چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط پاک چین دوستی دو ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات کا ایک ایسا ماڈل ہے‘ جس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اسی لئے ان تعلقات کو بے مثال (Unique) کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی تغیرات اور نہ ان ملکوں کی اندرونی سیاسی تبدیلیاں‘ دوستی کے اس رشتے کو کمزور کرنے کا سبب بن سکی ہیں‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اور بھی وسیع اور گہرے ہوئے ہیں۔ پاک چین دوستی کے ابتدائی برسوں میں بیشتر فوکس سیاسی اور سفارتی شعبوں میں ہم آہنگی اور باہمی سپورٹ پر تھا‘ مگر گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں میں پاکستان اور چین نے اقتصادی شعبے‘ مثلاً دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری‘ پر زور دینا جاری رکھا ہوا ہے۔ پالیسی میں اس تبدیلی کی بنیاد یہ احساس ہے کہ معاشی شعبے میں قریبی تعاون سیاسی میدان میں دوستی کے رشتوں کو اور بھی مضبوط بناتا ہے۔ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک‘ جس کی تعمیر کے لئے دونوں ملکوں کے مابین معاہدے پر 2015 میں دستخط ہوئے تھے‘ اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین عسکری تعلقات شروع سے ہی قائم ہیں‘ مگر حالیہ برسوں میں ان تعلقات کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔
کسی زمانے میں اسلحہ اور تینوں افواج کے لئے ہتھیاروں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے پاکستان کا کلیتاً انحصار امریکہ پر تھا۔ اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ اس وقت پاکستان کی تینوں افواج خصوصاً ایئر فورس اور نیوی کے لئے ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذریعہ چین ہے۔ جنوبی ایشیا اور ارد گرد کے خطوں میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں نے پاکستان اور چین کو ایک دوسرے کے اور قریب لا کھڑا کیا ہے۔ ان تبدیلیوں میں بھارت اور امریکہ کے مابین معاشی‘ دفاعی اور سیاسی شعبوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی سٹریٹیجک پارٹنرشپ بھی شامل ہے۔ خلیج فارس سے بحرالکاہل تک کے وسیع خطے‘ جسے امریکہ نے انڈوپیسیفک کا نام دے رکھا ہے‘ میں بھارت اب جاپان اور آسٹریلیا کے ہمراہ امریکہ کی چین کے خلاف دفاعی حکمت عملی کا ایک اہم ستون ہے۔ بھارت کے مشہور دفاعی تجزیہ کار راجہ سی موہن کے مطابق جنوبی ایشیا میں گزشتہ 70 برسوں میں پیدا ہونے والی سب سے اہم تبدیلی امریکہ اور بھارت کے مابین سٹریٹیجک پارٹنرشپ کا قیام ہے۔ اس پارٹنرشپ کا واضح ہدف چین ہے‘ اس کے باوجود چین نے جنوبی ایشیا بشمول بھارت کے ساتھ علاقائی تعاون برائے ترقی کے اصول کی بنیاد پر تعلقات کو استوار کرنے کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ بھارت کے ساتھ 90 بلین ڈالر سالانہ کی دو طرفہ تجارت چین کے پُرامن عزائم کا جیتا جاگتا ثبوت ہے‘ مگر گزشتہ برس 5 اگست کے بھارتی حکومت کے کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہ راست بھارت کی یونین گورنمنٹ کے ماتحت لانے کے اقدام پر چین کو بھارت کو خبردار کرنا پڑا اور اس کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر میں جو یک طرفہ اقدام کیا گیا ہے‘ وہ چین کے لئے ناقابل قبول ہے کیونکہ اس سے چین کی علاقائی سلامتی اور قومی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی روشنی میں پُرامن طور پر حل کرنے پر زور دیا۔ مبصرین کے مطابق نریندر مودی نے 5 اگست کے اقدام کے ذریعے چین کو خواہ مخواہ کشمیر کے مسئلے میں گھسیٹ لیا ہے‘ حالانکہ چین کشمیر پر تقریباً ایک غیر جانب دارانہ پالیسی اپنا کر پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنے پر آمادہ تھا۔
ریاست جموں و کشمیر میں یک طرفہ اقدام سے وزیر اعظم نریندر مودی نے دراصل چین کو مشتعل کرنے کی کوشش کی تھی‘ لیکن جب چینی قیادت نے صبر اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے پاکستان اور بھارت‘ دونوں کو ایسے اقدامات سے باز رہنے کی تلقین کی‘ جو حالات کو مزید بگاڑنے کا باعث بن سکتے ہوں‘ تو بھارت نے مشرقی لداخ میں ایک ایسے علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جو ایک عرصے سے چین کے کنٹرول میں تھا۔ اس علاقے کی دفاعی اہمیت کے پیشِ نظر بھارت ایک عرصے سے اس کے نواحی علاقوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اس پروگرام کے تحت بھارت نے وہاں ایک سڑک اور ایک ہوائی اڈا بھی تعمیر کر رکھا ہے۔ اس سے منسلک وادی پر قبضہ کرنے کی بھارتی کوشش کا اصل مقصد تبت کے سنکیانگ سے رابطے کو منقطع کرنا تھا۔ بھارت کا یہ اقدام پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے لئے براہ راست خطرے کا باعث تھا‘ اس لئے چین نے بھارت کے اس اقدام کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے ناکام بھی بنایا۔
15 جون 2020 کو بھارتی اور چینی فوجیوں کے مابین جو تصادم ہوا‘ اس کے نتیجے میں تاحال دونوں ملکوں کے مابین سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق دونوں طرف فوجوں کی صف بندی اور بھاری ہتھیاروں کی ڈپلائمنٹ مکمل ہے‘ لیکن بھارت چین کے ساتھ تصادم کا خطرہ مول نہیں لے گا‘ کیونکہ مبصرین کی رائے میں چین کے مقابلے میں بھارت کی دفاعی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ اس کے بجائے بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کسی مہم جویانہ اقدام کا زیادہ اندیشہ ہے کیونکہ ایک سال سے زیادہ لاک ڈائون کے باوجود کشمیری عوام کی قوتِ مزاحمت میں کمی نہیں آئی، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا ثبوت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور مجاہدین کے درمیان جھڑپوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔
چین کے ساتھ جھڑپ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ بھارت اپنی خفت مٹانے کے لئے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پار پاکستان کے کسی علاقے کو اپنی نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کا نشانہ بنائے۔ میرا خیال ہے کہ ان تمام اندیشوں اور ان کے مضمرات کا جائزہ لینے کے بعد پاکستان اور چین نے نہ صرف آپس میں اعلیٰ سطح کے سیاسی اور عسکری رابطوں میں اضافہ کر دیا ہے بلکہ آزادی ‘خود مختاری اور علاقائی سلامتی کے تحفظ کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا بھی کھلم کھلا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں صدر جناب عارف علوی نے چین کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا‘ اس میں چین نے کشمیر پر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے اسے ایک قدیم تنازع قرار دیا تھا‘ جسے مناسب طریقے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کے مطابق پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کے ذکر پر احتجاج کیا مگر چین اور پاکستان نے بھارت کے اس احتجاج کو مسترد کر دیا۔ چین اور پاکستان کے مابین ایک اور اہم رابطہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا حالیہ دورہ چین ہے۔ اگرچہ اس دورے کا بنیادی مقصد پاکستان اور چین میں سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے دوسرے اجلاس میں شرکت تھا مگر پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے چینی ہم منصب وانگ ژی سے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ خطے کی سیاسی اور سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ بھی لیا گیا۔ ان کے اس دو روزہ دورے کے اختتام پر جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا‘ اس میں چین نے کشمیر پر ایک دفعہ پھر اپنے روایتی موقف کو دہرایا مگر اس بیان کا سب سے اہم حصہ وہ ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ ''پاکستان اور چین کے مابین باہمی مفادات کے تحفظ اور خطے میں امن‘ خوش حالی اور ترقی کے لئے مل کر اقدامات کرنے پر اتفاق ہوا ہے‘‘ دونوں ملکوں میں اعلیٰ ترین سطح پر روابط میں تیزی اور کسی بھی نوعیت کی جارحیت کی صورت میں چین کی طرف سے پاکستان کا کھل کر ساتھ دینے کا اعلان پاک چین دوستی کی نئی بلندیوں کو ظاہر کرتا ہے۔