"DRA" (space) message & send to 7575

گلگت بلتستان: سیاسی‘ دفاعی اور معاشی تناظر

گلگت بلتستان میں منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات اس خطے کے تیسرے انتخابات تھے۔ اس سے قبل 2009 اور پھر 2015 میں انتخابات ہوئے تھے۔ 2009 کے انتخابات پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کی 24 نشستوں کیلئے براہ راست اور عام بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پہلے انتخابات تھے۔ ان میں حصہ لینے والے امیدواروں کی کل تعداد 264 تھی جن میں سے 90 کا تعلق مختلف سیاسی پارٹیوں سے تھا جبکہ باقی امیدواروں نے آزاد حیثیت میں حصہ لیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی‘ جس کی مرکز میں بھی حکومت تھی‘ نے 20 نشستیں حاصل کر کے گلگت بلتستان میں پہلی حکومت قائم کی تھی‘ جس کی سربراہی وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کے ہاتھ میں تھی۔ 
بلتستان ‘ جس نے 1948 میں پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا‘ پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے مشہور تھا‘ مگر 2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ''سیلف گورنمنٹ آرڈر‘‘کے تحت شمالی علاقہ جات کو گلگت بلتستان ایڈمنسٹریٹو یونٹ کانام دیا تھا۔ 2015 کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد 445 تھی۔ ان میں پیپلز پارٹی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ نون‘ تحریک انصاف‘ متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی بھی شامل تھیں‘ مگر میدان مسلم لیگ ن کے ہاتھ رہا‘ جس کی مرکز میں بھی حکومت تھی۔ اس نے 24 میں سے 15 نشستیں حاصل کی تھیں۔ 2015 کے انتخابات کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ امن و امان کے قیام کیلئے 5500 فوجی جوان اور 4356 پولیس کے سپاہی تعینات کئے گئے تھے۔ نومبر 2020 کے انتخابات میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ اس لئے مرکزمیں حکمران تحریک انصاف کے آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ساتھ ملا کر حکومت بنا رہی ہے۔ 
گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کی کشمیر کے بارے میں قرارادادوں میں ریاست جموں و کشمیر کا حصہ بتایا گیا تھا۔ حکومت آزادجموں و کشمیر بھی گلگت بلتستان کو اپنا حصہ سمجھتی ہے مگر گلگت بلتستان کے عوام کی بھاری اکثریت پاکستان میں ضم کر کے اسے ایک صوبہ بنانے کے حق میں ہے۔ 1948 کے بعد ایک طویل عرصہ تک گلگت بلتستان کو پاکستان کی مرکزی حکومت براہ راست کنٹرول کرتی تھی اور اسے کوئی علیحدہ آئینی‘ سیاسی اور انتظامی درجہ حاصل نہیں تھا۔ یہاں کے عوام میں اس صورت حال کے باعث اضطراب پایا جاتا تھا اور احتجاج کی شکل میں اس کا متعدد بار اظہار بھی کیا گیا؛ چنانچہ 2009 میں صدرآصف علی زرداری نے اسے ایک علیحدہ انتظامی یونٹ بنا دیا مگر گلگت بلتستان کے عوام غالباً اس سے پوری طرح مطمئن نہیں‘ کیونکہ اختیارات اسمبلی کے بجائے گورنر کے ہاتھ میں ہیں‘ جو مرکزی حکومت کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے انتخابات میں وہی سیاسی پارٹی نمایاں کامیابی حاصل کرتی ہے جس کی مرکز میں حکومت ہو۔ 
حالیہ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو ایک عبوری صوبے کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ عام طور پر سمجھا جارہا ہے کہ حکومت نے گلگت بلتستان کے 15نومبر کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت کی راہ ہموار کرنے کیلئے یہ اعلان کیا‘ مگر بعض اطلاعات کے مطابق یہ فیصلہ چین کے ایما پر کیا گیا ہے کیونکہ گلگت بلتستان کے غیر یقینی آئینی اور انتظامی مستقبل کا سی پیک کی تعمیر پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ چین کو اس صورت حال پر تشویش ہے‘ کیونکہ گلگت بلتستان سی پیک کا دروازہ ہے۔ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے گلگت بلتستان نمایاں سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی سرحدیں آزاد کشمیر‘ مقبوضہ کشمیر‘ چین اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ملتی ہیں۔ گزشتہ تقریباً چھ ماہ سے لداخ میں جاری چین بھارت سرحدی چپقلش کے نتیجے میں گلگت بلتستان کی سٹریٹیجک اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے‘ کیونکہ اس کی سرحدیں لداخ کے علاوہ چینی صوبے سنکیانگ سے بھی ملتی ہیں‘ جس کا دارالحکومت کاشغر سی پیک کا شمالی ٹرمینل ہے۔ بھارت کی بری فوج کے سابق سربراہ اور اب چیف آف دی ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کی طرف سے ایک حالیہ بیان‘ جس میں انہوں نے چین اور پاکستان کے ساتھ بیک وقت دو محاذوں پر جنگ کا امکان ظاہر کیا ہے‘ کی روشنی میں گلگت بلتستان کو دفاعی اعتبار سے مزید اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اس سے قبل سی پیک کی حفاظت کیلئے فوج کی ایک سپیشل ڈویژن (نارتھ) گلگت بلتستان میں فرائض سرانجام دے رہی ہے‘ لیکن گزشتہ سال 5اگست سے کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور لداخ میں خطرناک چین بھارت کشیدگی کے پیشِ نظر گلگت بلتستان میں حفاظتی اقدامات کو مزید مضبوط بنانا ضروری ہو گیا ہے‘ مگر ان حفاظتی اقدامات میں گلگت بلتستان کے عوام کے آئینی‘ سماجی اور معاشی حقوق کا تحفظ بھی شامل ہونا چاہئے‘ کیونکہ کئی دہائیوں تک یہ علاقہ بے توجہی کا شکار رہا ہے۔ یہ علاقہ ‘ جو رقبے کے لحاظ سے آزاد کشمیر سے چھ گنا بڑا ہے مگر اس کی آبادی 20 لاکھ سے بھی کم ہے‘ معدنی دولت اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ فطرت کی طرف سے دی گئی ان نعمتوں کو استعمال میں لا کر گلگت بلتستان کے مفلس عوام کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں‘ مثلاً جغرافیائی محلِ وقوع ‘ خوبصورت وادیوں اوربرف پوش چوٹیوں کی وجہ سے یہ علاقہ جنوبی ایشیا میں تفریحی سیاحت کا حب بن سکتا ہے۔ چین دنیا بھر کے سیاحوں کی پسندیدہ منزل ہے۔ اگر ہم چینی سرحد کھول دیں اور چین میں آنے والے بیرونی سیاحوں کو گلگت بلتستان میں داخل ہونے کی سہولت مہیا کر دیں تو علاقے میں سیاحت کی صنعت تیزی سے ترقی کر سکتی ہے۔ اسی طرح اگر پاک بھارت تعلقات میں بہتری آ جائے اور کشمیر کے حالات نارمل ہو جائیں تو گلگت بلتستان کشمیر میں داخل ہونے والے سیاحوں کیلئے بھی ایک پر کشش مقام بن سکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب خطے میں محاذ آرائی کے بجائے تعاون اور کشیدگی کی جگہ خیر سگالی لے لے ۔ گلگت بلتستان معدنی دولت سے مالا مال ہے‘ لیکن اس سے استفادہ کرنے کی اب تک کوئی سنجیدہ اور بھرپور کوشش نہیں کی گئی ہے۔ سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری کے نتیجے میں امید ہے کہ گلگت بلتستان میں مائننگ انڈسٹری کو جدید خطوط پر ترقی دی جا سکے گی‘ مگر اس عمل میں مقامی سرمایہ کاروں اور عوام کے مفاد کا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے‘ سی پیک کی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے اور لداخ میں چین بھارت محاذ آرائی کے پیشِ نظر گلگت بلتستان ایک انتہائی حساس علاقہ بن چکا ہے۔ بھارت اپنے بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے مقامی لوگوں کے ذہنوں میں سی پیک اور پاکستان کے حکومتوں کے خلاف بدگمانیاں اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس لئے پاکستان کو گلگت بلتستان میں سکیورٹی کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ عوام کے بنیادی حقوق اور مفادات کے حوالے سے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے علاقے کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے مگرگلگت بلتستان کے عوام اور خاص طور پر نوجوان طبقہ ‘ دیگر پاکستانیوں کی طرح مکمل سیاسی‘ معاشی اور آئینی حقوق اور اختیارات چاہتے ہیں جو اس وقت عوام کی منتخب کردہ اسمبلی کے بجائے وفاقی حکومت کے نمائندے گورنر کے پاس ہیں۔ اس جانب کسی پیش قدمی میں تاخیر اور گلگت بلتستان کے معاملے میں صرف سکیورٹی کے پہلو پر فوکس اور سیاسی پہلو سے بے اعتنائی پر مبنی پالیسی نہ صرف علاقے کے عوام میں بے چینی کو جنم دے گی بلکہ پاکستان کے وسیع تر مفادات کے لئے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں