پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دعووں کے برعکس پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے زیر اہتمام گزشتہ تقریباً دو ماہ کے دوران منعقد ہونے والے تمام جلسے نہ صرف حاضری کے اعتبار سے کامیاب رہے بلکہ کئی پہلوئوں سے ایک کے بعد دوسرا ہر جلسہ پی ڈی ایم کیلئے ایک نیا سنگِ میل ثابت ہوا‘ لیکن ملتان میں ہونے والے جلسے نے پی ڈی ایم کی ہیئت اور سمت بدل کر رکھ دی ہے۔ اس کی بڑی وجہ حکومت کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود منتظمین کی جلسہ منعقد کرنے میں کامیابی ہے۔ جلسے سے تین روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر ملک میں کسی قسم کے اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر اپوزیشن نے اس کی کوشش کی تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس بیان کے فوراً بعد ملتان کے ضلعی حکام نے اعلان کیا کہ 30 نومبر کو شہر کے قلعہ قاسم باغ کے سٹیڈیم میں پی ڈی ایم کا کسی قیمت پر جلسہ منعقد نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے انتظامیہ نے تین دن پہلے ہی سٹیڈیم کے دروازوں کو مقفل کر دیا اور پی پی پی کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع کر دی۔ چونکہ اس جلسے کی میزبانی پیپلز پارٹی کر رہی تھی‘ جس نے پی ڈی ایم کے جلسے کے ساتھ اپنا یومِ تاسیس بھی وابستہ کر لیا تھا‘اس لئے گرفتار ہونے والے کارکنوں کی بیشتر تعداد کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں سید یوسف رضا گیلانی کے دو صاحبزادے بھی شامل تھے۔ مگر اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے پیپلز پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا۔ جلسے سے ایک روز قبل جس ہجوم نے قاسم باغ سٹیڈیم کے دروازوں کے تالے توڑ کر جلسہ گاہ پر قبضہ کر لیا تھا ان میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا ساتھ دینے والوں میں جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ (ن) لیگ کے کارکن بھی شامل تھے۔ 29 نومبر کو پولیس نے جلسہ گاہ کو پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے خالی کروا کر سٹیڈیم کے دروازوں کو پھر تالے لگا دیئے اور سٹیڈیم کو جانے والے تمام راستوں پر کنٹینر‘ ٹرالیاں‘ ٹریکٹر اور دوسری رکاوٹیں کھڑی کرکے سٹیڈیم کو سیل کر دیا تھا۔ اس کے جواب میں پی ڈی ایم نے شہر کے چوک گھنٹہ گھر کو جلسہ گاہ بنا لیا۔ پی ڈی ایم کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف ملتان اور اس کے گرد و نواح میں پولیس اور کارکنوں کی آنکھ مچولی نے اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کے کارکنوں کو فیلڈ میں اکٹھے کام کرنے کا جو موقع فراہم کیااس سے پی ڈی ایم کی صفوں میں نہ صرف سیاسی اتحاد مضبوط ہوا ہے‘ بلکہ کارکنوں کو متحد ہو کر سیاسی جدوجہد کرنے کا بیش قیمت تجربہ بھی حاصل ہوا۔
اس سے قبل 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف 9 سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کی صورت میں مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے حکومت اور اس کی مشینری سے ٹکر لینے کا موقع ملا تھا۔ اس دفعہ 9 کے بجائے 11 سیاسی پارٹیاں ہیں اور ان گیارہ پارٹیوں کے اتحاد‘پی ڈی ایم میں پی پی پی اور اے این پی کے ساتھ مذہبی جماعتوں یعنی جمعیت علمائے اسلام (ف)‘جمعیت علمائے پاکستان اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے علاوہ مسلم لیگ (ن) جیسی Centerist پارٹی کے ساتھ پختونخوا ملی عوامی پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور نیشنل پارٹی بلوچستان جیسی قوم پرست جماعتوں کو اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا ہے‘ لیکن سب سے زیادہ دلچسپ اور دور رس سیاسی مضمرات کا حامل سین آصفہ بھٹو زرداری اور مریم نواز کا ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر حاضرینِ جلسہ کے پُرجوش نعروں کا جواب دینے کا منظر ہے۔ مریم نوازن لیگ میں سینئر وائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر فائز ہیں جبکہ آصفہ بھٹو زرداری اپنے بھائی اور پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو کی جلسہ میں نمائندگی کر رہی تھیں۔ ملتان کے جلسہ میں ان کی شرکت اور مختصر تقریر سیاست میں ان کی پہلی انٹری تھی۔ پی پی پی کی طرف سے اعلان کے مطابق آصفہ بھٹو زرداری اب مستقل سیاسی کردار ادا کریں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی دو سیاسی پارٹیوں کی سیکنڈ جنریشن لیڈرشپ کے درمیان تعاون اور مفاہمت کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے۔کارکنوں کی سطح پر پہلے اس عمل کا آغاز پہلے ہی ہو چکا تھا‘ گوجرانوالہ کے جلسے میں پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کیلئے پی پی پی کے جیالوں کو موبلائز کرنے کا ٹاسک پی پی پی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کو دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنا ٹاسک بخوبی پورا کیا اور گوجرانوالہ جلسے میں پی پی پی ورکرز کی تعداد اور جوش وولولے کو دیکھ کر خود پارٹی قیادت بھی حیران رہ گئی تھی‘ حالانکہ گوجرانوالہ کا جلسہ (ن) لیگ کا شو تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں صحیح جمہوریت کے قیام اور بغیر کسی بیرونی مداخلت کے غیر جانبدار‘ صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں اور ان کے ورکرز کی خواہش ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے مل کر جدوجہد کرنے پر تیار ہیں۔
تعاون اور مفاہمت کی اس فضا کیلئے راستہ ہموار کرنے میں دونوں پارٹیوں کی سینئر قیادت کا بھی اہم کردار ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وزیر اعظم اور ان کے حامیوں کی طرف سے سندھ کو اٹھارہویں آئینی ترمیم اور ساتویں نیشنل فنانس کمیشن(این ایف سی) ایوارڈ کی حمایت کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی طرف سے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی مخالفت نے پیپلز پارٹی کے دل میں مسلم لیگ (ن )کیلئے نرم گوشہ پیدا کر دیا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں بنیادی تبدیلیاں لانے کیلئے مقتدر حلقوں کو اگر کہیں سے حمایت حاصل ہو سکتی تھی تو وہ صرف پنجاب تھا‘ لیکن پنجاب کی مقبول پارٹی مسلم لیگ (ن) نے اپنے سابقہ موقف کے برعکس نہ صرف موجودہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی رقوم کی حمایت کی بلکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کسی بھی بنیادی تبدیلی کی سخت مخالفت کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے صوبوں کو حاصل داخلی خود مختاری کی حمایت کی۔ پی پی پی اور( ن) لیگ کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بلاول بھٹو زرداری کا بھی اہم کردار ہے۔
گزشتہ 73 برسوں سے قائم سٹیٹس کو کی حامی قوتوں کے لئے سیاسی پارٹیوں میں صحیح نمائندہ جمہوریت کے قیام پر اتفاق (Concensus) اور اس کے حصول کیلئے مشترکہ جدوجہد سے زیادہ کوئی ڈرائونا خواب نہیں ہو سکتا۔ ملتان کے جلسے میں اس کی ایک جھلک دیکھنے میں آئی ہے۔ موجودہ حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی جدوجہد اگرطوالت پکڑتی ہے تو دونوں پارٹیوں میں اشتراک و تعاون کا زیادہ امکان ہے۔ ماضی کے حوالے سے کچھ لوگوں کو یقینا اس پر تحفظات ہوں گے‘لیکن اس بار صورت حال اس حد تک ماضی سے مختلف ضرور ہے کہ 2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے ذریعے دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش ٹاپ لیڈرشپ کی سطح پر شروع کی گئی تھی جبکہ پی ڈی ایم کے تحت اس عمل کا آغاز ورکرز کی سطح پر اور میدانِ عمل کے ذریعے شروع ہوا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی کے مشہور جرنیل فیلڈ مارشل ارون دومیل کا قول ہے کہ سچ مچ کی ایک دن کی لڑائی میں حاصل ہونے والا تجربہ چھ ماہ کی مشقوں سے کہیں زیادہ کارآمد ہوتا ہے۔