"DRA" (space) message & send to 7575

واٹرلُو اور پانی پت کی تیسری لڑائی

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے لاہور کے جلسے کو گیارہ پارٹیوں کے اتحاد‘ خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے واٹرلُو قرار دیا تھا۔ مطلب اس کا یہ تھا کہ جس طرح 1815 میں برطانیہ اور پروشیا کی متحدہ فوجوں کے ہاتھوں واٹرلُو کے مقام پر نپولین بونا پارٹ کی شکست سے فرانسیسی فتوحات پر مبنی دو دہائیوں سے زیادہ طویل عہد اختتام پذیر ہوا تھا‘ اسی طرح مریم نواز کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے جلسے میں توقع سے کم حاضرین کی آمد سے پارٹی ہمیشہ کے لیے عوامی حمایت کھو چکی ہے‘ لیکن دسمبر 2020 کا لاہور میں جلسہ نون لیگ کے لیے واٹرلُو ثابت ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ اس وقت نون لیگ کا قد باقی تمام پارٹیوں سے بلند نظر آ رہا ہے اور اسی پر متعلقہ حلقوں اور عوام کی توجہ مبذول ہے؛ البتہ پی ٹی آئی میں اوپر کی سطح سے نیچے تک جو کنفیوژن چھایا ہوا ہے‘ وہ جنوری 1761 میں پانی پت کے تاریخی میدان میں احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں مرہٹہ فوج کو جو شکست ہوئی تھی‘ اس سے بہت ملتا جلتا ہے۔ 1815 میں واٹرلُو کی لڑائی میں فیصلہ کن شکست سے پہلے آئبرین جزیرہ (The Iberian Peninsula) یعنی سپین سے روس تک فرانس کا طوطی بولتا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ 1805 میں تقریباً تمام یورپ کے متحدہ لشکر کو آسٹلز (Austerlitz) کے مقام پر نپولین کے ہاتھوں شکست سے برطانیہ کا وزیر اعظم ولیم پٹ اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ اس نے اپنے دفتر میں یورپ کے نقشے کو ہٹاتے ہوئے کہا تھا کہ آج کے بعد کوئی یورپ نہیں رہے گا‘ بلکہ اس کی جگہ فرانس ہو گا اور اسی صدمے میں برطانوی وزیر اعظم آنجہانی ہو گئے تھے‘ لیکن 1815 میں برطانوی جرنیل ڈیوک آف ولنگٹن اور پروشیا کے کمانڈر جنرل بلوشر (Blücher) کی کمانڈ میں نپولین کو شکست دے دی گئی۔ نپولین کو گرفتار کر لیا گیا اور اسے بحرِ اوقیانوس کے ایک دور دراز جزیرے میں قید کر دیا گیا‘ جہاں پانچ برس بعد صرف 51 سال کی عمر میں اپنے عہد کے اس ناقابلِ شکست جرنیل کی موت واقع ہو گئی۔ یورپی تاریخ کا ایک عہد‘ جسے نپولین ایرا (The Napoleonic era) کہتے ہیں‘ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس کے بعد محاورے کے طور پر کسی معاملے کو انفرادی‘ اجتماعی یا تاریخی طور پر حتمی حیثیت میں بیان کرنا ہو تو اس کے لیے ''واٹرلُو‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
'لاہور کا جلسہ نون لیگ کے لیے واٹر لو ثابت ہو گا‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ پارٹی ایک فعال سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے‘ لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوا بلکہ حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور اس کے بعد سینیٹ کے الیکشن کے نتائج سے صورتحال اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور مسلم لیگ ن کے گڑھ‘ پنجاب میں اس پارٹی نے نہ صرف اپنی خالی نشستوں پر کامیابی حاصل کی بلکہ پی ٹی آئی کے مضبوط مرکز نوشہرہ کے ایک صوبائی حلقے میں بھی اپنا امیدوار کامیاب کرا لیا۔ مسلم لیگ ن کے ایک سینئر لیڈر‘ سندھ کے سابق گورنر اور نواز شریف و مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ضمنی انتخابات سے پہلے پارٹی دیوار سے لگی بیٹھی تھی‘ مگر اب سب کی نظروں کے سامنے جارحانہ سیاست پر اتر آئی ہے۔ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کیمپ تقریباً وہی نقشہ پیش کر رہا ہے‘ جو جنوری 1761 میں پانی پت کی تیسری لڑائی میں احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں مرہٹوں کا لشکر شکست کھا کر پیش کر رہا تھا۔ شمالی ہندوستان پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد جب مرہٹہ فوج پنجاب کی طرف بڑھی تو اس کے لاہور تک پہنچنے سے پہلے افغانستان کے فرمانروا احمد شاہ ابدالی نے آگے بڑھ کر دہلی کے قریب پانی پت کے مقام پر ان سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مرہٹوں کا لشکر تعداد میں احمد شاہ ابدالی کی فوج سے کہیں زیادہ تھا‘ اور اس کی کمان مرہٹوں کے بہترین جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی‘ لیکن احمد شاہ ابدالی کی بہتر جنگی حکمت عملی کی وجہ سے مرہٹوں نے شکست کھائی۔ یہ شکست مرہٹوں کے لیے دو لحاظ سے تباہ کن تھی۔ ایک تو ان کے بیشتر جرنیل لڑائی میں مارے گئے‘ اور دوسرے اس شکست نے نہ صرف پورے ہندوستان پر غلبہ پانے کا مرہٹوں کا خواب چکنا چور کر دیا بلکہ اس کے بعد مرہٹے دوبارہ کبھی ایک بڑی قوت بن کر نہ ابھر سکے۔
یہ تو واضح ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے حکومتیں نہیں بدلتیں‘ اس لئے حال ہی میں ہونے والے ملک کے نو قومی اور صوبائی حلقوں میں سے آٹھ میں شکست کھا جانے کے باوجود اگر مرکز اور تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بدستور قائم ہیں تو یہ حیرانی کی بات نہیں‘ لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج سیاسی رجحانات کی ضرور نشاندہی کرتے ہیں‘ جن کی بنیاد پر سیاسی قوتوں کا تقابلی جائزہ لیا جا سکتا ہے‘ مثلاً حکومت میں ہونے کے باوجود پنجاب میں حکمران جماعت ان میں سے ایک بھی معرکہ نہیں جیت سکی بلکہ نون لیگ نے اپنی نشستیں نہ صرف پنجاب میں جیتی ہیں بلکہ خیبر پختونخوا میں نوشہرہ 63 کی صوبائی نشست بھی حکمران پی ٹی آئی سے چھین لی ہے۔ اس سے حکمران جماعت کے نہ صرف واٹرلو کے نظریے کی نفی ہوتی ہے بلکہ اس کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف کے بیانیے سے نون لیگ سیاسی طور پر دفن ہو چکی ہے۔ اسی طرح سندھ میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں صوبہ سندھ میں پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں کمی آئی ہے۔ سندھ میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کے گرتے ہوئے گراف کا اثر نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سیاست پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ ڈھائی برسوں میں سندھ میں پی پی پی کی حکومت کے بارے میں جو رویہ اختیار کیے رکھا‘ سندھ کے عوام اس پر ناراض ہیں اور اس نے سندھیوں کو پی ٹی آئی سے اور بھی دور کر دیا ہے۔ اس لئے اگر پی ٹی آئی کے آئندہ سیاسی عزائم میں سندھ میں پی پی پی کی جگہ کسی اور سیاسی اتحاد کی حکومت قائم کرنا شامل ہے تو ضمنی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں اس کا امکان اور بھی کم ہو گیا ہے۔
اب تین روز پہلے ہونے والے سینیٹ کے الیکشن کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن کے نتائج سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے جو یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر چکا ہے‘ وہ بھی غلط ثابت ہوا ہے‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کر کے پی ڈی ایم کی قیادت نے بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ ضمنی انتخابات کے نتائج سے حکومتیں نہیں بدلتیں‘ لیکن ان نتائج سے یہ ضرور پتا چل جاتا ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں اور ان کا رجحان کیا ہے‘ اس لیے نو میں سے آٹھ حلقوں میں شکست کھانے کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے‘ لیکن آئندہ دو ڈھائی برسوں میں اسے پی ڈی ایم کی جارحانہ سیاست کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ حالات وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو مڈ ٹرم انتخابات پر مجبور کر دیں۔ ویسے تو سینیٹ کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اور یہ امکانات بہت کم ہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ نہ حاصل کر سکیں‘ کیونکہ اس میں خفیہ بیلٹ والا طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں