"DRA" (space) message & send to 7575

پاکستان اور اسرائیل

کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے؟ آج کل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس سوال پر گرماگرم بحث ہو رہی ہے۔ بحث کی وجہ ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ ہے‘ جس میں وزیر اعظم عمران خان کے ایک انٹرویو کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے چند دوست ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرنے کیلئے دبائو کا سامنا ہے۔ دفترِ خارجہ نے تردید کی ہے کہ پاکستان کو کسی قسم کے دبائو کا سامنا ہے یا اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی تجویز زیرِ غور ہے۔ اس کے ساتھ دفترِ خارجہ نے پاکستان کے دیرینہ مؤقف کو دہراتے ہوئے کہاکہ پاکستان اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا‘ جب تک فلسطینیوں کے ''جائز‘‘ مطالبات تسلیم نہیں کر لئے جاتے۔ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے فلسطینیوں کے بارے میں اقوام متحدہ اور او آئی سی کی متعدد قرادادوں اور وزیر اعظم عمران خان کے ایک حالیہ بیان کا حوالہ بھی دیا۔ اس کے باوجود قیاس آرائیاں جاری ہیں اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم تو پاکستان کے پُرانے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں‘ لیکن ''اسٹیبلشمنٹ‘‘ اس طرف مائل ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہئے کیونکہ مشرق وسطیٰ کی جیوپالیٹکس میں دلیرانہ (بے شک غیرمقبول ہی کیوں نہ ہوں) فیصلوں یا اقدامات میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کا بڑا شاندار ریکارڈ ہے۔ 
تازہ ترین مثال 2005 میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں رائے ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ مشرف دور کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اس کوشش کا اپنی کتاب Neither a Hawk nor a Dove میں پس منظر بیان کیا ہے (صفحہ 739-749)۔ اس میں انہوں نے 2005 میں اسرائیل کے نائب وزیرِ خارجہ سلون شالوم (Silvan Shalom) کے ساتھ استنبول میں اپنی ''ڈرامائی‘‘ ملاقات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ قصوری صاحب کے مطابق اس ملاقات کا اہتمام اگرچہ ترکی کی حکومت نے کیا تھا؛ تاہم اس کا فیصلہ پاکستانی قیادت کی اعلیٰ ترین سطح پر کیا گیا تھا۔ اس ''خفیہ‘‘ ملاقات کے بعد دونوں وزرائے خارجہ نے استنبول میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا تھا۔ اگرچہ اس ملاقات کے بعد پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا‘ لیکن وزرائے خارجہ کی سطح پر دونوں ملکوں کے مابین یہ پہلا پبلک رابطہ تھا‘ عالمی میڈیا‘ خصوصاً اسرائیل اور مغربی ذرائع ابلاغ نے جس کو شہ سرخیوں کے ساتھ شائع اور نشر کیا‘ اور جنرل مشرف کی واہ واہ ہونے لگی تھی۔ ستمبر 2005 میں نیویارک میں ورلڈ جیوش کانفرنس کے خصوصی اجلاس سے ان کو خطاب کرنے کیلئے مدعو کیا گیا‘ جہاں حاضرین نے ان کو کھڑے ہو کر داد دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر اسرائیل کے حامی امریکی یہودی اکابرین نے جنرل مشرف سے درخواست کی کہ وہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کیلئے ثالثی کا کردار ادا کریں۔ مشرف نے اس مشن کی تکمیل کے لئے 2006 کے اوائل میں پانچ عرب ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ مصر‘ اردن اور شام کا دورہ کیا تھا‘ لیکن انہیں کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں ملا ۔ ملک کے اندر رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے مشرف حکومت نے میڈیا کو استعمال کیا‘ لیکن جب مذہبی‘ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی تو مشرف نے اس پروجیکٹ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ 
پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال سب سے پہلے 1956 میں سویز بحران کے دوران سامنے آیا تھا‘ جب پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ حمیدالحق چودھری نے دوسری انٹرنیشنل سویز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن جاتے ہوئے بیروت کے ہوائی اڈے پر ایک بیان میں اس کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ کیا تھا‘ مگر ملک میں اس پر اتنا ہنگامہ بپا ہوا کہ انہیں اپنے بیان کی تردید کرنا پڑی۔ 
