سوالات بہت سے ہیں اور تحفظات بے شمار‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ 20 ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب سے پاکستان قومی سیاست کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں نواز شریف پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے ملک میں آئے دن کے سیاسی بحرانوں اور مستقل سیاسی عدم استحکام کی اصل وجہ کی نشاندہی کی اور اس کا حل تجویز کیا۔ پولیٹیکل ڈیوائیڈ کے دونوں طرف سیاسی حلقوں کو توقع نہ تھی کہ نواز شریف اتنی سخت تقریر کریں گے ''ہماری جدوجہد عمران خان کے خلاف نہیں‘ ہماری جدوجہد ان لوگوں کے خلاف ہے جو اس کو اقتدار میں لے کر آئے ہیں‘‘۔ ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کی صورت میں نواز شریف کا بیانیہ پہلے سے موجود تھا مگر اسلام آباد میں 20 ستمبر کی 11 سیاسی پارٹیوں پر مشتمل کانفرنس سے خطاب میں سابق وزیر اعظم نے تمام ابہام دور کر دئیے اور اپنا بیانیہ واضح طور پر پیش کر دیا ۔
آج کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ دو ادوار میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک 20 ستمبر کو نواز شریف کی تقریر سے پہلے اور دوسرا تقریر کے بعد کا دور‘ کیونکہ نواز شریف کی تقریر کے بعد پاکستان کی سیاست اس بنیادی سوال کے گرد گھومے گی کہ مملکت کے امور ہاتھ میں لینے کا اختیار کس کے پاس ہے۔ ان لوگوں کو جنہیں عوام کی اکثریت ووٹ کے ذریعے اس مقصد کے لئے منتخب کرے یا غیر منتخب اراکین کو؟ لیکن نواز شریف کی تقریر کے بعد نمایاں طور پر سامنے آنے والا یہ واحد سوال نہیں۔ جس طرح ایٹم بم بلکہ ہائیڈروجن بم تیار کر لینا بے شک سائنسی اور تکنیکی اعتبار سے بڑا اہم کارنامہ ہے‘ مگر عسکری لحاظ سے یہ اس وقت تک بیکار ہے جب تک آپ اس کے لئے ڈلیوری سسٹم تیار نہیں کر لیتے۔ بالکل اسی طرح انقلاب کا نعرہ اس وقت تک بے معنی ہے جب تک اسے عملی شکل میں لانے کے لئے آپ کے پاس انقلابی تنظیم نہ ہو۔
صورتحال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم کی اپنی پارٹی یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) نہ تو نظریاتی اور نہ ہی تنظیمی اعتبار سے ایک انقلابی پارٹی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے جو باتیں کیں‘ پاکستان میں بہت سے لوگ ان سے اتفاق کرتے ہیں‘ مگر اسی دور میں خود ان کا اور ان کی پارٹی کا ریکارڈ ان کے بعض دعووں کی نفی کرتا ہے۔ مئی 2006 میں بالکل اسی قسم کے جذبوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کئے تھے۔ بعد میں اسے جس طرح پسِ پشت ڈالا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ بہت سے لوگوں کو شک ہے کہ نواز شریف نے جس ایجنڈے کا اعلان کیا ہے‘ وہ اس پر قائم رہیں گے۔ نواز شریف کی تقریر پر جن سٹیک ہولڈرز کا رد عمل آج کے بعد پاکستان کی سیاست کی نوعیت اور سمت کا تعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے‘ ان میں سے ایک پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی ہے۔ اپنی تقریر میں نواز شریف نے کہاکہ نون لیگ اے پی سی کے ہر متفقہ فیصلے کی حمایت کرے گی اور اس کے صدر شہباز شریف کا نام لے کر انہوں نے شرکائے کانفرنس کو یقین دلایا کہ وہ ایکشن پلان میں پارٹی کے ساتھ متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے‘ لیکن سوال اٹھانے والے سوچ رہے ہیں کہ ایسا ممکن ہو سکے گا؟ نواز شریف کی تقریر کی روشنی میں تشکیل کردہ 26 نکاتی ایجنڈے پر عمل کرنے میں اے پی سی میں شامل جماعتوں کے باہمی اتحاد کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ نواز شریف نے بھی اپنی تقریر میں کہاکہ اے پی سی کی کامیابی کا راز ان کے اتحاد میں مضمر ہے۔ لیکن جماعتِ اسلامی نے اپنے راستے الگ کر لئے ہیں۔ پھر سندھ کے شہری علاقوں میں سب سے موثر سیاسی قوت ایم کیو ایم اتحاد سے پہلے ہی باہر ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں سندھ کے شہری علاقوں میں وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک فیصلہ کن ثابت نہیں ہو سکتی۔ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ سے پہلے بھی شکایت تھی‘ اور وہ اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے‘ لیکن 20 ستمبر کی تقریر میں انہوں نے جس طرح براہ راست اور برملا اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے‘ اس سے پہلے نہیں کیا گیا تھا۔
چند تبصرہ کاروں کی رائے میں نواز شریف کی تقریر نے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر دیا ہے اور چند روز قبل عمران خان نے جس خدشے کا اظہار کیا تھاکہ کچھ لوگ فوج اور ان کی حکومت کے مابین رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ خود بخود دور ہو گیا ہے‘ اس لئے حکومت کو نواز شریف کی تقریر پر خوش ہونا چاہئے کیونکہ اس سے پی ٹی آئی کے بیانیے یعنی ''عمران خان کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں‘‘ کو مزید تقویت ملے گی۔ عمران خان پہلے ہی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ فوج اور ان کی حکومت‘ دونوں ایک پیج پر ہیں اور دونوں کے مابین مکمل مفاہمت‘ تعاون اور ہم آہنگی ہے۔ نواز شریف کی تقریر سے یہ رشتہ اور بھی مضبوط ہو گا‘ مگر اس کے دیرپا استحکام اور موثر ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس سے مہنگائی‘ بیروزگاری‘ عدم تحفظ اور انارکی میں گھرے عوام کو کتنا ریلیف ملتا ہے اور خارجہ امور اور بین الاقوامی سیاسی ماحول میں ملک کو جن سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے‘ ان پر کہاں تک قابو پایا جاتا ہے۔
اے پی سی نے 26 نکات پر مشتمل جس ایکشن پلان کا اعلان کیا ہے‘ اس کی کامیابی کا بہت حد تک انحصار ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین تعاون‘ مفاہمت اور اتحاد پر بھی ہے۔ اگرچہ دونوں پارٹیوں نے ایکشن پلان کی متفقہ تیاری اور منظوری میں برابر کا حصہ لیا ہے‘ لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاکہ یہ دونوں نہ صرف الگ الگ پارٹیاں ہیں بلکہ ان کے نظریات‘ سیاسی مطمح نظر اور مفادات بھی جدا جدا ہیں۔ ماضی کے چند تلخ تجربات کی وجہ سے ان دونوں سیاسی پارٹیوں کے مابین غیر مشروط تعاون کے بارے میں عوام میں شکوک و شبہات اور تحفظات پائے جاتے ہیں‘ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نظریات اور سیاسی مطمح نظر میں اختلافات کی وجہ سے ان دو پارٹیوں کے مابین کسی تحریک میں تعاون نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں‘ جن میں فکری اختلافات کے باوجود سیاسی پارٹیوں نے ایک پلیٹ فارم سے متحد ہوکر کامیاب تحریکیں لانچ کیں۔ موجودہ حالات میں بھی یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ نسبتاً زیادہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ یہ وہی اپوزیشن ہے‘ جس نے انتخابات کے فوراً بعد اعلان کیا تھاکہ وہ اس حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے حق میں ہے۔ جب کورونا وائرس کی وبا ملک پر نازل ہوئی تو بلاول بھٹو نے اعلان کیا تھاکہ وہ سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے‘ لیکن حکومت نے اپوزیشن کی طرف سے تعاون کے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے اس پر این آر او حاصل کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں حکومت نے اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا کر اسے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کا خود موقع دیا۔کرپشن کے خلاف جہاد اور کرپٹ سیاست دانوں کے احتساب‘‘ پر مبنی پی ٹی آئی کا بیانیہ پٹ چکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اس دو سالہ دور میں عوام اور ملک کو درپیش مسائل کے حل کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی‘ نہ ہی آئندہ ایسی کسی پیش قدمی کی امید کی جا سکتی ہے۔ 20 ستمبر کی اے پی سی کے 26 نکات پر مشتمل ایجنڈے میں ان تمام سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے جو ماضی کی دیگر حکومتوں کی طرح پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کی بھی توجہ اپنی طرف مبذول نہ کرا سکے۔ یہ سلگتے ہوئے مسائل خواہ وہ بلوچستان میں ہوں یا سندھ اور کے پی میں‘ اے پی سی کے ایکشن پلان کو حرکت میں لانے کیلئے ضروری توانائی اور خام مال مہیا کر سکتے ہیں۔