"DRA" (space) message & send to 7575

سارک کی 36ویں سالگرہ

آج سے تقریباً 36 برس قبل بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں جنوبی ایشیا کے سات ممالک پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ نیپال اور سری لنکا کے سربراہانِ مملکت اور سربراہان حکومت اکٹھے ہوئے تھے۔ اس اکٹھ کا مقصد جنوبی ایشیا کے لئے ایک علاقائی تنظیم برائے ترقی کا قیام تھا۔ اس اجلاس میں تنظیم کے جس چارٹر کی منظوری دی گئی‘ اس میں اعلان کیا گیا تھا کہ یہ سات ممالک اپنی کوششوں اور وسائل کو مجتمع کرکے باہمی تعاون کے ذریعے معاشی ترقی خصوصاً تجارت کو فروغ دیں گے تاکہ اس خطے کے عوام غربت‘ پس ماندگی اور جہالت سے نجات حاصل کر سکیں۔ اس تنظیم کا نام ''سارک‘‘ (South Asian Association for Regional Co-operation (SAARC)) رکھا گیا۔ اس کی پہلی سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام سربراہانِ مملکت و حکومت نے باری باری اس چارٹر میں درج اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن اسے کامیاب بنانے کے تمام تر دعووں کے باوجود یہ تنظیم وہیں کھڑی ہے‘ جہاں وہ اپنے قیام کے وقت تھی۔ 
جنوبی ایشیا کے لئے ایک علاقائی تنظیم کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا سہرا بنگلہ دیش کے سابق صدر ضیاالرحمن کو جاتا ہے‘ جنہوں نے 1970 کی دہائی کے آخری برسوں میں خطے کے ملکوں کو ایک تنظیم برائے علاقائی تعاون کے قیام پر راضی کیا تھا۔ امید تھی کہ جس طرح دنیا کے دیگر حصوں میں اس نوع کی تنظیمیں کامیاب ہوئیں‘ مثلاً یورپ میں یورپی یونین اور جنوب مشرقی ایشیا میں آسیان (ASEAN)‘ اسی طرح جنوبی ایشیا میں علاقائی تنظیم کا تجربہ کامیاب رہے گا‘ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ تجربہ توقعات پورا نہیں اتر سکا اور علاقائی تعاون کے سب سے اہم شعبے یعنی تجارت میں اس کی پرفارمنس انتہائی مایوس کن ہے۔ 36 برس گزر جانے کے باوجود سارک میں شامل ملکوں کی بیرونی تجارت کا 95 فیصد حصہ اب بھی خطے سے باہر دور دراز کے ممالک سے ہوتا ہے اور باہمی یعنی انٹرا ریجنل ٹریڈ 5 فیصد سے آگے نہیں بڑھی۔ اس کے مقابلے میں ''آسیان‘‘ ممالک کی کل تجارت کا 25 فیصد حصہ انٹرا رینجل ٹریڈ پر مشتمل ہے۔ یورپی یونین کے لئے شرح 60 فیصد اور مشرق بعید یعنی بحرالکاہل کے ارد گرد واقع ممالک کے درمیان تجارت کا تناسب 35 فیصد ہے۔ دنیا کے تمام خطوں میں علاقائی تعاون کی تنظیمیں موجود اور رکن ممالک کی معاشی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ سارک واحد تنظیم ہے جو ایک باقاعدہ ڈھانچہ اور سیکرٹریٹ ہونے کے باوجود آگے بڑھنے میں ناکام رہی۔ 
اس ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ شکوک و شبہات‘ بد گمانی اور کشیدگی کے جس ماحول میں سارک نے آج سے 36 سال پہلے کام شروع کیا تھا‘ یہ تنظیم اس سے باہر نہیں نکل سکی۔ یہ ماحول پاک بھارت کشیدہ تعلقات کی پیداوار ہے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ تنظیم کے باقی جتنے بھی رکن ممالک ہیں‘ ان سب کی یہ متفقہ رائے ہے کہ دونوں ممالک کے مابین اختلافات کی وجہ سے سارک کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔ 2006 سے سائوتھ ایشیا فری ٹریڈ ایریا (SAFTA) قائم ہے مگر اس کے مطلوبہ مقاصد پورے نہیں ہو سکے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے مابین مسلسل محاذ آرائی اور کشیدگی سے آزاد تجارت کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ گزشتہ چار برسوں سے تنظیم کی سالانہ سربراہی کانفرنس کا سلسلہ بند ہے۔ اس کی وجہ بھی پاک بھارت کشیدگی ہے کیونکہ نومبر 2016 میں اس کی انیسویں سربراہی کانفرنس کے انعقاد سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیر میں اڑی کے مقام پر واقع بھارتی فوج کے کیمپ پر کشمیری مجاہدین کے مبینہ حملے کو بہانہ بنا کر بھارت نے پاکستان میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ بھارت کا ساتھ دیتے ہوئے تنظیم کے دیگر رکن ممالک نے بھی کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا اور یوں گزشتہ چار برسوں سے یہ تنظیم تقریباً غیر فعال ہے۔ 
