16 مارچ کو اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو جس سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ نہ تو حیران کن تھا اور نہ ہی غیر متوقع۔ اس لیے کہ 10 سیاسی پارٹیوں پر مشتمل یہ اتحاد شروع ہی سے نظریاتی ہم آہنگی اور یکساں سیاسی سوچ سے عاری تھا‘ اور یہ تضادات اور اختلافات کسی بھی وقت کھل کر سامنے آ سکتے تھے۔ اب تک یہ مرحلہ اس لئے نہیں آیا تھا کہ گزشتہ سال 20 ستمبر سے معرض وجود میں آنے والے اس سیاسی اتحاد کو کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے مسئلے سے دوچار نہیں ہونا پڑا تھا‘ لیکن اتحاد 26 مارچ سے لانگ مارچ کا اعلان کر چکا تھا‘ اور اتحاد کے سربراہ‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن کے مطابق اس مارچ کو موثر بنانے کے لئے اسمبلیوں سے مستعفی ہونا لازمی ہے‘ ورنہ لانگ مارچ کی کوئی افادیت نہیں ہو گی۔ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کو ایک آپشن کے طور پر پی ڈی ایم نے شروع سے ہی اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے‘ لیکن یہ اقدام کب کیا جائے گا‘ اس کا فیصلہ اس وقت ہونا قرار پایا تھا جب اتحاد میں شامل تمام سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے ایک پیج پر ہوں گی۔ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت کے مطابق اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیوں میں سے نو‘ جن میں پاکستان مسلم لیگ ن بھی شامل ہے‘ لانگ مارچ کے موقع پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حق میں ہیں‘ لیکن سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب میں سابق صدر آصف علی زرداری نے استعفوں کے آپشن کو مسترد کر دیا‘ کیونکہ ان کے مطابق اسمبلیوں سے مستعفی ہونا وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو مضبوط کرنے کے متراداف ہے۔ آصف علی زرداری کے مطابق پارلیمنٹ میں موجودگی اور مروجہ آئینی اور سیاسی عمل میں شرکت سے پی ڈی ایم کو فائدہ پہنچا ہے اور حکمران جماعت کمزور ہوئی ہے۔ اپنے اس موقف کے حق میں انہوں نے حال ہی میں ضمنی انتخابات میں اپوزیشن پارٹیوں کی کامیابی اور سینیٹ انتخابات میں وزیر خزانہ اور عمران خان کے معتمد خاص حفیظ شیخ کی شکست کی مثال دی۔ سابق صدر کے مطابق اپوزیشن کی ان کامیابیوں اور حکومت کی شکست سے حکمران پی ٹی آئی کی کمزوریاں کھل کر سامنے آئی ہیں جبکہ پی ڈی ایم کو نیا اعتماد اور حوصلہ حاصل ہوا۔ یہ کامیابیاں سیاسی عمل میں شرکت کے بغیر یعنی اسمبلیوں میں موجود رہنے کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی نے نہ صرف استعفوں کے آپشن کو مسترد کر دیا ہے‘ بلکہ پاکستان مسلم لیگ نون کے جلا وطن قائد نواز شریف کی وطن واپسی کو استعفوں کے آپشن سے منسلک کر دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ نون لیگ کی طرف سے استعفوں پر اصرار کے نتیجہ میں دونوں سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی راہیں جدا ہو سکتی ہیں۔
پی ڈی ایم نے گزشتہ سات ماہ سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف جو تحریک شروع کر رکھی ہے‘ اس میں 16 مارچ کے سربراہی اجلاس کو خاص اہمیت حاصل تھی کیونکہ اتحاد کی جانب سے 26 مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا جا چکا تھا۔ 16 مارچ کے اجلاس میں اس اعلان کی توثیق کرنا تھی اور اس کے ساتھ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر یکساں موقف اختیار کرنا تھا‘ لیکن سابق صدر زرداری کی تقریر کے بعد اجلاس بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گیا اور اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے یہ کہہ کر اس کا اعلان کر دیا کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے کسی حتمی موقف کے آنے تک 26 مارچ کے لانگ مارچ کو ملتوی سمجھا جائے گا۔
یوں پی ڈی ایم میں استعفوں کے مسئلے پر اتحاد میں شامل دو سب سے بڑی جماعتوں یعنی پی پی پی اور پی ایم ایل این کے مابین شدید اختلافات کے بعد نہ صرف لانگ مارچ اور اسلام آباد میں حکومت کے خلاف دھرنے کا پروگرام غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا بلکہ خود پی ڈی ایم کے مستقبل اور پاکستان کی سیاست کے آئندہ رجحانات کے بارے میں اہم سوال پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے استعفوں کے مسئلے پر اختلافی موقف اختیار کرنے کے باوجود پی ڈی ایم قائم ہے کیونکہ اتحاد میں شامل 9 جماعتوں کا استعفوں کے مسئلے پر یکساں موقف ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پی پی پی کی کنارہ کشی سے پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ حکمران پی ٹی آئی کی بھی یہی رائے ہے بلکہ حکمران تو ابھی سے پی ڈی ایم کی موت کا دعویٰ کر رہے ہیں کیونکہ پی پی پی اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں میں سے ایک ہے اور پی ڈی ایم سے اس کی علیحدگی کے بعد اس سیاسی اتحاد کی بقا کا کوئی امکان نہیں‘ لیکن ماضی کے کچھ سیاسی واقعات کی روشنی میں ایسا ہونا ناگزیر معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے پیپلز پارٹی اگر استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم سے الگ راہ اختیار کر لیتی ہے تو اس سے پی ڈی ایم کو دھچکا تو ضرور لگے گا لیکن اس کا اثر آہستہ آہستہ زائل ہو جائے گا‘ اور چھوٹے صوبوں کی سیاسی جماعتیں اور گروپ نون لیگ کے ساتھ مل کر ایک موثر اپوزیشن کی شکل اختیار کر لیں گے۔ اسلام آباد میں برسر اقتدار طبقے کے لیے یہ سیاسی قوت‘ خصوصاً اگر اس کی قیادت پنجاب میں سیاسی حمایت رکھنے والی نون لیگ کے ہاتھ میں ہو‘ زیادہ خطرناک چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ نواز شریف کے بیانیے کی سب سے زیادہ حمایت چھوٹے صوبوں کی قوم پرست سیاسی پارٹیوں کی طرف سے کی گئی ہے۔ اس لیے پی پی پی اور نون لیگ کے مابین اختلافات کی خلیج وسیع ہونے پر حکمران پارٹی کی طرف سے پی ڈی ایم کی 'موت‘ واقع ہونے پر جو خوشیاں منائی جا رہی ہیں‘ وہ قبل از وقت معلوم ہوتی ہیں‘ اس لیے کہ پاکستانی سیاست کو حرکت میں رکھنے والے عوامل اور تضادات پی پی پی اور نون لیگ کے باہمی اختلافات سے نہ صرف الگ بلکہ بہت گہرے ہیں۔
اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ پی پی پی استعفوں کے مسئلے پر اپنے موقف کی وضاحت میں پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں‘ بشمول نون لیگ کے لیے قابلِ قبول تجویز پیش کرے جس میں استعفوں کا آپشن ایجنڈے میں شامل رکھتے ہوئے ترجیحات میں اس کی جگہ بدل دی جائے۔ پی پی پی نے اس مقصد کے لیے پی ڈی ایم سے وقت مانگا ہے تاکہ وہ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اس مسئلے کو زیرِ بحث لا سکے۔ پی پی پی کے لیڈر سید یوسف رضا گیلانی کے مطابق پارٹی کی سی ای سی کا جلد اجلاس ہو گا؛ اگرچہ ابھی تک اس کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آئندہ چند ہفتے پی ڈی ایم کی سرگرمیاں معطل رہیں گی‘ جن میں لانگ مارچ کا التوا بھی شامل ہے۔ حکومت کے لیے اپوزیشن کی سرگرمیوں کا تعطل یقیناً ایک خوش آئند وقفہ ہے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان مائل ہوں تو اس وقفے کو اپوزیشن کے ساتھ ایک معاندانہ تعلق کو ایک مصالحانہ تعاون میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ مگر گزشتہ ڈھائی برسوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے خلاف اپنی جارحانہ پالیسی کو نہ ترک کریں گے اور نہ ہی اس میں نرمی لانے کے بارے میں سوچیں گے۔ اس لیے پی ڈی ایم کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں دراڑ کی وجہ سے قومی سیاست میں امن اور تعاون کی جو ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلی ہے‘ حکومت اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گی‘ بلکہ اپوزیشن کی صفوں میں اسے ایک بڑا شگاف سمجھ کر اسے مکمل طور پر کچلنے کی کوشش کرے گی۔