تقریباً تین ہفتے کے وقفے کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین ملک میں گزشتہ 19 برس سے جاری جنگ کو ختم کرنے اور مستقل امن کے قیام کے لئے بات چیت کا سلسلہ ایک دفعہ پھر شروع ہو گیا ہے۔ مذاکرات کا آغاز ستمبر میں ہوا تھا اور کئی اجلاس ہونے کے باوجود اب تک فریقین بات چیت کیلئے درکار صرف قواعدوضوابط پر ہی متفق ہو سکے ہیں‘ اس لئے مذاکرات کے موجودہ دور کے بارے میں بھی مبصرین زیادہ پُر امید نہیں ہیں کیونکہ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران افغانستان میں جاری خانہ جنگی میں پہلے کی نسبت خاصی تیزی آ چکی ہے‘ حالانکہ 29 فروری کو امریکہ اور افغان طالبان کے مابین جس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے‘ اس کے تحت امریکہ اور اس کے افغان اتحادیوں کو امید تھی کہ افغان طالبان آخرکار جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں گے‘ یا کم از کم سرکاری فوجوں اور شہری ٹھکانوں پر اپنے حملوں کی شدت میں کمی کر دیں گے‘ لیکن نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا۔ اس عرصے کے دوران شہری ٹھکانوں پر حملوں‘ خود کش دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ ان میں سے بہت سے حملوں کی کسی فریق نے ذمہ داری قبول نہیں کی‘ لیکن امریکہ اور افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کارروائیوں کے پیچھے طالبان کا ہاتھ تھا۔ افغان طالبان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنی فضائیہ سے افغان طالبا ن کے ٹھکانوں پر بمباری کر کے فروری کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ امریکہ کو تنبیہ کرتے ہوئے افغان طالبان نے کہا ہے کہ اگر ان کے ٹھکانوں پر امریکہ کے فضائی حملے جاری رہے تو اس سے نہ صرف فروری کا معاہدہ ختم ہو سکتا ہے بلکہ دوحہ میں جاری مذاکرات میں بھی کسی قسم کی پیشرفت کی ضمانت نہیں دی جا سکے گی۔ دوسری جانب امریکہ نے طالبان کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اپنی اتحادی افغان حکومت کے فوجی دستوں کی مدد کے لئے امریکی فضائیہ کا استعمال معاہدۂ فروری کی خلاف وررزی نہیں ہے‘ کیونکہ امریکہ نے شروع سے ہی طالبان پر واضح کر دیا تھا کہ جب تک امریکی فوجی دستے افغانستان میں موجود ہیں اور جب تک افغان طالبان کی طرف سے مستقل جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا‘ امریکہ اپنے اتحادیوں کو فضائی حملوں کی صورت میں مدد فراہم کرتا رہے گا۔ افغان مذاکرات کے بارے میں اگر کوئی امید افزا بات ہے تو صرف یہ کہ فریقین میں سے کسی نے ابھی تک بات چیت کے اس سلسلے سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان نہیں کیا‘ ورنہ دونوں طرف سے سخت الزام تراشیوں کے سلسلے کے علاوہ ملک میں تشدد اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ مذاکرات میں کسی اہم پیشرفت کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
مذاکرات میں کامیابی کے حصول کی خاطر افغانستان کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بہت دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے متعلقہ فوجی حکام کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا اور کابل میں افغان حکام سے بھی بات چیت کی۔ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران زلمے خلیل زاد نے وزیر اعظم عمران خان‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ پاکستان کی طرف سے انہیں یقین دلایا گیا کہ اسلام آباد‘ افغانستان میں تشدد کو بتدریج کم کر کے حتمی جنگ بندی کی طرف پیش قدمی کرنے کی پالیسی کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے؛ البتہ زلمے خلیل زاد کابل انتظامیہ سے جس قسم کی رعایات کی توقع رکھتے ہیں‘ وہ پوری نہیں ہو رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مذاکرات میں جمود کو توڑنے کیلئے زلمے خلیل زاد افغانستان میں ایک عبوری حکومت کا قیام چاہتے ہیں‘ مگر افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت اس تجویز کے سخت خلاف ہے اور انہوں نے زلمے خلیل زاد کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے امکانات کتنے کم ہیں‘ اس کا اندازہ افغانستان انٹیلی جنس سروس کے سربراہ احمد ضیا سراج کے ایک بیان سے لگایا جا سکتا ہے‘ جو انہوں نے حال ہی میں افغان پارلیمنٹ میں دیا۔ اس بیان میں انہوں نے کہا کہ طالبان مذاکراتی عمل کو مئی تک طول دینا چاہتے ہیں تاکہ 29 فروری کے معاہدے کے تحت افغانستان سے تمام امریکی افواج واپس چلی جائیں اور اس طرح ان کے لئے بزور کابل پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن کی نہ تو طالبان کی کوئی نیت ہے اور نہ ہی ان میں کوئی خواہش نظر آتی ہے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کی کوشش ہے کہ طالبان کو فوری جنگ بندی پر راضی کیا جائے تاکہ قتل و غارت کا موجودہ سلسلہ‘ جس میں شہری آبادی کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے‘ بند ہو اور ملک میں امن قائم ہو جائے‘ مگر افغان حکومت ملک کے آئینی‘ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہے‘ لیکن طالبان کے لئے یہ کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں کیونکہ وہ کابل انتظامیہ کو افغانستان کی غیر قانونی حکومت سمجھتے ہیں۔ اس طرح اصل مسئلہ طالبان اور افغان حکومت کے موقف میں یہ بنیادی اور اہم فرق ہے۔
طالبان کو یقین ہے کہ افغان حکومت کی بقا کا تمام تر انحصار افغانستان میں غیرملکی یعنی امریکی افواج کی موجودگی اور عسکری اعانت پر ہے۔ ان کے خیال میں اس غیرملکی فوج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد افغان حکومت ایک ہفتہ بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ بین الاقوامی میڈیا خصوصاً مغربی ممالک میں بھی اسی قسم کی رائے کے اظہار نے طالبان کے حوصلے بلند کر رکھے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ امریکیوں کے انخلا کے بعد افغان حکومت اور اس کا آئینی‘ سیاسی اور عسکری انفراسٹرکچر‘ سب ان کی یلغار کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ 29 فروری کے معاہدے پر بھی طالبان نے غالباً اس توقع کے ساتھ دستخط کئے تھے کہ اس کے بعد افغان حکومت اور اس کے زیرِ کمان سکیورٹی فورسز کا مورال اتنا نیچے گر جائے گا کہ ان میں طالبان کے حملوں کا مقابلہ کرنا یا ان کی پیش قدمی مزاحمت کرنے کی سکت ختم ہو جائے گی اور وہ بالکل اسی طرح کابل میں داخل ہوں گے‘ جس طرح ستمبر 1996 میں احمد شاہ مسعود کی پسپائی کے بعد داخل ہوئے تھے۔ 29 فروری کے معاہدے کے بعد طالبان کو اپنی فتح کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے اس کے بعد باقاعدہ جشن منائے تھے‘ لیکن نقصانات اٹھانے کے باوجود افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے بعض مقامات پر طالبان کے حملوں کو ناکام بنانے نے طالبان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ طالبان اپنی اس ناکامی کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالتے ہیں لیکن امریکی حکام کے تازہ ترین بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے معذرت خواہانہ رویہ ترک کر دیا ہے اور اب وہ طالبان کی طرف سے الزامات اور دھمکیوں کا نہ صرف ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں بلکہ افغان فورسز کی مدد کا پُر زور دفاع بھی کرتے ہیں۔ اس کی غالباً ایک بڑی وجہ امریکہ کے عسکری حلقوں میں پایا جانے والا یہ تاثر ہے کہ سبکدوش ہونے والے صدر ٹرمپ نے فروری کے معاہدے کے تحت طالبان کو ضرورت سے زیادہ مراعات دے دی ہیں اور ان کے بدلے میں امریکی طالبان سے جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے‘ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ امریکہ کے بعض حلقے تو فروری کے معاہدے کو طالبان کے سامنے امریکہ کے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ ان سارے معاملات سے واضح ہوتا ہے کہ تین ہفتوں کے وقفے کے بعد دوحہ میں پھر سے شروع ہونے والے افغان مذاکرات میں فریقین آگے کی طرف راستہ تلاش کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر وعدوں کی خلاف ورزیوں اور الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ اس سے ناگزیر طور پر جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی فی الحال کوئی امید نہیں۔