ہمالیہ کی گود میں چین اور بھارت کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک نیپال ایک دفعہ پھر سیاسی بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ بحران ملک کی صدر بدیا دیوی بھنڈاری کی طرف سے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ نیپال کی صدر نے یہ اقدام وزیراعظم کے پی شرما اولی (Khadga Prasad Sharma Oli) کی تجویز پر کیا ہے‘ جن کے پانچ سالہ عہدے کی مدت کے ابھی دو سال باقی تھے۔ اس لئے پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے صدر سے پارلیمنٹ کو مقررہ مدت سے دو سال قبل توڑنے کی سفارش کیوں کی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے نیپال کی سیاست اور جنوبی ایشیا میں اس کا مقام سمجھنا ہو گا،اس سے موجودہ بحران کو بھی سمجھنے میں مدد ملے گی۔
نیپال بھارت کے بعد دنیا کا دوسرا ہندو اکثریت (85 فیصد) والا ملک ہے۔ بھارت اور نیپال کے مابین صرف مذہبی رشتے ہی نہیں بلکہ دونوں ملک زبان‘ ثقافت‘ معیشت اور تجارت یعنی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ نیپال میں اس وقت پارلیمانی‘ وفاقی اور سیکولر جمہوری نظام رائج ہے۔ بادشاہت کے دور میں یعنی 2008ء سے پہلے نیپال سرکاری طور پر ایک ہندو ریاست تھا‘ لیکن بھارت کے مقابلے میں یہاں مذہبی امن اور رواداری زیادہ تھی اور اب بھی ہے۔ بی جے پی نے یہاں ہندو مسلم فساد کروا کے ماحول کو مکدر کرنے کی بڑی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکی۔ نیپال دنیا کا واحد ملک ہے‘ جہاں جمہوری اصولوں اور طریقۂ حکومت پر مبنی کثیر جماعتی نظام ہے اور حکومت کمیونسٹ پارٹی کی ہے۔2017ء کے انتخابات میں نیپال کی 275 اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ میں کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی‘ اس لئے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یونیفائیڈ مارکسسٹ‘ لیننسٹ‘CPN (UML) اور نیپالی کمیونسٹ پارٹی (مائو پرست) نے مخلوط حکومت قائم کی۔ اس حکومت کے سربراہ کے پی شرما تھے‘ جو اگلے سال اپریل اور مئی میں نئے انتخابات میں تیسری دفعہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی کوشش کریں گے۔ مسٹر اولی پرانے نیکسلائٹ (Naxalite) ہیں اور 1960ء کی دہائی میں سابق شاہ مہندرا کے استبدادی نظام کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں انہیں طویل عرصے تک قید و بند کی صعوبتیں بھی سہنا پڑیں۔ بدیا دیوی بھنڈاری‘ نیپال کی پہلی خاتون صدر ہیں اور وزیراعظم اولی کی CPN (UML) کی پُرانی کارکن اور چیئرپرسن رہ چکی ہیں۔ نیپال چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے۔ اس کی سرحدیں بھارت‘ بھوٹان‘ چین اور چین کے علاقے تبت سے ملتی ہیں‘ لیکن بیرونی دنیا سے تجارتی روابط اور آمدورفت کیلئے واحد راستہ اس کے علاقے وادیٔ ترائی کیساتھ ساتھ بھارت سے ملنے والی لمبی سرحد ہے۔ چین کے ساتھ بھی نیپال کے تجارتی تعلقات ہیں‘ لیکن درمیان میں ہمالیہ کے بلند پہاڑی سلسلے ہونے کی وجہ سے یہ تجارت محددو ہے۔ نیپال نہ صرف اپنی بیرونی تجارت کیلئے بھارت کا محتاج ہے بلکہ آمد و رفت آسان ہونے کی وجہ سے نیپال بیشتر اشیائے ضروریات مثلاً آٹا‘ گھی‘ پٹرول‘ ادویات‘ دودھ‘ وغیرہ بھارت سے منگواتا ہے۔
انگریزوں کے زمانے سے ہندوستان کی فوج میں نیپالی گورکھا بھرتی ہوتے آئے ہیں۔ اس وقت بھی بھارت کی فوج میں ایک گورکھا رجمنٹ موجود ہے۔ نیپال کی بیورو کریسی اور کالج و یونیورسٹیوں کے بیشتر اساتذہ بھارت کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ بھارت کے برعکس نیپال کبھی برطانیہ کی کالونی نہیں رہا؛ تاہم برطانیہ کو نیپال کے خارجہ تعلقات پر مکمل کنٹرول تھا۔ انگریز شمال سے چین کے خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے نیپال کو ایک بفر سٹیٹ کے طور پر قائم رکھنا چاہتے تھے۔ نہ صرف مذہب اور ثقافت بلکہ سیاست اور سکیورٹی کے شعبوں میں بھی بھارت اور نیپال کے مابین گہرے روابط ہیں۔ نیپال کے سیاست دان بلکہ سیاسی پارٹیوں نے بھی بھارت میں پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے انسپائریشن حاصل کی ہے۔ ان میں نیپال کی سب سے پُرانی جماعت نیپال کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی بھی شامل ہیں۔1951ء میں رانا خاندان کے موروثی راج کے خلاف نیپال کی عوامی بغاوت میں بھارت براہِ راست اور اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ اس بغاوت کی کامیابی کے بعد نیپال میں پارلیمانی جمہوریت کا جو نظام قائم کیا گیا‘ وہ بھی بھارت کی تقلید میں کیا جانے والا اقدام تھا‘ حتیٰ کہ 2008ء میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد نیپال میں جو وفاقی نظام قائم کیا گیا‘ اس کے خدوخال اور ڈھانچے کو قائم کرنے کے لئے بھارت کے تجربے کو سامنے رکھا گیا۔ 1960ء کی دہائی میں جب سابق شاہ مہندرا نے ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی بساط لپیٹ کر پنچایت (ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کے نظام کی طرز پر) نظام قائم کیا اور نیپال میں سیاسی پارٹیوں کو کالعدم قرار دے کر سیاسی کارکنوں کو جیل میں ڈالنا شروع کیا تو نیپال کے سیاسی رہنمائوں نے بھاگ کو بھارت میں پناہ لی تھی۔ اتنی قربتوں‘ روابط اور مماثلتوں کے باوجود نیپال کے اگر تمام ہمسایہ ممالک میں سے کسی کے ساتھ سب سے زیادہ کشیدہ تعلقات ہیں تو وہ بھارت ہی ہے۔ اس کی وجوہات بڑی گہری اور پیچیدہ ہیں‘ لیکن ان میں سب سے نمایاں کچھ عرصہ سے چین اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت ہے۔
بھارت نیپال کو اپنا حلقۂ اثر سمجھتا ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ نیپال میں جو بھی حکومت برسرِ اقتدار آئے اس کا جھکائو چین کی نسبت بھارت کی طرف ہو۔ اس کو یقینی بنانے کے لئے بھارت نے ہمیشہ نیپال کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ نیپال کے عوام اسے اپنی آزادی اور خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے اور روزمرہ کی ضروری اشیا کی ترسیل کے لئے نیپال کو بھارت پر جو انحصار کرنا پڑتا ہے‘ بھارت اسے کمزوری سمجھ کر نیپال کی اندرونی اور بیرونی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لئے اسے استعمال کرتا ہے۔ 2015ء میں بھارت نے نیپال کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کر کے ایسا ہی اقدام کیا تھا۔ اس کی وجہ سے نیپال کے عوام بھارت سے سخت برگشتہ ہیں اور جو سیاسی پارٹی یا سیاسی رہنما ملک کے اندرونی معاملات میں بھارت کی مداخلت کے خلاف مزاحمت کرتا ہے‘ وہ پارٹی اور سیاستدان عوام میں سب سے زیادہ ہردلعزیز ہو جاتا ہے۔ نیپال کے سبکدوش ہونے والے وزیراعظم کے پی شرما اولی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ انہوں نے 2015ء میں بھارتی ناکہ بندی کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ ان کی حکومت بیرونی دنیا کے ساتھ روابط اور تجارت کیلئے بھارت پر نیپال کے انحصار کو کم کرنے کیلئے چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری لا رہی تھی۔ اس لئے اگرچہ موجودہ سیاسی بحران کی فوری وجہ وزیراعظم اولی کی پارٹی اور حکومت میں ان کے خلاف بعض ارکان کی بغاوت اور استعفوں کو قرار دیا جا رہا ہے‘ لیکن نیپال کے جیو سٹریٹیجک محلِ وقوع کی روشنی میں بیرونی مداخلت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت کی بی جے پی حکومت‘ وزیراعظم اولی کی حکومت کے سخت خلاف تھی اس لئے بعض مبصرین کی رائے ہے کہ نیپال کے موجودہ بحران میں بھارت کا ہاتھ ہو سکتا ہے اور اس نے نیپال میں اپنے ہمنوا سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر یہ صورتحال پیدا کی ہے تاکہ کے پی شرما اولی کی جگہ ایسا لیڈر برسرِ اقتدار آئے جو نیپال میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھ کر خطے میں بھارت کے مفادات کا تحفظ کرے۔