی ریلیونٹ (Relevant) ہیں‘ مثلاً سپریم کورٹ نے اپنی ایک آبزرویشن میں کہا کہ کراچی میں فساد کی اصل جڑ زمینوں پر ناجائز قبضہ اور غیر قانونی تجاوزات ہیں اور جب تک اس خرابی کو جڑ سے اکھاڑ نہیں دیا جاتا‘ اس شہر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لئے عدالت نے صوبائی اور وفاقی‘ دونوں حکومتوں کے لئے ہدایات جاری کیں کہ وہ مؤثر قانون سازی کے ذریعے نہ صرف موجودہ نا جائز تجاوزات‘ زمینوں‘ پارکوں پر نا جائز قبضوں کو ختم کریں بلکہ ان جرائم کی آئندہ کے لئے روک تھام کا اہتمام بھی کریں‘ مگر معلوم ہوتا ہے کہ صوبائی اور وفاقی‘ دونوں حکومتیں عدالت کی اس ہدایت پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہیں‘ کیونکہ اگر گزشتہ دس برسوں کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے عدالت کی ہدایات پر عمل درآمد کیا ہوتا تو نو برس بعد سندھ کے حالات کچھ بہتر ہوتے اور وزیرِ تعلیم سعید غنی کو یہ بیان نہ دینا پڑتا کہ کراچی کے نالوں کی محض صفائی کافی نہیں‘ ان نالوں کے کناروں پر بلکہ بعض صورتوں میں نالوں کے عین بیچ نا جائز تعمیرات اور تجاوزات کو ہٹائے بغیر شہر میں پانی‘ خصوصاً بارش کے پانی کے نکاس کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی کے مسائل پر پٹیشنز کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے بھی نا جائز تعمیرات اور تجاوزات کے مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے اور این ڈی ایم اے کی ذمہ داریوں میں ان تجاوزات کو ہٹانے کا فریضہ شامل کر دیا ہے۔ مگر اس کے لئے ایک قانونی فریم ورک کی ضرورت ہو گی اور ایسے قانونی فریم ورک کی تشکیل کے لئے جیسا کہ سپریم کورٹ نے 2011 میں کہا تھا‘ سندھ کی صوبائی اور وفاقی‘ دونوں حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا‘ لیکن حالات یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت وفاقی حکومت سندھ کی صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے موڈ میں نہیں ہے بلکہ سندھ کی صوبائی حکومت کو بائی پاس کر کے کراچی میں ایسے انتظامی اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے‘ جن پر صرف وفاقی حکومت کا کنٹرول ہو۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے سپریم کورٹ میں دورانِ سماعت بیان دیا ہے کہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے وفاقی حکومت مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل‘ جنہوں نے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے ساتھ اسلام آباد میں وزیر اعظم سے حال ہی میں ملاقات کی ہے‘ کے مطابق ان ممکنہ اقدامات میں آئین کی دفعہ 149(3) کے تحت سندھ کی صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت کی طرف سے ہدایات کا اجرا بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم آج سے ایک برس قبل کراچی کو وفاق کے انتظامی کنٹرول میں دینے کی تجویز دے چکے ہیں۔
جو لوگ قیامِ پاکستان کے بعد سندھ کی سیاسی تاریخ سے واقف ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ کراچی کو سندھ سے الگ کر کے وفاق کے کنٹرول میں دینے کامطالبہ بہت پُرانا ہے‘ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ کے عوام کی طرف سے اس کی سخت مزاحمت کی جاتی رہی ہے۔ اب بھی اگر وفاقی حکومت یک طرفہ طور پر کراچی میں وفاق کے زیر انتظام ایسے اقدامات کرتی ہے‘ جن سے سندھ کی صوبائی حکومت کو بائی پاس کرنے کا تاثر پیدا ہوتا ہے تو سندھ میں ممکنہ طور پر سخت رد عمل پیدا ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے حالات کے پیشِ نظر کیا وفاقی حکومت سندھ میں ایسے رد عمل کے لئے تیار ہو گی۔2011 میں سپریم کورٹ نے کراچی میں لا اینڈ آرڈر کے مسئلے پر آرٹیکل 184(3) کے تحت سماعت کا آغاز کیا تھا‘ تو اس وقت بھی کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا‘ مگر فاضل عدالت نے آئینی اور جمہوری تقاضوں کے مطابق پولیس اور رینجرز کی مدد سے شہر میں امن و امان بحال کی ہدایات جاری کی تھیں۔ رینجرز ایک وفاقی ایجنسی ہے‘ مگر سول حکام اسے آئین کے تحت اپنی مدد کے لئے بلا سکتے ہیں‘ لیکن آپریشنز کی قیادت سول حکام کے ہاتھ میں رہتی ہے‘ جیسا کہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے ستمبر 2013 میں جب کراچی میں جرائم پیشہ اور قانون شکن عناصر کے خلاف پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت بھی کراچی کے بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس آپریشن کی قیادت سندھ کی صوبائی حکومت کو نہ سونپی جائے‘ مگر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے یہ تجویز رد کر کے آپریشن کو سندھ حکومت کی قیادت میں شروع کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس موقع پر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری کے لئے جو آپریشن شروع کیا جا رہا ہے‘ وفاقی حکومت نے اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر سندھ کی صوبائی حکومت کو بٹھا دیا ہے‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کو عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم کراچی اور سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم سمیت ان تمام سیاسی پارٹیوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں‘ جن کے نمائندے یہاں سے منتخب ہوئے ہیں (ڈیلی ڈان‘ 5 ستمبر 2015)
کراچی میں پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کی امن و امان کے قیام میں کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپریشن میں تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا گیا تھا۔ پہلے بھی انیشی ایٹو (Initiative) وفاقی حکومت کی طرف سے لیا گیا تھا‘ اب بھی تمام سٹیک ہولڈر‘ جن میں صوبائی حکومت بھی شامل ہے‘ مدد کے لئے وفاقی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کیونکہ سالہا سال کی غفلت‘ قانون اور ضوابط سے روگردانی اور کرپشن کی وجہ سے کراچی کا مسئلہ گمبھیر ہو چکا ہے۔ رہی سہی کسر حالیہ طوفانی اور تباہ کن بارشوں نے پوری کر دی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے انتظامات اچھے نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے باوجود پاکستان کی کوئی صوبائی حکومت اتنے وسائل کی مالک نہیں کہ ان چیلنجز کا تنہا مقابلہ کر سکے۔ جس طرح 2013 میں ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں‘ اغوا کنندگان اور رہزنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کراچی میں صوبائی حکومت کو رینجرز کی مدد فراہم کی گئی تھی‘ اسی طرح اب کراچی کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لایا جائے‘ اعلیٰ عدلیہ کی اعانت کے ساتھ اور ہدایات کی روشنی میں یہ مقصد حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