افغانستان پر غیرملکی قبضے کے خلاف جنگ اور افغان مسلح گروپوں کے درمیان طویل اور تباہ کن خانہ جنگی کے حوالے سے ایک جانی پہچانی شخصیت گلبدین حکمت یار حال ہی میں پاکستان کے تین روزہ دورے پر تھے۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے صدرِ مملکت عارف علوی‘ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں کیں۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ آیا انہوں نے عسکری قیادت سے بھی ملاقات کی یا نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ تعجب کی بات ہو گی کیونکہ افغانستان پر سابق سوویت یونین کے قبضے کے خلاف افغان مزاحمتی تحریک کے دوران انہیں پاکستان کی انٹیلی جنس اور امریکہ کی سی آئی اے کا بلیو آئیڈ بوائے (Blue eyed boy) سمجھا جاتا تھا۔ افغانستان کی اس تحریک مزاحمت کی حمایت میں امریکہ نے اپنے اسلحہ کے ڈپو اور سعودی عرب نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے تھے‘ اور یہ تمام اسلحہ اور پیسہ جنرل ضیاالحق کی حکومت کے ذریعے پشاور میں مقیم سات بڑے افغان گروہوں‘ جن میں گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی بھی شامل تھی‘ میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ جدید ترین ہتھیاروں اور کروڑوں ڈالرز کی شکل میں اس امداد کا سب سے بڑا حصہ حکمت یار کے حوالے کیا جاتا تھا‘ لیکن حکمت یار نے ان ہتھیاروں کو سوویت حملہ آوروں کے خلاف لڑائی میں استعمال کرنے کی نسبت دیگر افغان گروپوں خصوصاً احمد شاہ مسعود کے کمانڈروں کے قتل یا کابل کی تباہی کیلئے زیادہ استعمال کیا۔
حکمت یار پاکستان میں ایک نڈر اور بہادر کمانڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی عمر کے 71 میں سے 45 سال پاکستان میں قیام یا اپنے ملک کی مختلف حکومتوں کے ادوار میں اعلیٰ سیاسی اور عسکری حکام کے ساتھ قریبی روابط میں گزارے ہیں۔ 1973 میں سردار دائود نے افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کیا تو پشتونستان کے حق میں اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا تیز کر دیا گیا۔ تب 1975 میں گلبدین حکمت یار‘ احمد شاہ مسعود کے ہمراہ پاکستان آئے اور ذوالفقار علی بھٹو کو سردار دائود کی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے کی پیشکش کی تھی۔ پاکستان پر سردار دائود کے معاندانہ پروپیگنڈے کا دبائو کم کرنے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پاکستان میں تنظیمی دفتر اور تربیتی کیمپ قائم کرنے کی اجازت دے دی؛ تاہم تھوڑے ہی عرصے بعد جب شاہ آف ایران کی کوشش سے سردار دائود‘ جو افغانستان پر سوویت یونین کے دبائو اور اپنی حکومت میں کمیونسٹ عناصر کے اثرورسوخ سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے‘ پاکستان کے ساتھ مصالحت پر آمادہ ہو گئے (ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا ذکر پھانسی کی کوٹھڑی میں لکھی گئی کتاب ''اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ (If I am Assassinated) میں کیا ہے) تو بھٹو حکومت نے حکمت یار کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا‘ لیکن اس دوران حکمت یار پاکستانی حکام کے دل میں گھر کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے؛ تاہم احمد شاہ مسعود پاکستانی حکام کے رویے سے مطمئن نہیں تھے؛ چنانچہ وہ جلد ہی افغانستان واپس لوٹ گئے جبکہ حکمت یار پاکستان اور افغانستان کے مابین چکر لگاتے رہے۔ گلبدین حکمت یار کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ طالبان سے بھی زیادہ قدامت پسند ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے بارے میں ان کا رویہ طالبان سے بھی زیادہ سخت گیر ہے۔ حکمت یار نے اس تاثر کی کبھی تردید نہیں کی بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ کابل یونیورسٹی میں زمانہ طالب علمی سے ہی وہ بنیاد پرست تھے؛ تاہم ان کی زندگی کے بارے میں جو معلومات دستیاب ہیں‘ ان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ ایک زمانے میں افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی پی ڈی پی کے سرگرم کارکن تھے۔ حکمت یار اس کی تردید کرتے ہیں؛ البتہ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے افغانستان پر سابق سوویت یونین کے قبضے کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی؛ تاہم ان کی بندوقوں کا رخ روسی سپاہیوں کی نسبت افغانستان میں دیگر ''مجاہدین‘‘ گروپوں کے کمانڈروں کی طرف زیادہ تھا‘ اور ان کے راکٹوں کا نشانہ کابل کے شہری علاقے تھے۔ برہان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے ساتھ ان کی خصوصی رقابت تھی‘ اور اسی رقابت میں انہوں نے احمد شاہ مسعود کے متعدد کمانڈرز کو گھات لگا کر قتل کیا۔ اسی قسم کے ایک حملے میں حکمت یار کے ایک کمانڈر سید جمال نے جولائی 1989 میں افغانستان کے صوبہ لیاہ خان میں فرخا کے مقام پر گھات لگا کر احمد شاہ مسعود کے 30 کمانڈر ہلاک کر دئیے تھے۔ انہی وجوہات کی بنا پر گلبدین حکمت یار ہمیشہ متنازعہ شخصیت رہے اور ان کی شہرت ایک سخت گیر اور ناقابلِ اعتبار کمانڈر کی رہی‘ لیکن پاکستان میں خصوصاً ضیاالحق کے دور میں وہ ملک کی قیادت کے فیورٹ تھے اور اس کا خیال تھا کہ روسی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں حکمت یار کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کے قومی سلامتی کے مفادات کیلئے بہترین ثابت ہو گی۔ اسی مقصد کے تحت حکمت یار کو نہ صرف جنرل ضیا کے دور میں بلکہ اگست 1988 میں ان کی ایک فضائی حادثے میں شہادت کے بعد بھی پاکستان کی حمایت حاصل رہی‘ لیکن حکمت یار کو افغانستان میں کبھی بھی پاپولر سپورٹ حاصل نہیں رہی۔
1989 میں جلال آباد پر ناکام حملے اور اس کے بعد 1992 میں کابل پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد پاکستان کو یقین ہو گیا کہ اس نے ایک غلط گھوڑے پر شرط لگائی تھی‘ لیکن حکمت یار نے اپنی ناکامی کا بدلہ کابل کے شہریوں سے لیا‘ جن پر وہ چار سال تک راکٹ برساتے رہے۔ اس تباہی کو کور کرنے والے افغان اور غیرملکی نامہ نگاروں کے مطابق کابل کو روسی قبضے کے دوران اتنی تباہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا‘ جتنا حکمت یار کے راکٹوں نے تباہی مچائی تھی اور اسی وجہ سے اسے ''کابل کا بُچر‘‘ (Butcher of Kabul) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اسی دوران قندھار سے ملا عمر کی قیادت میں طالبان ایک طاقت بن کر ابھر رہے تھے اور وہ تیزی کے ساتھ آپس میں گتھم گتھا افغان مجاہدین کو شکست دے کر ملک کے مختلف حصوں پر اپنا قبضہ مستحکم کر رہے تھے۔ افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر پاکستان نے بھی اپنی حمایت کا رخ طالبان کی طرف موڑ دیا۔ طالبان کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر احمد شاہ مسعود اور حکمت یار میں صلح ہو گئی اور مئی 1996 میں موخرالذکر کو ملک کا وزیر اعظم مقرر کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ حکمت یار نے جون 1996 میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد حکمت یار کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کا یہ دوسرا موقع تھا‘ مگر اس بار وہ صرف چند ماہ ہی اس عہدے پر رہ سکے‘ کیونکہ ستمبر 1996 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔ احمد شاہ مسعود نے پسپائی اختیار کرکے پنج شیر وادی میں پناہ لی‘ جہاں وہ اپنی ہلاکت (9 ستمبر2001) تک طالبان کا مقابلہ کرتے رہے۔ حکمت یار نے ایران میں پناہ لی‘ حالانکہ وہ ایران کے سخت مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔2001 میں امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو حکمت یار واپس افغانستان آ گئے‘ اپنی پارٹی کو از سرِ نو منظم کیا اور غیر ملکی افواج یعنی امریکیوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس عرصے میں حکمت یار کے جنگجوئوں نے بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے کئی شہریوں اور امریکی فوجیوں کو ہلاک کیا۔ امریکی طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے بعد حکمت یار کی پارٹی کو افغانستان میں سب سے زیادہ خطرناک قرار دیتے تھے۔ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو افواج پر مشتمل انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس(ISAF) حکمت یار کی پارٹی کو طالبان اور القاعدہ سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتی تھی۔ اسی بنا پر امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ خزانہ نے مشترکہ طور پر حکمت یار کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیاں لگا دی تھیں۔ بعد میں اسی قسم کی پابندیاں اقوام متحدہ نے بھی عائد کر دی تھیں۔ (جاری)