پاک بھارت تعلقات کے 73 سالہ طویل عرصے کا بیشتر حصہ سخت کشیدگی کا شکار رہا ہے‘ مگر 5 اگست 2019 سے ان تعلقات کو کشیدگی کے جس سنگین ماحول کا سامنا ہے‘ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ اور اس کا بھرپور مظاہرہ تقریباً ہر روز لائن آف کنٹرول پر بھارت کی سرحدی فوجوں کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری گزشتہ تقریباً ڈھائی برسوں سے جاری ہے؛ تاہم پاکستان اور بھارت کے امن پسند اور معتدل سوچ رکھنے والے حلقوں میں اور بین الاقوامی برادری کے بااثر اراکین کی یہ رائے غالب آئی کہ اس خطرناک صورتحال کو مزید جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز (ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز) نے ہاٹ لائن پر گفتگو کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی سرحدی فوجوں کے مابین فائرنگ اور گولہ باری کے بڑھتے ہوئے تبادلے کو روکنے اور نومبر 2003 کے معاہدے کے مطابق سرحد پر ''سختی سے‘‘ جنگ بندی پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کیا۔
ہاٹ لائن پر دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کے مابین بات چیت پہلے بھی ہوتی رہی ہے‘ مگر یہ پہلا موقع ہے کہ فریقین نے لائن آف کنٹرول پر 2003 کے سیزفائر معاہدے کا ذکر کیا‘ اور اس پر سختی سے کاربند رہنے کا عہد کیا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان اور بھارت کے ان دو سینئر کمانڈرز کے مابین بات چیت ''خوشگوار ماحول‘‘ میں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی‘ دونوں باہمی تعلقات پر گزشتہ دو ڈھائی سال سے طاری جمود کو ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔ لائن آف کنٹرول کی پُرامن حیثیت کو بحال کرنے کے ساتھ دونوں ملک حالات کو معمول پر لانے کیلئے مزید اقدامات بھی کررہے ہیں۔ ان میں اسلام آباد میں بھارتی اور نئی دہلی میں پاکستانی سفیروں کی اپنے عہدوں پر واپسی اور محدود پیمانے پر دوطرفہ تجارت کی اجازت بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کے ردعمل کے طور پر پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ڈائون گریڈ کرکے اپنے سفیروں کو نئی دہلی سے واپس بلا لیا تھا‘ تجارت بند کردی تھی اور مواصلاتی رابطے منقطع کر دیئے تھے۔ یہاں تک کہ ڈاک‘ تار‘ ٹیلیفون اور انٹرنیٹ کے ذریعے روابط کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح ریل‘ روڈ اور ہوائی ذرائع کے استعمال پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ پاکستانی نشریاتی اداروں کے ذریعے بھارت کے ہر قسم کے پروگرام دکھانے پر بھی مکمل پابندی ہے۔
2004 میں شروع کئے گئے پاک بھارت امن پروگرام کے تحت جن دو شعبوں میں سب سے نمایاں پیشرفت ہوئی‘ وہ دوطرفہ تجارت اور عوامی سطح پر روابط میں اضافہ تھا۔ امن مذاکرات کے صرف چار ادوار (2004 تا 2008) کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی دوطرفہ تجارت میں پانچ گنا اضافہ ہوا تھا اور 2012 میں جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی‘ دونوں ملکوں میں تجارت اتنی بڑھ چکی تھی کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کو موسٹ فیورڈ نیشن (Most Favoured Nation) کا درجہ دینے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح ویزا کے اجرا پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے دانشور‘ صحافی‘ آرٹسٹ‘ بزنس مین‘ اساتذہ اور طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو آپس میں ملنے کا موقع میسر آ رہا تھا۔ اس دور میں اعتماد سازی کے جو اہم اقدامات کئے گئے تھے‘ ان میں مظفر آباد سری نگر بس سروس‘ لائن آف کنٹرول کے آر پار بارٹر تجارت‘ امرتسر دربار صاحب بس سروس‘ تھرپارکر مونابائو ریل سروس کا اجرا‘ شامل تھے۔ ان اقدامات کی بدولت دونوں ملکوں کے مابین باہمی اعتماد سازی میں اضافہ ہورہا تھا۔ نئی دہلی اور لاہور کے مابین دوستی بس سروس اور لاہور نئی دہلی ہوائی رابطہ ان اقدامات کے علاوہ تھے۔ ان اقدامات کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کے وسیع مواقع میسر آ رہے تھے‘ لیکن بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے یکطرفہ طور پر بھارت کے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو دی گئی داخلی خود مختاری ختم کرکے نہ صرف پوری وادی کو ایک جیل میں تبدیل کردیا بلکہ برسوں کی محنت سے دونوں ملکوں میں تعاون اور خیر سگالی کو فروغ دینے کیلئے جو اقدامات کئے گئے تھے‘ انہیں بھی غیرفعال کردیا۔ اس کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے میں نہ صرف تیزی آتی گئی بلکہ بھاری ہتھیاروں‘ مثلاً ہیوی مارٹر اور دور مار توپوں‘ کے استعمال سے کشمیریوں کے جانی اور مالی نقصان میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
پاک بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنے والے مقامی اور بین الاقوامی آبزرورز کی شروع سے ہی رائے تھی کہ یہ صورتحال برقرار نہیں رہی سکتی‘ لائن آف کنٹرول کے آرپار ایک دوسرے پر فائرنگ ایک بڑے تصادم میں تبدیل ہوسکتی ہے‘ یا پاکستان اور بھارت‘ دونوں کو کشیدگی کم کرنے کی طرف رجوع کرنا ہو گا‘ کیونکہ کشیدہ تعلقات سے دونوں کے اہم مفادات مجروح ہو رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کی بات چیت کے بعد پاکستان اور بھارت نے نہ صرف لائن آف کنٹرول پر امن کے قیام کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا‘ بلکہ کشیدگی کی وجہ سے دیگر شعبوں میں دونوں ملکوں کے مابین جو تعاون ختم ہو گیا تھا‘ اس کو بھی بحال کرنے پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔ ان میں دوطرفہ تجارت بڑھانا اور ''سارک‘‘ کو فعال کرنے کا پروگرام بھی شامل ہے۔ پاکستان اور بھارت کو لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے اور 2003 کے معاہدے کے تحت جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر آمادہ کرنے میں بین الاقوامی برادری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ دفترِ خارجہ نے ان دعووں کی تردید کی ہے کہ ڈی جی ایم اورز کی بات چیت اور لائن آف کنٹرول پر امن قائم کرنے کے عہد کے پس پردہ کسی بیک چینل یا دونوں ملکوں کے این ایس ایز (National Security Advisors) کی خفیہ ملاقاتیں کارفرما ہیں؛ تاہم بین الاقوامی برادری کے اہم اراکین یعنی امریکہ‘ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی طرف سے ڈی جی ایم اوز کی بات چیت اور اس کے مثبت نتیجے کو جس طرح خوش آمدید کہا گیا ہے‘ اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ پاکستان اور بھارت اس ''مثبت اقدام‘‘ کے بعد خطے میں مستقل امن اور تعاون کیلئے مزید پیش قدمی کریں گے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اور اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ برابر رابطے میں تھیں اور ان کی طرف سے دونوں ممالک پر زور دیا جا رہا تھا کہ کشمیر پر جمود ختم کرنے کیلئے باہمی کشیدگی میں کمی لازمی ہے‘ اور اس کے حصول کیلئے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدے کی پابندی پہلا قدم ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر کی گتھی سلجھانے کیلئے محض لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کافی ہے؟ اور اگر کافی نہیں تو اس کے بعد پاکستان اور بھارت کو کون سے اقدامات کرنے ہوں گے‘ جن کی مدد سے مسئلہ کشمیر کا پُرامن‘ دیرپا اور تمام فریقوں کیلئے قابل قبول حل تلاش کیا جا سکے؟ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے بیانات میں بھی توقع ظاہر کی گئی ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں ڈی جی ایم اوز کے بیان کے بعد مزید مثبت قدم اٹھائیں گے‘ مگر ان اقدامات کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ لائن آف کنٹرول پر 2003 کے معاہدے کے تحت قیام امن پر اتفاق کرکے پاکستان نے مستقل امن کی طرف پہلا قدم اٹھایا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارات اس کے جواب میں کون سا مثبت قدم اٹھاتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ اب بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ وہ بھارت کو ان خلاف ورزیوں کو مزید جاری رکھنے سے روکے۔