امریکہ کے صدارتی الیکشن کے نتائج سے واضح ہو چکا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن امریکہ کے آئندہ صدر ہوں گے۔ ان کے ساتھ کملا ہیرس نائب صدر منتخب ہو گئی ہیں۔ جو بائیڈن باقاعدہ طور پر اپنے عہدے کا حلف 20 جنوری 2021 ء کو اٹھائیں گے‘ تاہم دنیا بھر میں نئے صدر کی قیادت میں امریکہ کی پالیسیوں کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا کی سب سے طاقتور معیشت اور سب سے بڑی عسکری قوت ہونے کی وجہ سے امریکہ کے اثرورسوخ کو دنیا کے ہر کونے میں محسوس کیا جاتا ہے۔ کرۂ ارض کے تقریباً تمام اہم خطوں میں اس نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کم و بیش ایک ہزار فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں‘ جہاں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس جنگی جہاز‘ بمبار طیارے اور آبدوزیں ہر وقت مستعد رہتی ہیں۔ ایک سپر پاور ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے حربی اور معاشی مفادات دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں‘ مگر بعض خطے ایسے ہیں جہاں امریکی موجودگی زیادہ فعال نظر آتی ہے۔ ان میں سے ایک جنوبی ایشیا بھی ہے جسے 'ایشیا بحرالکاہل‘ کا نام دے کر یہاں ایک وسیع تر سیاسی‘ دفاعی اور معاشی اتحاد قائم کیا گیا ہے‘ اس میں خلیج فارس سے لے کر بحرِ ہند‘ سائوتھ چائنا اور بحرالکاہل کا سارا خطہ شامل ہے۔
اس اتحاد کی غرض و غایت کیا ہے؟ امریکہ نے اس کو کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی اور علی الاعلان دنیا کو بتایا ہے کہ اس اتحاد‘ جس میں امریکہ کے علاوہ جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں‘ کا مقصد اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھنا ہے۔ اس پس منظر میں جنوبی ایشیا میں یہ موضوع زیرِ بحث ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت امریکہ کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی؟ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انتظامیہ کی تبدیلی کے باوجود امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کوئی بنیادی اور ڈرامائی تبدیلی نہیں آتی کیونکہ خارجہ پالیسی کے شعبے میں ہر فیصلے کو دونوں پارٹیوں کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے‘ اس لئے نئی آنے والی انتظامیہ اپنی پیشرو انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں کوئی اہم تبدیلی نہیں کرتی‘ البتہ شخصیات کی تبدیلی سے فرق پڑتا ہے اور ہر صدر اپنی پسندناپسند یا ترجیحات کے مطابق ایڈجسٹمنٹ ضرور کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا کو امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کبھی وہ حیثیت حاصل نہیں ہوئی‘ جو یورپ‘ مشرقِ وسطیٰ یا مشرقِ بعید کو حاصل تھی‘ لیکن جب سے افغانستان کا مسئلہ پیدا ہوا ہے اور اقتصادی و عسکری لحاظ سے طاقتور چین کا سایہ جنوبی ایشیا اور بحرِ ہند پر پڑنا شروع ہوا ہے‘ امریکہ نے اس خطے کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے‘ امریکہ نے وہاں سے اپنی فوجیں نکالنے کیلئے افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ کررکھا ہے اور اس معاہدے کے تحت بیشتر امریکی اور نیٹو ممالک کی افواج وہاں سے جا چکی ہیں۔ طالبان کے ساتھ بات چیت اور بتدریج فوجی انخلا کی پالیسی اوباما دور میں ہی اپنا لی گئی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پر تیزی سے عمل شروع کر دیا تھا‘ لیکن انٹرا افغان ڈائیلاگ میں تعطل اور طالبان کی جانب سے جنگ تیز کرنے کے اقدامات نے اس پر تھوڑی سی بریک لگا دی۔ خیال ہے کہ جو بائیڈن سابق صدر اوباما کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فروری 2020 ء کے معاہدے کے تحت امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا عمل جاری رکھیں گے‘ لیکن یہ عمل کب اور کیسے مکمل ہو گا‘ اس کا بہت حد تک انحصار طالبان دھڑوں کے باہمی مذاکرات پر ہو گا‘ لیکن جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اہم عسکری حکام نے‘ اور اوباما دور میں بھی ہلیری کلنٹن نے بطور سیکرٹری آف سٹیٹ یہ واضح کر دیا تھا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا‘ مگر افغانستان سے وہ کبھی دستبردار نہیں ہو گا بلکہ کسی نہ کسی شکل میں وہاں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے جہاں ایک طرف امریکہ کو طالبان سے بات کرنا