"DRA" (space) message & send to 7575

سالِ گزشتہ اور پاکستان

2020 کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا تھا کہ یہ ''خوشحالی کا سال ہو گا‘‘۔ وزیراعظم کا یہ دعویٰ بے بنیاد یا بلا جواز نہیں تھا‘ کیونکہ ایک سال قبل یعنی 2019کے آغاز میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین 6 بلین ڈالر کے پیکیج پر سمجھوتہ ہونے سے قومی معیشت میں بہتری کے کچھ آثار نمایاں ہونے شروع ہو گئے تھے‘ اور امید تھی کہ یہ رجحان جاری رہے گا‘ لیکن فروری میں کورونا وائرس کی وبا کے حملے نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی افزائش کے تخمینے پر نظر ثانی کرکے 2019-20 کا ہدف 3.2 فیصد سے کم کر کے 2.6 فیصد مقرر کرنا پڑا۔ اگست 2008 میں جب عمران خان نے بطور وزیر اعظم اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت جی ڈی پی میں افزائش کی شرح 5.8 فیصد سالانہ تھی‘ لیکن رواں مالی سال (2020-21)کے آغاز یعنی جولائی 2020 میں شرح نمو 0.98 فیصد رہ گئی تھی۔ معاشیات کے ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان کی معیشت کی حالت دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ مہنگائی اور افراطِ زر نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ وہ پارٹی‘ جس کے لیڈرنے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک کروڑ افراد کو روزگار اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دیں گے‘ اس کی حکومت کے پہلے دو ڈھائی برسوں میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم خود کہہ چکے ہیں کہ وہ قومی آمدنی اور حکومت کے اخراجات میں بڑھتے ہوئے عدم توازن سے پریشان ہیں۔ برآمدات میں اضافے کی رفتار انتہائی سست ہے جبکہ صنعت و تجارت اور مینوفیکچرنگ کے سیکٹر ز میں کساد بازاری جاری ہے۔ یہاں تک کہ سروسز (Services) سیکٹر‘ جسے مجموعی قومی آمدنی کی نمو میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل تھی‘ بھی کورونا وائرس کی وبا کے باعث رو بہ زوال ہے۔ ملک میں آبادی کا ایک تہائی حصہ پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا‘ کورونا وائرس کی وجہ سے مزید لوگ غربت کا شکار ہو گئے ہیں۔ معاشیات کے ایک مشہور ماہر کی رائے میں کورونا وبا کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو 15 بلین ڈالر کے نقصان کا خدشہ ہے‘ اور رواں مالی سال (2020-21) کی آخری چوتھائی تک پاکستان کے جی ڈی پی میں مزید 10 فیصد کمی آنے کا خدشہ ہے۔ 
پاکستان میں بے روزگاری کی شرح پہلے ہی غیر معمولی ہے اور رواں مالی سال کے اختتام تک ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد 6.65 ملین ہو جائے گی‘ جبکہ سابقہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے۔ افراطِ زر میں اضافے پر بھی قابو نہیں پایا جا سکا۔ انتہا یہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود سب سے اہم زرعی پیداوار یعنی گندم اور چینی کا بحران لوگوں کے مالی معاملات کو بری طرح متاثر کو رہا ہے۔ افراطِ زر میں اضافے کا یہ عالم ہے کہ جاری مالی سال کے آغاز میں اس کی شرح 14.6 فیصد تھی‘ جو گزشتہ بارہ سال میں سب سے بلند شرح گردانی جاتی ہے۔ باقی دنیا کی طرح پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کی تباہ کاریاں صرف معیشت کے مختلف سیکٹرز یعنی صنعت‘ زراعت‘ تجارت (بیرونی اور اندرونی‘ دونوں) روزگار‘ مہنگائی اور غربت میں اضافے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی تباہ کاریوں سے زندگی کے دیگر شعبے یعنی تعلیم‘ صحت‘ سیاحت اور سماجی میل جول بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کی وجہ سے ملک میں سالِ رواں (مالی)کے دوران تمام تعلیمی ادارے زیادہ تر بند رہے ہیں۔ طلبہ کو تعلیمی نقصان سے بچانے کے لئے آن لائن طریقہ تعلیم اختیار کرنا پڑا‘ مگر ملک میں انٹرنیٹ کی سہولت محدود ہونے کی وجہ سے بہت کم طلبہ اس طریقے سے مستفید ہو سکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جنوری 2020 میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد کل آبادی کا 35فیصد تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ کیونکہ 2017 میں یہ شرح 15.5 فیصد تھی‘ مگر پُرانے اور نئے انٹرنیٹ یوزرز کی زیادہ تر تعداد شہری علاقوں تک محدود ہے۔ اس کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی بہت کم تعداد اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے‘ اور ملک کے دور دراز صحرائی ‘ پہاڑی اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی بہت کم تعداد کو اس سہولت تک رسائی حاصل ہے۔ اس لحاظ سے وہ طلبا‘ جن کا تعلق پاکستان کے دور دراز اور پس ماندہ علاقوں سے ہے‘ کورونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آن لائن طریقہ تعلیم روایتی طریقہ تعلیم کے مقابلے میں کامیاب نہیں رہا ہے۔ اعلیٰ حکام اور ادارے مثلاً ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اس کو تسلی بخش قرار نہیں دیا۔ موسم گرما میں کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتوں میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دے دی تھی‘ بشرطیکہ کورونا وائرس سے بچائو کے لئے تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں‘ جن میں ماسک پہننااور سماجی فاصلہ رکھنا اولین حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر نومبر میں کورونا کی دوسری لہر کی آمد اور نئے کیسز میں اچانک اضافے کے باعث حکومت کو نہ صرف تعلیمی اداروں کو دی جانے والی رعایت واپس لینا پڑی بلکہ بعض شہروں میں جزوی طور پر اور جہاں ضرورت پڑی‘ پورا لاک ڈائون لگانا پڑا۔ کورونا کی دوسری لہر اور اس کے نتیجے میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ جاری ہے اور اغلب امکان یہ ہے کہ یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا کیونکہ حکومت اس بارے میں بہت کچھ نہیں کر سکی۔ دنیا کے دیگر ممالک میں کورونا کی روک تھام کی ویکسین کا استعمال شروع ہو چکا ہے‘ یا اس سلسلے میں انتظامات کئے جا رہے ہیں‘ لیکن پاکستان میں ایسے اقدامات کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا‘ حالانکہ طبی ماہرین بار بار کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو اس معاملے میں دیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ تاخیر خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ مگر حکومت کی پہلے بھی اس سمت میں کوئی حرکت نہیں دکھائی دے رہی تھی جبکہ اکتوبر سے 11 اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی طرف سے احتجاجی تحریک کے آغاز نے حکومت کی توجہ اور وسائل کا رخ کورونا وائرس کی وبا سے ہٹ کر اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے کی طرف موڑ دیا۔ اب عوام ہوں‘ سیاسی پارٹیاں (اپوزیشن) ہوں یا حکومت‘ سب کے لئے پہلی ترجیح کورونا وائرس سے بچنا یا اس کے خلاف جنگ کرنا نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے حکومت اور حکومت سے باہر متعلقہ حلقوں کی طرف سے پُر زور اپیلوں کے باوجود‘ احتجاجی جلسے ملتوی نہیں کئے‘ اور ان جلسوں میں عوام کی جوق در جوق شرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک کورونا سے بچائو کی نسبت جلسوں میں شرکت کرنا زیادہ ضروری ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے ‘ کورونا وائرس کی وبا سے وہ پہلے بھی کچھ زیادہ فکر مند نہیں تھی‘ اب پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک جو وزیر اعظم کے استعفے سے کم کسی چیز پر راضی نہیں‘ کی وجہ سے وزیر اعظم کو اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں پی ڈی ایم کی جانب سے پیش کردہ چیلنج کا مقابلہ کرنے پر صرف کرنا پڑ رہی ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم اور ان کے وزیر‘ مشیر اور معاونین خصوصی کا دعویٰ ہے کہ ''پی ڈی ایم کا غیر فطری گٹھ جوڑ اپنی طبعی موت مر چکا ہے‘‘ اس کے باوجود وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو یا تحریکِ انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں کا اجتماع یا پارٹی ترجمانوں کا اکٹھ ‘ ایجنڈے پہ ایک ہی آئٹم ہوتی ہے‘ یہ کہ پی ڈی ایم کو کیسے ناکام بنایا جائے۔ (جاری) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں