حکومت میں شامل رفقا کو وزیراعظم کی خاص ہدایت ہے کہ پی ڈی ایم (دراصل نواز شریف) کے بیانیے کے توڑ کے لئے حکومتی بیانیہ تشکیل دیا جائے اور اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پی ڈی ایم سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اس کے تمام جلسے ناکام رہے ہیں‘ اس میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور یہ اپنی موت آپ مر چکی ہے تو وزیروں‘ مشیروں‘ معاونین خصوصی اور ترجمانوں کے ہفتے میں کئی بار اجلاس کیوں بلانا پڑتے ہیں؟ اور انہیں یہ کیوں کہنا پڑتا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دو۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو امید نہ تھی کہ مختلف نظریات کی حامل اپوزیشن کی پارٹیاں متحد ہو کر حکومت مخالف تحریک شروع کر دیں گی۔ 20 ستمبر سے قبل اپوزیشن کی سیاست کی جو کیفیت تھی‘ اس کی بنا پر حکومت کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ صرف مولانا فضل الرحمن ایسی تحریک کے حق میں بیان دے رہے تھے اور اس مقصد کے لئے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد چاہتے تھے‘ مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے اس معاملے میں کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا جا رہا تھا۔ اگست کے آخر تک اس بات کا کوئی امکان نہ تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مل کر ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کریں گی‘ حالانکہ 20 جولائی کو لاہور میں مذکورہ دونوں پارٹیوں نے ایک اجلاس میں ایک مشترکہ اپوزیشن رابطہ کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ جس کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ عیدالاضحی کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد اور اس کانفرنس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دینے کے لئے کام کرے گی‘ مگر اس قسم کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ میاں برادران مصالحت کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے بالواسطہ رابطے میں ہیں؛ تاہم 27 جولائی کو لاہور میں مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کے مابین ملاقات ہوئی‘ جس میں دونوں رہنما اس نتیجے پر پہنچے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت سے عوام کو نجات دلانا وقت کی اہم ضرورت ہے‘ اور اس مقصد کے حصول کے لئے حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں عیدالاضحی کے بعد ایک کثیر جماعتی کانفرنس بلائی جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے بھی عید سے دو روز قبل لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کی اور کہا کہ ہم نون لیگ کے ساتھ مل کر پاکستان کے عوام کے لئے کھڑے ہوں گے‘ مگر عید کے بعد بھی اے پی سی کے مسئلے پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایک پیج پر نہ آ سکیں اور آل پارٹیز کانفرنس مزید تاخیر کا شکار ہو گئی؛ تاہم نواز شریف کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کی کوششوں کی حمایت اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ لگاتار رابطوں کے نتیجے میں اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں 20 ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔
اس اجلاس میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا‘ اور اس مقصد کے لئے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا جس کا نام ''پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ‘‘ رکھا گیا۔ اس موومنٹ کے مقاصد میں وزیر اعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا بھی شامل تھا۔ اجلاس میں تحریک کے پہلے مرحلے کے طور پر احتجاجی جلسوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ یہ جلسے پی ڈی ایم نے گوجرانوالہ‘ کراچی‘ کوئٹہ‘ پشاور‘ ملتان اور لاہور میں منعقد کئے۔ لاہور کا جلسہ 13 دسمبر کو ہوا تھا‘ اور اس کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کے احتجاج کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہو گیا تھا۔ پی ڈی ایم کے اعلان کے مطابق احتجاج کا دوسرا مرحلہ فروری میں شروع کیا جائے گا‘ جس میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور اسلام آباد کے لئے لانگ مارچ کے آپشن شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے اب تک پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کے بارے میں جو ردِ عمل آیا ہے‘ اس کے مطابق حکمران پوری طرح پُراعتماد ہیں کہ احتجاجی جلسوں کے اس سلسلے سے انہیں کوئی خطرہ نہیں‘ کیونکہ پی ڈی ایم کو‘ حکومت کے دعووں کے مطابق‘ عوامی تائید حاصل نہیں‘ اور حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 'اداروں‘ کی اسے مکمل تائید حاصل ہے‘ اس لئے پی ڈی ایم‘ جس کا حکومت کی نظر میں واحد مقصد این آر او یعنی نیب سے اپنے خلاف مقدمات ختم کروانا ہے‘ حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ وزیر اعظم تو یہ تک کہہ چکے ہیں اگر اپوزیشن ارکان اپنی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہوتے ہیں تو وہ خالی سیٹوں پر ضمنی انتخابات کروائیں گے‘ لیکن میرا تجزیہ یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں پی ڈی ایم کے جلسوں سے حکومت پریشان ہے اور پی ڈی ایم کے اس فیصلے کے بعد کہ وہ اپنا احتجاج وزیر اعظم کے استعفے تک جاری رکھیں گے‘حکومت کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے‘ کیونکہ اپوزیشن اگر وزیر اعظم کا استعفا حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو‘ تب بھی ملک میں غیر یقینی اور سیاسی عدم استحکام کی فضا برقرار رکھنے کی اہلیت کی واضح طور پر حامل ہے۔ پی ڈی ایم کے ترکش میں حکومت پر چلانے والا سب سے زہریلا تیر مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وہ تقریر ہے‘ جو انہوں نے اے پی سی کے اجلاس میں کی تھی۔
پس تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کورونا وائرس کی وبا اور پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک 2020 میں وزیر اعظم کے لئے تین بڑے چیلنج رہے اور توقع ہے کہ اس نئے سال میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ 2020 کے دوران حکومت کو خارجہ تعلقات کے حوالے سے بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات‘ افغانستان کی غیر یقینی صورتحال‘ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں جمود اور مشرق وسطیٰ کے روایتی دوست ممالک یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ اور داخلی خود مختاری پر مبنی گزشتہ 73 برسوں کی حیثیت کو ختم کرنے کا جو اقدام کیا تھا‘ اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں خرابی پیدا ہوئی۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔ گزشتہ سال کے آغاز میں یعنی 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے مابین افغانستان میں جنگ بندی کے معاہدے نے وہاں امن کے قیام کی امید پیدا کردی تھی۔ پاکستان نے اس میں جو مثبت کردار ادا کیا تھا‘ بین الاقوامی طور پر اس کی ستائش کی جا رہی ہے‘ مگر گیارہ ماہ گزر جانے کے بعد بھی افغانستان میں نہ صرف امن قائم نہیں ہوا بلکہ جنگ کے شعلے پہلے سے زیادہ تیز ہوچکے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال کے آغاز میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے ملٹری ایجوکیشن اور ٹریننگ پروگرام کی بحالی سے امید پیدا ہوئی تھی کہ پاک امریکہ تعلقات دیگر شعبوں میں بھی بڑھیں گے‘ لیکن یہ امید بھی بر نہ آئی۔ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری پاکستان کیلئے محض معاشی شعبے میں ہی ایک بڑا دھچکہ نہیں بلکہ سٹریٹیجک نقطہ نگاہ سے بھی تشویش ناک ہے‘ کیونکہ بھارت نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر خلیج فارس کے خطے میں اپنے قدم اور بھی مضبوطی سے جما لئے ہیں۔ موجودہ حکومت البتہ ایک محاذ پر اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا دعویٰ کر سکتی ہے اور وہ روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہے‘ جن میں دفاعی تعلقات بھی شامل ہیں۔ چین پاکستان کا روایتی اورقابلِ اعتماد دوست ہے‘ جس نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال میں بھی چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی ہے۔ بیشتر مبصرین کی رائے میں خارجہ تعلقات کے محاذ پر موجودہ حکومت کی کسی قابلِ ذکر کامیابی کے حصول میں ناکامی کی وجہ معیشت کی خراب صورتحال اور حکومت کی طرف سے احتساب کے نام پر اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں کے خلاف کارروائی پر ضرورت سے زیادہ توجہ اور وسائل کا استعمال ہے۔( ختم)