پڑے گی‘ وہاں اسے پاکستان کی مدد بھی درکار ہو گی۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ چونکہ افغانستان کے مسئلے کا حتمی حل دور دور تک نظر نہیں آتا‘ اس لئے پہلے کی طرح پاکستان اور امریکہ کے مابین قریبی رابطہ جاری رہے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے نومنتخب صدر جو بائیڈن کو ان کی کامیابی پر مبارکباد کا جو پیغام بھیجا‘ اس میں افغانستان میں قیامِ امن میں مدد فراہم کرنے کی پالیسی کوجاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کی طرف سے اس کا مثبت جواب آئے گا‘ لیکن صدر ٹرمپ کے دور میں معطل کی گئی امریکی فوجی اور اقتصادی امداد کی فوری بحالی کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔ اس کی وجہ سی پیک اور دیگر دوطرفہ معاہدوں کے تحت پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرح جو بائیڈن کی حکومت بھی چین کو امریکہ کا حریف سمجھے گی اور بدلے ہوئے حالات کے تحت چین کے بارے میں امریکہ کی اس پالیسی کے لوٹ آنے کا کوئی امکان نہیں‘ جو صدر اوباما نے 2013-14 ء میں Pivot Asia یا Asia Re-balance کے نام سے اپنائی تھی۔ پاکستان نے جس دوٹوک انداز میں اپنا حال اور مستقبل چین کے ساتھ وابستہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے‘ اس کے تناظر میں ممکن ہے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں اتنی گرمجوشی نہ رہے‘ لیکن حالات ٹرمپ دور جیسے بھی نہیں رہیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش تھی کہ پاکستان کو مکمل طور پر چین کے حلقۂ اثر میں جانے سے روکا جائے‘ اس کیلئے امریکہ نے سی پیک کے متبادل بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کو مالی امداد دینے کی پیشکش بھی کی گئی تھی‘ مگر سی پیک اور سٹریٹیجک ڈومین میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کے اتنے قریب آ چکے ہیں کہ اسلام آباد کیلئے واشنگٹن کے مطالبات تسلیم کرنا ممکن نہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں بھارت اور امریکہ کے سٹریٹیجک تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ابھی چند روز ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو اور سیکرٹری ڈیفنس مائیک ایسپر نے نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ 2+2 کے سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت مذاکرات کئے تھے۔ انہی مذاکرات کے دوران بھارت اور امریکہ کے مابین ایک اہم دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ امریکہ نے انڈوپیسیفک کی دفاعی حکمت عملی میں اپنے ساتھ مذکورہ بالا جن چار ممالک کو شامل کر رکھا ہے ان کی مشترکہ بحری مشقیں ''مالابار‘‘ کے نام سے آج کل بحرِ ہند کے مشرقی حصے میں ہو رہی ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے مابین ہتھیاروں کی خریدوفروخت میں بھی 20 بلین ڈالر تک اضافہ ہو چکا ہے۔ امریکہ اس وقت بھارت کو چین کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کو روکنے کی حکمت عملی میں جاپان اور آسٹریلیا کے برابر کا شراکت کار سمجھتا ہے اس لئے بھارت کے سفارتی اور دفاعی حلقے پُرامید ہیں کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ بھی سابق انتظامیہ کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات برقرار رکھے گی۔ جو بائیڈن نائب صدر کی حیثیت سے 2013 ء میں بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔ جب وہ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین تھے تو انہوں نے امریکہ اور بھارت کے مابین طے پانے والی سول نیوکلیئر ڈیل کو منظور کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا‘ مگر صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جو بائیڈن کیلئے بھارت کے ساتھ مسائل اور الجھنوں سے بالکل آزاد تعلقات کو قائم رکھنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
کچھ مبصرین کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ جو بائیڈن کی اولین ترجیح امریکہ کے اندرونی مسائل خصوصاً کورونا وائرس پر کنٹرول حاصل کرنا اور معیشت کو مضبوط بنانا ہے‘ لیکن وسیع تر تناظر میں نئی انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کم کرنے کی بھی کوشش کر سکتی ہے تاکہ ایک طرف وہ پاکستان کو مکمل طور پر چین کی جھولی میں جانے سے روک سکے اور دوسری طرف جنوبی ایشیا میں اپنی پوزیشن بہتر بنا سکے۔