گزشتہ دنوں پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں یہ سوال گرما گرم بحث کا موضوع بنا رہاکہ کیا پاکستان میں چین کے سیاسی نظام کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا جا سکتا ہے؟ اس بحث کا منبع وزیر اعظم عمران خان کا جرمن میگزین Der Spiegel کو دیا گیا ایک انٹرویو تھا‘ جس میں جناب وزیر اعظم نے چین میں کرپشن کے خاتمے اور قلیل وقت میں 7 کروڑ عوام کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے میں کامیابی کی تعریف کی تھی اور یہ بھی کہا تھاکہ وہ اس تجربے کو پاکستان میں آزمانا چاہتے ہیں۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے کیونکہ وزیر اعظم نے کرپشن اور غربت کی بیخ کنی میں چین کی حیران کن کامیابی کی ستائش پہلی دفعہ نہیں کی‘ نہ ہی اس میں کوئی بات ایسی ہے جس پر اعتراض کیا جا سکتا ہو کیونکہ ایک دوسرے پہ بھاری انحصار رکھنے والے ممالک کے موجودہ عالمی نظام میں باہمی تجربات سے فائدہ اٹھانا نہ صرف معمول کی بات ہے بلکہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کیلئے ناگزیر بھی ہے۔
خود چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جب تک چین نے بیرونی دنیا کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا‘ اور تقریباً ہر شعبے میں ترقی یافتہ ممالک کے ہنر اور تجربات سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا‘ اس نے ترقی کی منزلیں طے نہیں کی تھیں۔ چین سے پہلے جاپان نے بھی گزشتہ صدی کے اوائل میں یہی راہ اختیار کی تھی اور اس پالیسی کی وجہ سے جاپان کا شمار امریکہ‘ روس‘ جرمنی اور برطانیہ کے ہمراہ بڑی طاقتوں میں ہونے لگا تھا۔ اس لئے اگر وزیر اعظم عمران خان نے کرپشن کے خلاف چین کی سخت گیر پالیسی کی تعریف کی اور اسے اپنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اسی طرح غربت کے خاتمے کیلئے چین نے جو اقدامات کئے‘ وہ پاکستان کیلئے قابلِِ تقلید ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ پاکستان اور چین‘ دونوں ایشیائی اور ترقی پذیر ممالک ہیں اور دونوں کو معاشی ترقی کے راستے میں ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین ایک عرصے سے قریبی روابط ہیں اور متعدد شعبوں میں تعاون بھی جاری ہے۔ اس لئے اگر ہم اپنے دفاع اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں چین کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کر سکتے ہیں تو کرپشن کے خاتمے اور غربت کو مٹانے کیلئے بھی اس کے تجربے کو اپنے لئے بروئے کار لا سکتے ہیں۔ لیکن جس وجہ سے جناب وزیر اعظم کا انٹرویو باعثِ بحث بنا وہ ان کا وہ بیان ہے کہ ''انتخابی سیاست یعنی political pluralism کی عدم موجودگی کے باوجود چین نے اپنے سیاسی نظام میں بہترین افراد کو ٹاپ پہ لانے میں کامیاب رہا ہے‘‘ اس نظام کی تعریف کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ''یہ سسٹم‘‘ میرٹ کے اصول پر مبنی ہے۔چونکہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے بعض حلقوں کی طرف سے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ ملک میں بتدریج پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے‘ اس لئے وزیر اعظم کے اس انٹرویو کے اس حصے کے بارے میں مختلف آرا پیش کی جا رہی ہیں‘ جس میں انہوں نے الیکٹورل پالیٹکس کے بغیر چین کے پولیٹیکل سسٹم کی تعریف کی ہے۔
پاکستان کو پارلیمانی نظام سے زیادہ صدارتی نظامِ حکومت کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت حکومت کا قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ کا رخ کرنے کے بجائے صدارتی آرڈیننس پر زیادہ انحصار ہے؛ اگرچہ آئین میں صدارتی آرڈیننسوں کی گنجائش موجود ہے‘ اور پارلیمانی نظامِ حکومت کے ہوتے ہوئے بھی ہر حکومت نے بوقتِ ضرورت آرڈیننسوں کا سہارا لیا‘ مگر موجودہ حکومت نے سوا دو سال کے عرصے میں ریکارڈ آرڈیننس جاری کئے ہیں۔کورونا وائرس کی وبا بہت سے مسائل پیدا کئے ہیں۔ ایک یہ کہ اس نے ملک کے نہ صرف وفاقی ڈھانچے‘ بلکہ پارلیمانی نظام کی بنیادوں کو بھی کمزور کیا ہے کیونکہ حکومت نئے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل اور انٹر پراونشیل رابطہ وزارت کے آئینی ذرائع کے بجائے این سی سی اور این سی او سی جیسے اداروں کی شکل میں ایک متبادل گورننس سسٹم پر زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ان اداروں سے فوری فیصلہ سازی ممکن ہوئی ہے‘ جو کہ وقت کا تقاضا ہے‘ لیکن سی سی آئی اور آئی پی سی کو غیر فعال بناناپارلیمانی نظام کیلئے سود مند نہیں ۔
پاکستان کے برعکس چین میں ایک ہی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے اور اس کی وجہ سے وہ تاریخی تجربہ ہے‘ جس میں سے گزر کر آج عوامی جمہوریہ چین نہ صرف قومی یکجہتی بلکہ معاشی ترقی اور عسکری طاقت کی ایک درخشندہ مثال بھی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد 1921 میں رکھی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا‘ جب سن یات سین کی قیادت میں رونما ہونے والے چین کے جمہوری انقلاب کو چیانگ کائی شیک نے اپنی ذاتی آمریت میں تبدیل کر لیا تھا اور خود امریکی سامراج کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی بن کر چینی عوام کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی مفادات کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ ایک طرف چینی عوام جاگیرداروں اور وار لارڈز کے ظلم کی چکی میں پس رہے تھے‘ دوسری طرف چیانگ کائی شیک کی حکومت نے غیرملکی سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں کو چین کے وسائل لوٹنے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے عدم مساوات‘ ظلم اور استحصال کے خلاف انقلاب کا جھنڈا بلند کیا۔ اپنی جدوجہد کے دوران چینی کمیونسٹ پارٹی کو بے شمار صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن وہ اپنے عزم پر قائم رہی۔ جب چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے وقت صرف گیارہ ارکان موجود تھے‘ لیکن آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1935 میں جب پارٹی نے چیانگ کائی شیک کی فوجوں کا گھیرائو توڑنے کیلئے آٹھ ہزارکلومیٹر طویل لانگ مارچ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے پاس ساٹھ ہزار لڑاکا سپاہی اور پچاس ہزار امدادی دستے تھے۔ پارٹی کی طاقت میں اضافے کی وجہ اس کا انقلابی اور اصلاحاتی پروگرام تھا‘ جس کی طرف چینی عوام کی اکثریت‘ خصوصاً پسے ہوئے طبقات کھنچے چلے آ رہے تھے۔ ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہر ملک کا سیاسی نظام اس کے مخصوص تاریخی‘ ثقافتی‘ معاشی اور سیاسی حالات کی پیداوار ہوتا ہے۔
پاکستان میں 1973 کے آئین کے تحت رائج پارلیمانی نظام نہ صرف آزادی کے بعد بلکہ آزادی سے پہلے بھی عوام‘ سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کے ایک لمبے تجربے اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس نظام کو متعارف انگریزوں نے کروایا مگر اسے پروان چڑھانے اور اسے ایک صحیح معنوں میں جمہوری قالب میں ڈھالنے میں مسلم لیگ سمیت دوسری تمام سیاسی پارٹیوں کی جدوجہد کا بڑا حصہ ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد ایوبی آمریت اور اس کے صدارتی نظام کے خلاف جدوجہد اور ضیاالحق کی آٹھویں ترمیم کو منسوخ کرکے 18ویں آئینی ترمیم کا نفاذ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پارلیمانی نظام پر اتفاق رائے پاکستان تک محدود نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی اس اتفاق رائے میں شریک ہیں۔ ایک اور اہم پہلو جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے‘ یہ ہے کہ چین کی ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کا ساڑھے نو فیصد حصہ ایک ہی نسل اور زبان بولنے والے یعنی ہن لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس نے چین میں ایک یعنی کمیونسٹ پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں بہت مدد دی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان ایک کثیرالقومی ملک ہے۔ اس میں نہ تو ایک پارٹی کی حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی صدارتی نظام کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس لئے اگر وزیر اعظم زراعت‘ صنعت‘ اور سائنس و ٹیکنالوجی میں چین کے کامیاب تجربے سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو ضرور سیکھیں‘ لیکن سیاسی اور انتظامی نظام کو بالکل ویسی ہی شکل میں نافذ کرنے کا خیال دل میں نہ لانا ہی بہتر ہوگا!