حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک وقت وہ تھا جب پوری مسلم دنیا میں ترکی اور ایران ہی دو ممالک تھے جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی بلکہ تجارتی تعلقات استوار کر رکھے تھے‘ اور باقی سب مسلم‘ خصوصاً عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے سخت مخالف تھے۔ گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا ‘ مصر اور اُردن کے بعد متحدہ عرب امارات (یو اے ای) تیسرا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے مطابق عنقریب مزید عرب ممالک اس صف میں شامل ہو جائیں گے۔ سعودی عرب نے یو اے ای کے اس اقدام پر جو رد عمل ظاہر کیا ہے‘ اس سے نظر آتا ہے کہ یو اے ای کے اس فیصلے کو سعودی عرب کی تائید حاصل ہے‘ بلکہ یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان فضائی رابطے کے لیے سعودی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے کر سعودی عرب ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ترکی اور ایران نے یو اے ای کے اس اقدام پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ترکی نے تو یو اے ای کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات پر نظر ثانی کا بھی عندیہ دیا ہے لیکن یو اے ای اور اسرائیل اپنے فیصلے پر قائم ہیں اور عنقریب واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں اس پر رسمی دستخط کر کے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف سرمایہ کاری ‘ تجارت اور صنعت بلکہ دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔
عربوں اور اسرائیل کے گزشتہ 70 برس سے زائد تعلقات کے تناظر میں یو اے ای کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں یقینا ایک تہلکہ مچا دینے والا واقعہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فریقین میں اس عرصہ کے دوران چار بڑی جنگیں ہو چکی ہیں اور ان جنگوں کی بنیادی وجہ یعنی مسئلہ فلسطین ابھی تک حل طلب ہے۔ یو اے ای نے یہ اقدام ایک ایسے موقع پہ کیا ہے جب اسرائیل میں ایک قدامت پسند وزیراعظم کی حکومت ہے جس نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کر کے دریائے اُردن کے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کر کے مزید یہودی بستیاں بسانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ فیصلہ اچانک نہیں کیا گیا‘ بلکہ اس کے پس منظر میں برسوں کی خاموش ڈپلومیسی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اعلیٰ سطح کے خفیہ روابط اور قدم بقدم پیشرفت کار فرما ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس طویل عمل کی تفصیلات کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 2009ء میں نیتن یاہو جب اسرائیل کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے قیام کو اپنے ملک کی علاقائی پالیسی کا محوربنا لیا۔ اس سے قبل اسرائیل کی توجہ کا مرکز مصر‘ اردن یا مغربی افریقہ کے عرب ممالک مثلاً تیونس اور مراکش تھے‘ مگر ان کے مقابلے میں خلیجی عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات یہودی ریاست کیلئے دو وجوہات کی بنا پر زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتے تھے۔ ایک: یہ ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور اسرائیل کی کمزور معیشت کیلئے سرمایہ کاری کا اچھا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ دوئم: یہ ممالک ایران کے خلاف اسرائیل کے اتحادی ثابت ہو سکتے تھے۔ نیتن یاہو کا دعویٰ تھا کہ وہ خلیجی اور دیگر کئی عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم کر کے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کی موجودگی میں بھی اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے درمیان قریبی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں۔ ابتدا میں خلیجی ممالک کا رسپانس حوصلہ افزا نہیں تھا ‘ ان ممالک نے اسرائیل پر واضح کر دیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کیلئے تیار ہیں مگر اس کیلئے پہلے مسئلہ فلسطین کا حل ضروری ہے۔ تاہم فریقین کے درمیان روابط جاری رہے اگرچہ انہیں خفیہ رکھا گیا۔ ان میں گزشتہ برس بحرین میں امریکہ کی سرپرستی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے رہنمائوں کی پہلی مرتبہ ایک ساتھ شرکت بھی شامل تھی۔ لیکن جو عوامل اسرائیل اور خلیجی عرب ممالک کو تیزی سے ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب بنے وہ امریکہ کی طرف سے شام‘ عراق اور یمن میںایرانی اثر و رسوخ میں اضافے کا پروپیگنڈااور ''عرب سپرنگ‘‘ کی صورت میں عوامی احتجاجی تحریک تھی‘ جس نے مشرق وسطیٰ میں غیر جمہوری اور آمرانہ حکمرانوں کو خوف اور عدم تحفظ سے دو چار کر دیا تھا۔ مصر‘ تیونس اور اس کے بعد شام میں امریکہ کی ناکامی نے خلیجی عرب ممالک کو یقین دلا دیا تھا کہ وہ ان نئے خطرات سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے امریکہ پر انحصار نہیں کر سکتے۔ گزشتہ برس جب اسرائیلی وزیراعظم نے عمان کا دورہ کیا اور سعودی عرب نے ائیرانڈیا کو دہلی اور تل ابیب کے درمیان سروس کا آغاز کرنے کیلئے اوور فلائٹس کی رعایت دے دی تو عرب یا مسلم دنیا میں اس پر کوئی زیادہ احتجاج یا ناراضگی کا اظہار نہ کیا گیا۔ اس سے حوصلہ پا کر یو اے ای اور اسرائیل نے باہمی تعلقات کے قیام کا برملا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کے فروغ کیلئے جو اقدامات کئے گئے‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اسرائیل کی ایجنسی موساد کے سربراہ کا دورہ دبئی اس کا ثبوت ہے۔ واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے ان خلیجی ممالک کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں ہتھیار فروخت کئے جائیں گے‘ تاکہ کورونا وائرس سے ان دونوں ممالک کی معیشتوں کو جو نقصان پہنچا ہے اسے پورا کیا جائے۔ عرب امارات کے بعد کچھ دیگر عرب اور خلیجی ممالک کی طرف سے بھی اسرائیل کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا امکان ہے۔ لیکن کیا مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان نارمل اور پر امن تعلقات قائم ہو سکتے ہیں؟
ماضی کا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ ایسا ہونا نا ممکن ہے۔ مصر کے ساتھ اسرائیل کے معاہدہ ٔامن کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ نہ صرف عربوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہو گا‘ بلکہ فلسطین کا مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا‘ لیکن نہ فلسطین کا مسئلہ ختم ہوا اور نہ مصر کی دیکھا دیکھی سوائے اردن کے دیگر عرب یا اسلامی ملکوں کو اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرنے کی جرأت ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ جب مصر نے یکطرفہ طور پر اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ٔامن پر دستخط کیے تو اسلامی دنیا کی طرف سے سخت رد عمل ظاہر کیا گیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ حالات آج سے چالیس برس پہلے کے حالات سے مختلف ہیں اور امریکہ کے ساتھ اسرائیل ''ایران کی طرف سے خطرے‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر خلیج فارس کی خاندانی‘ عرب بادشاہتوں میں عدم تحفظ کے احساس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے‘لیکن عرب رائے عامہ مسئلہ فلسطین کو پسِ پشت ڈال کر اسرائیل کے ساتھ پر امن تعلقات کے قیام کے حق میں نہیں۔ یو اے ای کا یہ اقدام کس حد تک کامیاب ہوتا ہے؟ اس کا انحصار ایک طرف سعودی عرب اور دوسری طرف اسرائیل کے رویے پر ہے۔ ریاض سے آنے والے تازہ ترین بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکام محتاط رویہ اختیار کریں گے۔ دوسری طرف دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کتنے عرصہ تک دریائے اُردن کے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کر کے اور نئی یہودی بستیوں کو بسانے کے فیصلے کو ملتوی رکھ سکتا ہے۔ مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات پر آمادہ ہو سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرے۔