گزشتہ دنوں بھارت کی ریاست بہار (Bihar) میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ یہ انتخابات مرحلہ وار ہوئے تھے‘ اب جس کے نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ اس ریاست کی آبادی 10 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس لحاظ سے یہ بھارت کی تیسری بڑی ریاست ہے اور اس حوالے سے دیکھا جائے تو بہار کے ریاستی انتخابات تین لحاظ سے خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ اول: کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد بھارت کے یہ پہلے (ریاستی) انتخابات تھے۔ دوم: وزیر اعظم نریندر مودی کی سخت گیر لاک ڈائون کی پالیسی سے بہار کی ریاست سب سے زیادہ متاثر ہوئی تھی کیونکہ اس کے لاکھوں مزدور بھارت کی دیگر ریاستوں خاص طور پر بنگلورو (بنگلور) کرناٹک‘ آندھرا پردیش میں مہاراشٹری مائیگرنٹ (Migrant) ورکرز کے طور پر کام کرتے ہیں؛ چنانچہ انہیں سخت لاک ڈائون کی وجہ سے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے گھروں کو واپس لوٹنا پڑا تھا۔ سوم: بہار بھارت کی ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں ''مودی ویو‘‘ (Modi Wave) نے اپنا وہ رنگ ابھی تک نہیں دکھایا تھا جو ملک کے دیگر صوبوں میں بی جے پی حیران کن انتخابی کامیابیوں کی صورت میں دکھا چکی ہے۔ اگرچہ 2015 کے مقابلے میں حالیہ الیکشن میں بی جے پی کی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوا‘ مگر وزارت اعلیٰ کا عہدہ اب بھی اس کے ہاتھ میں نہیں آیا۔ ریاست میں ایک عرصہ تک راشٹریہ جنتا دَل کے رہنما لالو پرشاد یادیو کا طوطی بولتا رہا اور اب جنتا دَل (یونائیٹڈ) کے لیڈر نتیش کمار کی اس قدر دھاک بیٹھی ہوئی ہے کہ 243 سیٹوں کی اسمبلی میں صرف 43 نشستیں حاصل کر کے بھی وہی ایک دفعہ پھر بہار کے وزیر اعلیٰ بنیں گے۔
ریاست کے انتخابی نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ سیکولرازم کے مقابلے میں مذہب اور ذات پات کے عوامل نے امیدواروں کے چنائو میں زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہار کا شمار بھارت کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جن کے معاشرے میں مذہب اور ذات پات کی تقسیم بہت گہری ہے اور ہر ذات یا مذہب کے پیروکاروں کی کسی مخصوص سیاسی پارٹی کو حمایت حاصل ہے‘ مثلاً ریاست کے اٹھارہ فیصد اعلیٰ ذات کے ہندو بی جے پی کے کٹر حامی ہیں۔ اس کے بعد دیگر پس ماندہ طبقات (OBC) (Other Backward Class) کے لوگ ہیں۔ بہار کے معاشرے میں ان کی شرح 52 فیصد ہے‘ مگر یہ دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک یادیو ذات اور دوسرے غیر یادیو ذات کے حامی ہیں۔ بی جے پی نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ یادیو ذات کے علاوہ کچھ دوسرے پس ماندہ ذات کے لوگوں کو‘ جن کی تعداد دیگر پس ماندہ ذات کے لوگوں سے کم ہے‘ کو اپنی ساتھ ملا لیا تھا۔ اس سے بی جے پی نے اسمبلی کی 74 نشستیں جیت لیں‘ مگر لالو پرشاد یادیو کے بیٹے اور راشٹریہ جنتا دَل کے لیڈر تاجیشوی یادیو کو ملنے والی نشستیں کم ہو گئیں‘ حالانکہ جلسوں اور جلوسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد دیکھ کر مبصرین راشٹریہ دَل کی حکومت کے قیام کی پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ اگرچہ 74 نشستوں کے ساتھ راشٹریہ دَل دیگر تمام سیاسی پارٹیوں سے آگے ہے مگر بی جے پی نے نتیش کمار کی جنتا دَل (یونائیٹڈ) کے ساتھ مل کر ریاست میں حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ 2015 میں لالو پرشاد یادیو کی راشٹریہ جنتا دَل (RJD) نے نتیش کمار کی جنتا دَل (یونائیٹڈ) (JDU) نے آل انڈیا کانگریس کے ساتھ مل کر بی جے پی کا مقابلہ کیا تھا۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے 243 میں سے صرف 53 نشستیں حاصل کی تھیں‘ مگر 2017 میں نتیش کمار نے لالو پرشاد یادیو سے الگ ہو کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ بی جے پی کا ساتھ نبھاتے ہوئے نتیش کمار نے اس دفعہ راشٹریہ دَل اور کانگریس پر مشتمل مہا جتھی بندھن (Grand Alliance) کو شکست دی اور اپنے دیگر اتحادیوں کو ملا کر بہار میں حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کر لی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارت اعلیٰ کا عہدہ ایک بار پھر نتیش کمار کے پاس رہے گا‘ حالانکہ بی جے پی کی 74 نشستوں کے مقابلے میں ان کی پارٹی جنتا دَل (یونائیٹڈ) نے صرف 43 نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نتیش کمار ریاست میں سب سے زیادہ مقبول سیاست دان ہیں اور بی جے پی اس کی مقبولیت کی بنا پر ریاست میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتی ہے۔
بہار کے ان انتخابات کے اور بھی نئے اور دور رس اہمیت کے حامل پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک اسدالدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحادِ مسلمین (AIMIM) کی پانچ نشستوں کے ساتھ کامیابی ہے۔ اس سے قبل مسلمان‘ جن کی ریاست میں آبادی 16.9 فیصد ہے‘ راشٹریہ جنتا دَل کو ووٹ دیتے تھے‘ مگر اس دفعہ پہلی مرتبہ انہوں نے ایک مسلمان لیڈر کی قیادت میں ایک مسلمان پارٹی کو ووٹ دیئے‘ مگر اس کا فائدہ بی جے پی نے اٹھایا کیونکہ اس سے اس کی مخالف سیکولر پارٹی راشٹریہ جنتا دَل کی سیٹیں کم ہو گئیں۔ دوسرا اہم پہلو بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ‘ لیننسٹ) لبریشن (CPI (ML) L) جو سابق نکسلائٹ ہیں‘ کی نمایاں کامیابی ہے۔ اس نے ان انتخابات میں 12 نشستیں حاصل کی ہیں‘ جو کہ آل انڈیا نیشنل کانگریس سے صرف 7 نشستیں کم ہیں۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک اگر سابقہ نکسلائٹ اپنی مسلح جدوجہد ترک کرکے قومی سیاسی دھارے میں شامل ہو جاتے ہیں تو ریاست میں ایک بڑی قوت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ اس طرح راشٹریہ جنتا دَل (RJD) کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر بہار کے مسلمانوں کا ایک مسلمان لیڈر اسدالدین اویسی کی سربراہی میں ایک مسلمان سیاسی جماعت (AIMIM) کو ووٹ دینے کا فیصلہ بھی دور رس اور اہم مضمرات کا حامل ہے۔ فی الحال اس فیصلے سے انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کو فائدہ پہنچا ہے اور ایک سیکولر راشٹریہ جنتا دَل کو نقصان‘ لیکن آگے اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ اس بارے میں ابھی وثوق کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔
ان انتخابات میں سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی اور سب سے زیادہ نقصان آل انڈیا نیشنل کانگریس کو ہوا۔ بی جے پی نے 2015 کے انتخابات میں حاصل ہونے والی 53 نشستوں کے مقابلے میں اس دفعہ 74 نشستیں حاصل کر لی ہیں جبکہ کانگریس نے 70 امیدوار کھڑے کئے تھے اور صرف 19 نشستیں حاصل ہوئیں۔ ان انتخابات کے نتائج سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران نریندر مودی کی سخت لاک ڈائون پالیسی اور دوسرے اقدامات کی وجہ سے ریاست کے لاکھوں مائیگرنٹ ورکرز (Migrant Workers) کو جو جسمانی اور مالی تکالیف پہنچیں‘ ان کے باوجود ریاست کی آبادی کے ایک بڑے حصے نے ذات پات سے بالا ہو کر بی جے پی کے حق میں ووٹ دیئے۔ مبصرین کے نزدیک اس کی وجہ نریندر مودی کے کشمیر میں استبدادی اقدامات اور لداخ میں چین کا پامردی سے سامنا کرنے کے حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا ہے۔ راشٹریہ جنتا دَل کے 31 سالہ نوجوان لیڈر تاجیشوی یادیو نے سیاست میں موجودہ وسیع پیمانے کی غربت‘ بے روزگاری اور کورونا وائرس کی وبا میں عام لوگوں کی مشکلات کی بنیاد پر عوام کو متحرک کیا تھا‘ مگر مودی نے قومی سلامتی کے مسائل کو اچھال کر ریاست میں خوف و ہراس کی ایسی فضا قائم کی کہ لوگ اپنے اصلی اور بنیادی مسائل کو بھلا کر نریندر مودی کی نام نہاد ''ویو‘‘ (Modi Wave)) کے چکر میں آ گئے۔