اکثر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔ یہ دعویٰ جزوی طور پر درست ہے کیونکہ اس موضوع پر جاری کئے گئے سرکاری بیانات کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں بظاہر کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں‘ مگر اس میں لچک اور نرمی ضرور پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا ثبوت ان مختلف اقدامات کی صورت میں موجود ہے‘ جو پاکستان نے عرب ممالک کی مخالفت کے باوجود اپنے قومی مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کئے‘ مثلاً عرب ممالک کی اکثریت اور رائے عامہ کی بھاری تعداد 1950 کی دہائی میں امریکہ میں قائم کئے جانے والے علاقائی دفاعی معاہدوں کے سخت خلاف تھی‘ لیکن پاکستان نے اس کی پروا نہ کرتے ہوئے 1955 میں معاہدہ بغداد‘ جو 1958 کے عراقی انقلاب اور علیحدگی کے بعد سینٹو کہلانے لگا‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ ایوب خان نے اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرزمیں معاہدہ بغداد میں پاکستان کی شمولیت کا سہرا بڑے فخر کے ساتھ اپنے سر سجایا ہے‘ حالانکہ اس وقت پاکستان کے دونوں حصوں میں امریکہ کی سرپرستی میں طے پانے والے دفاعی معاہدوں میں پاکستان کی شدید مخالفت پائی جاتی تھی۔ اس مخالفت کے باوجود‘ اگر 1950 کی دہائی میں قومی مفاد کے نام پر غیرمقبول فیصلہ ہو سکتا ہے تو اب بھی اس سمت میں کوئی قدم بڑھایا جا سکتا ہے‘ جو مکمل سفارتی تعلقات کی شکل میں نہ سہی تجارت یا معیشت کے دیگر شعبوں میں تعاون کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ 
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے مطابق 2005 میں استنبول میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے ان کی ملاقات ایسی پہلی مثال نہ تھی۔ پاکستان اور اسرائیل ایک عرصے سے مختلف ادوار میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے‘ مگر خفیہ طور پر‘ میں رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال سابق سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمتی تحریک کے دوران پاکستانی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی ہے۔ پاکستان کے متعدد اہم حلقے دونوں ملکوں کے درمیان بعض شعبوں مثلاً زراعت‘ واٹر مینجمنٹ اور آبپاشی کے جدید طریقوں کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی میں تعاون کو سود مند قرار دے چکے ہیں۔ 2005 میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں پاکستان کو ان شعبوں میں تعاون کی پیشکش بھی کی تھی۔ اس لئے نچلی سطح پر مگر در پردہ‘ دونوں ملکوں میں اب تک جو روابط چلے آ رہے ہیں‘ ان میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ فارن آفس کے ترجمان کی طرف سے جاری کردہ وضاحتوں کے باوجود پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات اور روابط میں پیش رفت اس لئے ناگزیر ہے کہ پاکستان آج کل ویسے ہی حالات سے دوچار ہے‘ جیسے حالات سے 1950 کی دہائی میں تھے اور جن کی وجہ سے مجبوراً پاکستان کو اپنی ابتدائی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ پالیسی ترک کرکے ''سرد جنگ‘‘ میں امریکہ کا اتحادی بننا پڑا۔ ملک کی معیشت جمود کا شکار ہے‘ بیروزگاری اور افراطِ زر میں اضافہ ہورہا ہے۔ قرضوں کی مع سود ادائیگی نے ترقیاتی عمل معطل کررکھا ہے اور سب سے بڑھ کر ملک کی مشرقی اور مغربی‘ دونوں سرحدوں پر حالات قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی جانب سے ملنے والی جو امداد معطل ہوئی تھی‘ اور فوجی امداد پر جو پابندیاں عائد ہوئی تھیں‘ امید نہیں کہ نئے دور میں وہ بحال ہو جائیں گی۔ فیٹف اور گرے لسٹ کے حوالے سے بھی معیشت کو اضافی دبائو کا سامنا ہے۔ ان مشکل حالات سے نکلنے کا ایک طریقہ امریکہ اور عرب ممالک کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ اس کی ایک صورت اسرائیل کے معاملے پر ان کا ساتھ دینا ہوسکتا ہے؛ تاہم اس سمت میں حکومت کے کسی واضح اقدام کے خلاف سخت عوامی ردعمل کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت کو اس کا علم ہے۔ اسی لئے وزارتِ خارجہ کی جانب سے بار بار یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں