پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان سرکاری دوروں کی شکل میں باہمی رابطہ اتنی کثرت اور تواتر سے ہوتا چلا آ رہا ہے کہ افغانستان کے صدر پاکستان کے دورے پر آئیں یا پاکستان کے صدر یا وزیر اعظم افغانستان تشریف لے جائیں‘ معمول کی بات سمجھی جاتی ہے‘ مگر 19 نومبر کو وزیر اعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی‘ کامرس اور تجارت کے لئے وزیر اعظم کے مشیر زراق دائود‘ ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ کابل کا جو ایک دن کا دورہ کیا‘ کئی وجوہات کی بنا پر وہ الگ اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے پہلے وزیر اعظم کے وفد کے ارکان پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس دورے کا مقصد ان مسائل پر بات چیت کرنا تھا‘ جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین بداعتمادی اور شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا تھا۔وزیر اعظم کے دورے سے ایک روز قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے ہمراہ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کے خلاف بھارت کی دہشتگردی کی کارروائیوں پر مشتمل ایک ڈوزیئر پیش کیا تھا جس میں شامل تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بیشتر افغانستان میں مقیم بھارتی سفارت کار‘ پاکستان دشمن تنظیموں اور عناصر کے ذریعے کرواتے ہیں۔ اس پریس کانفرنس کے فوراً بعد افغانستان کی حکومت نے ایک بیان کے ذریعے اس دعوے کی سختی سے تردید کی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے۔ چونکہ وزیر اعظم کے وفد میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی شامل تھے اور وہ پاکستان کے خلاف سرگرم گروپوں کے کیمپوں اور کارروائیوں سے بخوبی آگاہ ہیں‘ اس لئے انہوں نے وزیر خارجہ کے ہمراہ افغان حکام کو ڈوزیئر میں درج پاکستانی دعووں کے بارے میں اعتماد میں لیا ہو گا۔ پاکستان کیلئے یہ مسئلہ اس لئے اہم ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں افغانستان کے ساتھ لگنے والے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں فوجی چوکیوں پر دہشتگرد حملوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کو یقین ہے کہ حملہ آور دہشت گرد پاک افغان سرحد کے پار سے آ کر یہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔
وفد میں کامرس اور تجارت کیلئے وزیر اعظم کے مشیر رزاق دائود کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ وزیر اعظم کے دورے کا ایک بڑا مقصد دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تجارت کو فروغ دینا تھا۔ چند برس قبل افغانستان پاکستان کی برآمدات کیلئے سب سے بڑی منڈی تھا اور درآمدات و برآمدات ملا کر دو طرفہ تجارت کا حجم دو بلین ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا تھا‘ مگر اس وقت پاک افغان مجموعی دو طرفہ تجارت کم ہو کر ایک بلین ڈالر سے بھی نیچے آ چکی ہے‘ حالانکہ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیر باز بلور کے مطابق دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تجارت کے حجم میں 5 بلین ڈالر تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی برآمدات کیلئے افغانستان کی محفوظ منڈی ہاتھ سے نکل گئی لیکن کسی حکومت نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا‘ نہ ہی ان عوامل کو جاننے کی کوشش کی‘ جن کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک آپس میں تجارت کے بجائے دوسرے ممالک کو مال بیچ رہے ہیں یا ان سے خرید رہے ہیں۔ اب جبکہ پاکستان کی معیشت اور کرنسی برآمدات میں کمی کے باعث سخت دبائو میں ہے‘ اور حکومت برآمدات میں اضافے کی کوششوں میں مصروف ہے‘ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری خصوصاً دو طرفہ تجارت کے فروغ کی اہمیت محسوس ہونے لگی ہے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت میں پاکستان کی غیرمعمولی دلچسپی کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کا اصل مطلب پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہے‘ کیونکہ افغانستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے‘ جن کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں توازن پاکستان کے حق میں ہے‘ یعنی دونوں ملکوں کی دو طرفہ تجارت کے کل حجم کا تقریباً 90 فیصد حصہ افغانستان کو پاکستانی برآمدات پر مشتمل ہے۔ اس سے زیادہ محفوظ مارکیٹ پاکستان کو دنیا کے کسی حصے میں میسر نہیں۔ اس لئے پاکستان نے اس کھوئی ہوئی مارکیٹ کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ایک طرف پاک افغان سرحد پر واقع تجارتی مراکز کو کھولا ہے اور دوسری طرف سفارتی کوششوں کو تیز کیا ہے۔ افغانستان کیلئے سابق پاکستانی سفیر محمد صادق کی بطور نمائندہ خصوصی تقرری اور رزاق دائود کے ہمراہ وزیر اعظم کا دورہ افغانستان انہی کوششوں کا اہم حصہ ہیں۔
وزیر اعظم کا یہ دورۂ افغانستان کتنا اہم تھا؟ افغانستان اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس پر جو رد عمل آیا ہے‘ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے۔ افغانستان میں وزیر اعظم کے وفد کا نہ صرف پُر تپاک خیر مقدم کیا گیا‘ بلکہ صدر اشرف غنی نے دوحہ مذاکرات کو ممکن بنانے اور اس عمل کو آگے بڑھانے پر پاکستانی امداد کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس کے علاوہ کابل میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون پر مبنی اور باہمی مفاد کی روشنی میں امن‘ ترقی اور خوشحالی کے فروغ کیلئے ملکر ضروری اقدامات کرنے کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے‘ جسے شیئرڈ ویژن (Shared Vision) دستاویز کا نام دیا گیا ہے۔ اس دستاویز کے مطابق پاکستان اور افغانستان آئندہ باہمی اعتماد کو فروغ دینے‘ سرحدوں پر پُرامن ماحول قائم کرنے اور امن دشمن قوتوں کے عزائم ناکام بنانے کیلئے عملی اقدامات کریں گے۔ پاکستان کیساتھ تعلقات میں خیر سگالی کا اضافہ کرنے کیلئے افغان حکومت نے جیلوں میں قید پاکستانیوں کی فوری رہائی کا حکم دے دیا ہے۔
دوسری طرف امریکہ اور یورپی یونین نے بھی وزیر اعظم کے دورے کا خیر مقدم کیا اور اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں امید ظاہر کی کہ اس سے پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی‘ جس سے افغان امن مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ علاقائی اور بین الاقوامی حلقوں نے وزیر اعظم کے اس بیان کا خصوصی طور پر نوٹس لیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کیلئے ہر وہ اقدام کرے گا‘ جو اس کے بس میں ہو گا۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وزیر اعظم کا یہ دورہ انتہائی بروقت تھا کیونکہ امریکہ میں نومنتخب صدر جو بائیڈن کے جنوری میں حلف اٹھانے کے بعد نہ صرف پاک افغان تعلقات بلکہ افغانستان کا مسئلہ بھی ایک نئے دور میں داخل ہونے والا ہے‘ جس میں پاکستان کو ایک اہم کردار ادا کرنا پڑے گا‘ اور یہ کردار اس وقت تک مثبت اور بارآور ثابت نہیں ہو سکتا‘ جب تک پاکستان اور افغانستان باہمی مفاہمت پر مبنی مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہ کریں۔ امریکہ اور طالبان کے مابین غیر ملکی افواج کے انخلا پر معاہدے کو نو ماہ ہونے کو ہیں مگر اب تک انٹرا افغان ڈائیلاگ کا باضابطہ آغاز نہیں ہو سکا کیونکہ اس کے بنیادی اصولوں اور فریم ورک پر طالبان اور افغان حکومت متفق نہیں ہو رہے۔ اس طرح دورے کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے مابین ناصرف ابھی دوطرفہ اختلافات موجود ہیں بلکہ قیام امن کیلئے جو اقدامات ضروری اور فوری نوعیت کے ہیں‘ ان پر بھی دونوں ممالک کے مابین اپروچ کا فرق پایا جاتا ہے۔ کابل میں وزیر اعظم کے دورے کے دوران دونوں ملکوں نے اس مسئلے پر جو بیانات دیئے ان کے جائزے سے فرق واضح ہو جاتا ہے۔ افغان حکومت ملک میں فوری جنگ بندی اور امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کی خواہشمند ہے جبکہ پاکستان تشدد کے واقعات میں کمی کے ذریعے جنگ بندی کے بتدریج حصول کا حامی ہے۔ اس طرح پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ دونوں ملکوں کے مابین ایک اہم مسئلہ ہے؛ تاہم یہ اختلافات ایسے نہیں جو دور نہیں ہو سکتے۔ دونوں ملکوں کے مابین روابط اور میل جول جاری رہے تو یہ رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی۔ وزیر اعظم کا دورہ افغانستان کو اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