پاکستان اور بھارت کی باہمی کشیدگی کے علاوہ بھی سارک کے کئی مسائل ہیں‘ جو اس کے قیام کے وقت سے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تنظیم کے بارے میں بھارت کا رویہ ہے۔ عجیب بات ہے کہ آزادی کے بعد ابتدائی برسوں میں بھارت علاقائی تعاون کا پُرجوش حامی تھا‘ مگر جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون برائے ترقی کیلئے ایک تنظیم کے قیام کو بھارت نے خطے کے چھوٹے ممالک کو اپنے خلاف گینگ اپ (Gang Up) ہونے سے تعبیر کیا۔ اسی ڈر اور خوف کے تحت بھارت نے سارک کے چارٹر میں دو دفعات شامل کرنے پر اصرار کیا۔ ایک یہ کہ سارک کے پلیٹ فارم سے متنازعہ اور دو طرفہ تنازعات کو زیر بحث نہیں لایا جائے گا‘ اور دوسری یہ کہ فیصلے اکثریت کے بجائے اتفاق رائے کی بنیاد پر ہوں گے۔ سارک کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے تقریباً تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ تنظیم کو پوری طرح فعال بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ دو دفعات ہیں اور اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ سارک تنظیم اپنے موجودہ سٹرکچر‘ جس میں ایک طرف آبادی‘ رقبہ‘ وسائل‘ معیشت اور طاقت کے لحاظ سے بہت بڑا ملک بھارت ہو‘ اور دوسری طرف محدود وسائل اور کمزور معیشت کے ساتھ خطے کے چھوٹے ممالک ہوں‘ کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے تجویز دی جاتی ہے کہ سارک میں دیگر ہمسایہ ممالک مثلاً چین‘ ایران اور برما کو شامل کرکے اس کا دائرہ وسیع کر دیا جائے۔ اگرا فغانستان کو سارک کا رکن بنایا جا سکتا ہے تو ایران کو باہر رکھنے کا کوئی جواز نہیں‘ کیونکہ افغانستان کی طرح ایران بھی نہ صرف جغرافیائی طور پر جنوبی ایشیا سے جڑا ہوا ہے بلکہ اس کے خطے کے ساتھ قدیم زمانے سے نہایت قریبی تجارتی اور ثقافتی تعلقات بھی چلے آ رہے ہیں۔ جب سارک میں افغانستان کی شمولیت پر بات ہو رہی تھی‘ تو ایران نے بھی شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح میانمار(سابقہ برما) تو برطانوی دور میں متحدہ ہندوستان کا حصہ تھا۔ اسے بھی جنوبی ایشیا کا حصہ قرار دیتے ہوئے سارک میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ چین کا مقدمہ تو ایران اور میانمار سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ جغرافیائی طور پر اس کی سرحدیں آدھے سے زیادہ سارک کے رکن ممالک یعنی بھوٹان‘ نیپال‘ پاکستان‘ افغانستان اور بھارت سے ملتی ہیں۔ معاشی طور پر چین جنوبی ایشیا میں ایک اہم اور فعال رکن کی حیثیت سے موجود ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کی تقریباً 100 بلین ڈالر کی دو طرفہ تجارت کے علاوہ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ نیپال‘ سری لنکا اور مالدیپ کے ساتھ اس کے اہم اقتصادی روابط ہیں۔ ان ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے جاری سی پیک نے چین اور جنوبی ایشیا کو اور بھی ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت چین کے ہمراہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہو سکتے ہیں تو چین سارک میں کیوں شامل نہیں ہو سکتا؟ یاد رہے کہ چین پہلے ہی سارک میں 9 میں سے ایک آبزرور ملک کا درجہ رکھتا ہے۔ ایران‘ میانمار اور خصوصاً چین کی شمولیت سے سارک کو درپیش بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس سے سارک ایک متوازن اور معاشی طور پر زیادہ فعال تنظیم کی حیثیت اختیار کر جائے گی۔ تنظیم میں چین کی موجودگی سے چھوٹے رکن ممالک کو بھارت سے متعلق جو خدشات ہیں‘ وہ دور کرنے میں مدد ملے گی اور بھارت بھی مشرق میں آسیان یا انڈوپیسیفک خطوں کی طرف بھاگنے کے بجائے جنوبی ایشیا پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے پر مجبور ہو جائے گا کیونکہ اس کی بڑی کنزیومر مارکیٹ‘ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2021 میں اس کا حجم 103.70 بلین ڈالر ہو جائے گا‘ کی وجہ سے بہت سے ممالک خطے میں سرمایہ کاری اور اس کے ساتھ تجارت کرنے کی طرف راغب ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں