جنگ اور انتخابات کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ حتمی نتیجہ کیا ہو گا کیونکہ کسی وقت کوئی بھی محرک نقشہ بدل سکتا ہے‘ لہٰذا3 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج کے بارے میں جو پیشگوئی کی جائے‘ ضروری نہیں کہ درست ثابت ہو؛ تاہم آج کے ہائی ٹیک دور میں‘ جہاں اطلاعات اور اعدادوشمار کا حصول اور ان کا تجزیہ گھنٹوں نہیں بلکہ منٹوں کا کام رہ گیا ہے‘ بڑے اعتماد کیساتھ باوثوق پیش گوئیاں بھی کی جاتی ہیں۔ امریکہ میں درجنوں ایسے ادارے ہیں‘ جن کے پاس ڈیٹا اکٹھا کرنے اور پھر اسے سائنٹیفک طریقے سے جانچنے‘ تجزیہ کرنے اور نتائج اخذ کرنے کا انتظام موجود ہے۔ بیشتر نے اپنے تازہ ترین سروے میں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی برتری بیان کی ہے۔ ان کے مطابق صدارتی الیکشن کی دوڑ میں بائیڈن ٹرمپ سے 11 فیصد فرق سے آگے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہی رائے عامہ جانچنے والے یہ ادارے یہ بھی کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ فرق کم ہو سکتا ہے۔
انتخابی عمل کا مطالعہ کرنے والے ایک ادارے سی این بی سی کے مطابق معیشت کے علاوہ بائیڈن باقی تمام شعبوں میں ٹرمپ سے آگے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ووٹرز کی اکثریت کے نزدیک معیشت سے زیادہ کورونا وائرس اور ہیلتھ کیئر سے متعلقہ مسائل زیادہ اہم ہیں اور ان شعبوں میں ٹرمپ کا ریکارڈ قابلِ رشک نہیں ہے۔ یوں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے پر صدر ٹرمپ نے جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تھا‘ وہ ان کے آڑے آ رہا ہے۔ سی این بی سی نے اپنے سروے میں بتایا ہے کہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام ووٹرز کے جس حصے‘ یعنی سینئر سٹیزنز‘ کی مدد سے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی‘ اس کی ہمدردیاں اب جو بائیڈن کے حق میں منتقل ہو چکی ہیں۔ سروے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو بائیڈن نئے ووٹرز کی بھی ایک بڑی تعداد کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘ مگر ان ووٹرز کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتاکہ وہ کتنی تعداد میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔ اگر ان ووٹرز کی ایک بڑی تعداد اپنا یہ حق استعمال کرتی ہے تو بائیڈن کی جیت کے امکانات زیادہ روشن ہو سکتے ہیں۔ اس لئے بہت سے مبصرین کے مطابق بائیڈن کی کامیابی کا زیادہ انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے حامی ووٹرز کتنی تعداد میں بیلٹ باکس کے قریب لانے اور ووٹ کاسٹ کروانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ سی این بی سی کے مطابق جو بائیڈن کا صدر ٹرمپ کے مقابلے میں پلہ بھاری ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انتخابی سروے کے ایسے ادارے‘ جن کی ہمدردیاں روایتی طور پر ری پبلکن پارٹی کے ساتھ چلی آ رہی ہیں‘ بھی متعدد شعبوں میں صدر ٹرمپ پر جو بائیڈن کی سبقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں امریکہ کو درپیش مسائل کے بارے میں ووٹرز کی ترجیحات میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ اس وقت امریکی ووٹرز کے نزدیک سب سے اہم اور تشویشناک مسئلہ کورونا وائرس اور ہیلتھ کیئر کی ہینڈلنگ ہے۔ ان کے مقابلے میں صدر ٹرمپ نے پچھلے مہینوں میں نسلی فسادات کو کنٹرول کرکے امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے میں اپنی کامیابی کو زیادہ اجاگر کیا تھا۔ ان کا خیال تھاکہ ووٹرز خصوصاً سفید نسل سے تعلق رکھنے والے متوسط اور امیر طبقے کے لوگ اس بنیاد پر ان کی حمایت کریں گے‘ لیکن سفید فام اور اونچے طبقات کے لوگ بھی لا اینڈ آرڈر اور معیشت کے بجائے کورونا ہینڈلنگ اور ہیلتھ کیئر کو اولین ترجیح دے رہے ہیں۔ معیشت اور لا اینڈ آرڈر کی باری ان کے بعد آتی ہے۔ ترجیحات کی اس تبدیلی نے صدر ٹرمپ کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ووٹرز کی بڑی تعداد امیدوار کے ذاتی کریکٹر اور شخصیت کو بھی ٹاپ ایشوز ہی شمار کر رہی ہے۔ ایشوز کی رینکنگ میں اس تبدیلی سے صدر ٹرمپ کو نقصان پہنچا ہے‘ جبکہ ان کے حریف جو بائیڈن کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔
یہ حیرانی کی بات ہے کہ صدر ٹرمپ کی بھرپور کوشش کے باوجود چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ووٹرز کی نظر میں ایک اہم ایشو کا مقام حاصل نہیں کر سکے۔ اس سے امریکی عوام کے بارے میں ایک عرصہ سے قائم رائے کی تصدیق ہوتی ہے کہ الیکشن صدارتی ہوں یا کانگریس کے‘ امریکی ووٹرز کے نزدیک خارجہ تعلقات کے مقابلے میں داخلی معاملات زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی لئے صدر ٹرمپ کی جانب سے چین کا ہوّا کھڑا کرنے کے باوجود امریکی ووٹرز نے اسے پہلے یا دوسرے نمبر پر بھی نہیں رکھا۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ چین کے ساتھ جھگڑے کے علاوہ امریکی ووٹرز غیر ملکی تارکینِ وطن اور ٹیکسوں کے مسائل کو بھی وہ اہمیت نہیں دے رہے‘ جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ دراصل امریکیوں کے لئے اصل اور سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہی ہے اور صدر ٹرمپ کا بھی یہی سٹرانگ پوائنٹ ہے‘ لیکن کورونا وائرس کی وبا نے امریکی معیشت کو ایسا گہرا دھچکا لگایا ہے کہ ٹرمپ کے پچھلے چار سالہ دور میں امریکیوں کو بیروزگاری کے خاتمے اور آمدنی میں اضافے کی صورت میں جو نعمتیں حاصل ہوئی تھیں‘ وہ کورونا کی وبا کی وجہ سے ایک ایک کرکے چھنتی جا رہی ہیں۔ جب سے ملک میں کورونا وائرس کی وبا نے ڈیرے ڈالے ہیں‘ بیروزگاری اور مہنگائی پھر سے لوٹ آئی ہیں۔ ان کے ساتھ حکومت کی طرف سے بیروزگار ہونے والے افراد کو الائونس کی ادائیگی اور کورونا سے بری طرح متاثر ہونے والی صنعتوں کو سرکاری خزانے سے فنڈز کی فراہمی نے امریکی معیشت پر اتنا بوجھ ڈالا ہے کہ وہ امریکی ووٹر‘ جنہوں نے 2016 میں ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا‘ اگلے چار برسوں میں اس کی بحالی سے مایوس ہیں۔ ووٹرز کی نظر میں اس کا سبب کورونا وائرس کی وبا ہے‘ جس کی طرف صدر ٹرمپ نے غیرسنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اس کو پھیلنے کا موقع دیا‘ اور اب یہ وبا اتنی پھیل چکی ہے اور اس کی وجہ سے اتنا نقصان ہو چکا ہے کہ امریکی ووٹرز کے نزدیک یہ ٹاپ ایشو بن چکا ہے اور ان میں تاثر راسخ ہوتا جا رہا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوگئے تو وہ اپنا غیر سنجیدہ رویہ بدستور جاری رکھیں گے۔ ایسی صورت میں معیشت کی بحالی کی کیسے امید کی جا سکتی ہے؟ امریکی معاشرے کے متوسط‘ خصوصاً کالج اور یونیورسٹیوں سے ڈراپ ہونے والے نوجوانوں کیلئے یہ صورتحال بہت تشویشناک ہے۔ انہوں نے معیشت کی ترقی کے بہتر امکانات کی بنیاد پر 2016 میں ٹرمپ کا ساتھ دیا تھا‘ اور صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے معیشت کی بہتری کیلئے بہت کام بھی کیا تھا۔ اسی وجہ سے امریکی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ انہیں بیروزگاری سے نجات ملی‘ ان کا معیارِ زندگی بلند ہوا اور ان کی زندگی میں آسودگی آئی‘ مگر اب کورونا کی وجہ سے سب کچھ خطرے میں ہے۔ امریکی متوسط طبقات ان تمام سہولتوں کے چھن جانے کے خیال سے پریشان ہیں اور اس کی ذمہ داری کسی حد تک صدر ٹرمپ پر ڈالتے ہیں جو بروقت اور موثر اقدامات کے ذریعے وبا کو امریکہ میں پھیلنے سے نہ روک سکے۔ ان حالات نے جو بائیڈن کی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی تصدیق یونیورسٹی آف وسکونسن کے الیکشن ریسرچ سنٹر نے 26 اکتوبر کے اپنے چوتھے اور آخری سروے میں بھی کی۔ سروے کے مطابق مرکزیت کی حامل تین ریاستوں مشی گن‘ پنسلوینیا اور وسکونسن میں بائیڈن نے ٹرمپ پر سبقت حاصل کر لی ہے اور ان ریاستوں میں بائیڈن کی الیکٹورل رینکنگ پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سارے معاملات اور یہ سروے رپورٹیں اپنی جگہ لیکن ٹرمپ کے حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ اس لئے منگل کے روز ہونے والے امریکہ کے صدارتی الیکشن میں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے‘ لہٰذا اس میں جیت کس کی ہو گی اور کون ہارے گا‘ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