قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 12 ستمبر سے جاری بین الافغان مذاکرات ایک دفعہ پھر نازک دوراہے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک طرف گزشتہ ماہ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور افغان طالبان کے مابین آئندہ ہونے والے مذاکرات کے لئے اصول و قواعد پر سمجھوتہ ہونے سے امید بندھی تھی کہ امن اور مفاہمت کے عمل میں مزید پیش قدمی ہو گی اور حالات بہت ہو جائیں گے‘ لیکن دوسری طرف ملک میں تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا۔ تشدد کے ان واقعات میں افغان نیشنل آرمی کی چیک پوسٹوں پر حملے اور شہری علاقوں میں کار بم بلاسٹ اور خود کُش حملے بھی شامل ہیں۔ اس طرح تشدد کی اس لہر میں افغان سکیورٹی فورسز کے اراکین کے علاوہ معصوم شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو چکی ہے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت افغان طالبان کو ان حملوں کی ذمہ دار گردانتی ہے جبکہ طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ پر جنگ کے شعلے تیز کرنے کا الزام لگاتے ہیں‘ کیونکہ قندھار کے علاوہ دیگر کئی علاقوں میں امریکی طیاروں نے افغان فورسز کی مدد کرتے ہوئے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔ تشدد کی بڑھتی ہوئی اس لہر کی وجہ سے فریقین آئندہ 20 روز کیلئے مذاکرات کا سلسلہ معطل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ طالبان‘ افغان مسئلے کا حل مذاکرات کی میز کے بجائے میدانِ جنگ میں تلاش کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ بار بار کی اپیل کے باوجود افغان طالبان نہ تو جنگ بندی اور نہ ہی سرکاری فوجوں اور شہری ٹھکانوں پر اپنے حملے محدود کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال سے نہ صرف افغان حکومت کو تشویش لاحق ہے بلکہ امریکہ‘ پاکستان اور افغانستان میں امن کے خواہاں ہمسایہ ممالک بھی فکرمند ہیں۔ بڑھتے ہوئے پُرتشدد واقعات سے امریکہ اور افغان طالبان کے مابین 29 فروری کو طے پانے والا سمجھوتہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے؛ چنانچہ افغان امن اور مفاہمت کے اس عمل کو تازہ ترین خطرے سے نکالنے کیلئے سفارتی سرگرمیوں نے بھی تیزی پکڑ لی ہے۔
دوحہ میں مقیم افغان طالبان کا ایک وفد ملا عبدالغنی برادر کی سرکردگی میں پاکستان کا دورہ کر چکا ہے۔ اس دورے کے دوران طالبان کے وفد نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ عسکری حکام سے بھی بات چیت کی۔ خیال ہے کہ افغان طالبان کے وفد نے اپنی اعلیٰ قیادت سے بھی ملاقات کی‘ جس کا مقصد افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد سے پیدا ہونے والی تشویشناک صورتحال پر بات کرنا اور بین الافغان مذاکرات کے سلسلے کے دوبارہ شروع ہونے کی صورت میں گائیڈ لائن لینا تھا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق بین الافغان مذاکرات میں مصروف طالبان کی مذاکراتی ٹیم بھی افغانستان میں تشدد اور جنگ میں اضافے پر پریشان ہے کیونکہ انہیں نہ صرف امریکہ اور افغانستان بلکہ ڈائیلاگ میں حصہ لینے والے افغان سول سوسائٹی کے دیگر گروپوں کی طرف سے بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق دوحہ میں مقیم افغان طالبان رہنما اپنی قیادت کے نوٹس میں لائیں گے کہ طالبان کے فیلڈ کمانڈروں نے اپنے طور پر سرکاری فوجوں پر حملے کئے ہیں۔ وہ اپنی اعلیٰ قیادت کو افغانستان میں جنگ اور تشدد کم کرنے کیلئے فیلڈ میں اپنے کمانڈروں کو اپنے حملے محدود کرنے کی درخواست کریں گے تاکہ مذاکرات کا عمل آگے بڑھ سکے۔ دوحہ میں مقیم افغان طالبان کے وفد نے پاکستان کی وزارت خارجہ کی دعوت پر دورہ کیا اور اہم بات یہ ہے کہ افغان حکومت نے ماضی کے برعکس اس دفعہ طالبان کے پاکستانی دورے کی حمایت کی بلکہ یہ کہا کہ اس دورے سے قبل پاکستان کی حکومت نے افغان حکومت کو اعتماد میں لیا تھا اور افغان طالبان صدر اشرف غنی کی مرضی سے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ جس دن افغان طالبان کا وفد ملا برادر کی سربراہی میں پاکستان پہنچا تھا‘ اس سے ایک روز قبل افغانستان کیلئے امریکہ کے سفیر زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل آسٹن ملر کے ہمراہ اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران زلمے خلیل زاد اور جنرل ملر نے جی ایچ کیو میں پاکستان کے سپہ سالار سے ملاقات کی تھی۔ ان کے ٹویٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں جنگ تیز ہونے اور انٹرا افغان ڈائیلاگ میں پیش رفت نہ ہونے پر سخت تشویش ہے۔ امریکہ کو موجودہ صورتحال پر کتنی تشویش ہے‘ اس کا اندازہ اس اطلاع سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارک اے ملی نے ملا عبدالغنی برادر کی سرکردگی میں افغان طالبان کے وفد کی پاکستان کیلئے روانگی سے ایک روز قبل دوحہ کا دورہ کیا اور وہاں مقیم افغان رہنمائوں سے ملاقات کی تھی۔ دوحہ میں افغان طالبان رہنمائوں سے ملاقات اور بات چیت کے بعد جنرل ملی نے کابل کا دورہ کیا اور افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ موجودہ صورتحال اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کے معاملات پر صلاح مشورہ کیا تھا۔
اس ساری صورتحال میں پاکستان ایک دفعہ پھر افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے سفارتی سرگرمیوں کا اہم مرکز بن گیا ہے۔ دوحہ سے افغان طالبان کے وفد کی پاکستان آمد سے ایک روز قبل اسلام آباد میں جنرل ملر کے ہمراہ زلمے خلیل زاد کی آمد اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتوں اور افغان حکومت کی طرف سے پاکستان میں طالبان کے وفد کی آمد کی حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور افغانستان چاہتے ہیں کہ جس طرح پاکستان نے طالبان کو انٹرا افغان ڈائیلاگ پر آمادہ کیا تھا‘ اسی طرح مذاکرات کو ان کے منطقی نتیجے یعنی قیام امن تک پہنچانے کیلئے بھی پاکستان ہی طالبان سے جنگ بندی کرائے یا کم از کم جنگ بندی کا رسمی طور پر اعلان کئے بغیر جنگ روکنے پر راضی کرے۔
افغان طالبان کے وفد سے ملاقات کے دوران پاکستانی قیادت نے جو بیانات دیئے‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان بھی جنگ کی شدت میں کمی اور اس کے بعد مکمل جنگ بندی کا حامی ہے‘ مگر وزیر خارجہ پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ جنگ میں تیزی کی ذمہ داری صرف طالبان پر نہیں ڈالی جا سکتی اور اگر بغیر کسی تاخیر کے افغانستان میں امن کا قیام مقصود ہے تو اس کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ سفارتی سرگرمیوں کے نتیجے میں اگر دوحہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ یعنی شیڈول کے مطابق 5 جنوری کو شروع ہوتا ہے تو فریقین کے مابین اتفاق کا حصول اتنا آسان نہیں ہو گا؛ البتہ طالبان کی اعلیٰ قیادت کے آرڈر کے تحت طالبان کے فیلڈ کمانڈر حملوں میں کمی لا سکتے ہیں‘ لیکن فوری جنگ بندی کا ابھی کوئی امکان نہیں کیونکہ افغان طالبان کابل کی موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور انہیں یقین ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے ہی کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کے راستے میں امریکہ واحد رکاوٹ ہے جس کی افغانستان میں مقیم فوج اور فضائیہ جنگ میں سرکاری فوجوں کی مدد کرتی ہے۔ دراصل افغان طالبان کا موقف یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ جنگ ہار چکا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے امریکہ کو چاہئے کہ وہ افغانستان سے نہ صرف اپنی فوجوں کو نکال لے بلکہ افغان سرکاری فوجوں کی مدد بھی ختم کر دے‘ مگر نہ تو امریکہ افغان سکیورٹی فورسز کی فضائی مدد روکنے پر تیار ہے اور نہ ہی افغانستان سے مکمل فوجی انخلا پر راضی ہے۔ دوسری طرف کابل کی حکومت‘ جسے بین الاقوامی برادری افغانستان کی جائز حکومت تسلیم کرتی ہے‘ طالبان کے حملوں کا بدستور مقابلہ کر رہی ہے۔ اس لئے جب تک طالبان پر یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام جنگ تیز کرنے سے نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر 'کچھ لو اور کچھ دو‘ کی پالیسی کے تحت سمجھوتے سے ممکن ہو گا‘ افغانستان میں جنگ اور خونریزی جاری رہنے کا اندیشہ باقی رہے گا۔