"DRA" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا دورہ اور پاک افغان تعلقات

افغانستان کے ایک سینئر سیاسی رہنما اور افغان ہائی کونسل برائے قومی مصالحت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے حال ہی میں پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے پاکستان کے صدر عارف علوی‘ وزیر اعظم عمران خان‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی‘ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے علاوہ عسکری حکام سے ملاقاتیں کیں۔ دسمبر2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے اور بون بین الاقوامی کانفرنس کے فیصلے کے مطابق افغانستان میں نئی حکومت کے قیام سے اب تک پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی تو اتنے تواتر سے پاکستان آتے رہے کہ اب کسی کو یہ بھی یاد نہیں کہ انہوں نے پاکستان کے کتنے دورے کئے۔ خود ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی پاکستان کا اس سے قبل کئی بار دورہ کر چکے ہیں‘ لیکن ان کا حالیہ دورہ متعدد وجوہات کی بنا پر ایک منفرد دورہ ہے۔ ایک یہ کہ انہوں نے اس دورے کے لئے ایک ایسا وقت چنا جب افغانستان میں متحارب فریقین کے مابین صلح اور ملک میں مستقل امن کے قیام کیلئے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے تحت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات ہورہے ہیں۔ ان مذاکرات کا انعقاد بذاتِ خود ایک بہت اہم پیش رفت ہے کیونکہ امریکہ اور افغان طالبان کے مابین 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے کے بعد یہ مذاکرات 10 مارچ کو ہونا تھے‘ لیکن چھ ماہ کی تاخیر سے شروع ہوئے اور اب بھی ان کے جاری رہنے اور نتیجہ خیز ثابت ہونے پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے کیونکہ ایک طرف طالبان اوردیگر افغان فریقوں‘ جن میں صدر اشرف غنی کی حکومت بھی شامل ہے‘ مذاکرات کر رہے ہیں اور دوسری طرف طالبان سرکاری فوجوں کی چوکیوں پر ترابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں ۔ سرکاری افواج بھی جوابی حملوں‘ جن کو فضائیہ کی مدد حاصل ہے‘میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ امید تھی کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آگاز ہوتے ہی افغانستان میں جنگ بند ہو جائے گی‘ یا کم از کم اس کی شدت میں کمی آ جائے گی‘لیکن ایسا نہیں ہوا۔ طالبان نے افغان حکومت ‘ امریکہ‘ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں اور بین الاقوامی برادری کے دیگر اہم ملکوں اور اقوام متحدہ کی طرف سے اپیلوں کے باوجود نہ تو جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی ہے اور نہ ہی سرکاری افواج پر حملوں میں کمی کی ہے۔ 
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورہ پاکستان کا ایک مقصد اسلام آباد کی طرف سے طالبان پر جنگ بندی کے لئے دبائو ڈالنے کی کوشش پر آمادگی کا حصول تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور پاکستان کے سیاسی اور عسکری حکام نے انہیں صاف بتا دیا ہے کہ ہر چند کہ پاکستان جنگ بندی کے حق میں ہے اور اس کے لئے وہ طالبان سے اپیل کر چکا ہے‘ مگر اس پر آمادگی کے لئے وہ طالبان پر دبائو نہیں ڈالے گا‘ کیونکہ طالبان پاکستان کے دبائو میں نہیں ہیں‘ وہ پاکستان کے دبائو سے آزاد اپنی افغانستان میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور جنگ بندی یا دوسرے اہم امور کے بارے میں فیصلے افغانستان کی صورت حال اور اپنی حکمت عملی کے مقاصد کے تحت کرتے ہیں؛ البتہ پاکستان طالبان سے یہ اپیل کرنے پر تیار ہے کہ وہ جنگ کی شدت میں کمی کے لئے اقدامات کریں تاکہ شہریوں کا جانی نقصان نہ ہو۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی اپنے دورہ پاکستان کے اختتام پر ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ جنگ کی شدت کم کرنے پر پاکستان اور افغان حکومت کا موقف ایک جیسا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورہ پاکستان کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ماضی کت برعکس اس دفعہ پاکستان اور افغانستان کے مابین الزام تراشیوں کا ربادلہ نہیں ہوا‘ بلکہ پاکستانی قیادت اور خود ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ماضی کی تلخیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے مستقبل پر زور دیا ہے۔ ماضٰ میں افغان حکومت اور اس کے اہم عہدے دار‘ جن میں خود ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی شامل رہے ‘ پاکستان پر افغان طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے تھے۔ جواب میں پاکستان‘ افغان حکومت اور اسکی ایجنسیوں پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان میں اڈے فراہم کرنے اور انہیں پاکستان کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے سہولت فراہم کرنے کا الزام لگاتا تھا‘ مگر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران فریقین کی طرف سے اس قسم کے روایتی الزامات اور جوابی الزامات سے اجتناب کیا گیا‘ بلکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی اور غلط فہمیوں سے پاک قریبی اور دوستانہ تعلقات کے لئے ایک بہتر مستقبل پر زور دیا گیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے افغان رہنما سے ملاقات کے بعد واضح طور پر کہا کہ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا‘ پاکستان اور افغانستان کو وہ ماضی بھول جانا چاہئے‘ دونوں ملکوں کی نظریں اب مستقبل پر ہونی چاہئیں اور اسے خوش گوار بنانے کے لئے تعمیری اور مثبت سوچ اپنانا چاہئے۔ 
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی پاکستان سے روانہ ہوتے وقت اپنے پیغام میں اعتراف کیا کہ پاکستان کے رویہ میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے اور وہ اپنے دورے سے مطمئن ہیں۔ اپنے دورے کو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ایک سنگِ میل قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ان کی بات چیت تعمیری اور مثبت تھی‘ لیکن پاک افغان تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کی رائے ہے کہ نہ صرف پاکستان اور افغانستانکے دو طرفہ تعلقات‘ بلکہ ان سے وسیع تر علاقائی تناظر میں دونوں ملکوں کے مطمح نظر میں اب بھی بُعد موجود ہے اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے حالیہ دورے سے بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئی‘ حالانکہ پاکستان نے دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو فروغ دینے کے لئے نئے تجارتی راستوں کا افتتاح بھی کیا اور سرحد کے آر پار آنے جانے کو سہل بنانے کے لئے نئی ویزا پالیسی کا ابھی اعلان کیا ہے‘ مگر اصل مسئلہ افغانستان کے موجودہ مذاکراتی عمل اور قیامِ امن کے بعد افغانستان میں ترقیاتی اور تعمیرِ نو میں بھارت کا کردار ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت پر افغانستان میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اور پھر بھارتی حکومت کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کای ہے۔ افغان حکومت کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ افغانستان کو واہگہ کے راستے بھارت کے ساتھ درآمدی اور برآمدی تجارت کی اجازت دی جاے۔ اس وقت افغانستان واہگہ کے راستے صرف اپنی اشیا برآمد کر رہا ہے‘ مگر اس راستے سے بھارت سے تجارتی اشیا لانے کی اجازت نہیں ہے۔ افغان حکومت کا موقف ہے کہ قیام امن کے بعد مستقبل کی افغان حکومت کو پاکستان کے راستے بھارت کے ساتھ کھلی تجارت کی بہت ضرورت ہو گی کیونکہ بھارت ایک بہت بڑی اور افغانستان کی پُرانی منڈی ہے۔ امریکہ‘ بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے راستے بھارت افغان تجارت کے حامی ہیں‘ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی وجہ سے موجودہ کشیدگی کے سبب اس کا کوئی امکان نہیں ۔ اس کے بجائے پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنی دو طرفہ تجارت کی بحالی اور وسعت پر زور دے رہا ہے اور اس کے راستے میں جو بی رکاوٹ ہو‘ اسے دور کرنے اور تجارت میں اضافہ کرنے کیلئے ہر اقدام کے لئے تیار ہے‘ مگر افغانستان کی نظر اس سے آگے ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ایک وسیع تر علاقائی تناظر میں پھیلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں