اگر ایک طرف افغان عوام افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری بلکہ صدر اشرف غنی کی حکومت اور طالبان بھی‘ ملک میں بے تابی سے امن کا انتظار کر رہے ہیں تو دوسری طرف امن کی تلاش کی راہ میں ہر آنے والے دن کے ساتھ نئی رکاوٹیں سر اٹھا لیتی ہیں۔ افغانستان کی جنگ بند کرنے اور مستقل امن کے قیام کیلئے ایک اہم سنگِ میل 29 فروری 2020 کو اس وقت حاصل کر لیا گیا تھا جب جنگ میں ملوث دو فریقوں یعنی امریکہ اور افغان طالبان نے ملک سے بیرونی افواج کے انخلا کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ افغانستان میں 19 سالہ طویل جنگ ختم ہو جائے گی‘ اور امن و استحکام پیدا ہو گا‘ لیکن ایک سال سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود امن کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ فریقین میں اعتماد کا فقدان ہے اور دونوں ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ معاہدے کے تحت امریکہ نے امسال یکم مئی تک تمام افواج نکالنے کا وعدہ کیا تھا‘ مگر اب اس سے منحرف ہورہا ہے جیساکہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ وائٹ ہائوس میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھاکہ امریکہ اس تاریخ میں توسیع کا خواہش مند ہے‘ کیونکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کیلئے ابھی حالات سازگار نہیں ہیں۔ صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ امریکہ افغانستان میں غیر ملکی افواج‘ جن کی اس وقت تعداد تقریباً سات ہزار ہے‘ کو مستقل طور پر نہیں رکھنا چاہتا بلکہ جلد از جلد انخلا کا خواہاں ہے‘ مگر چاہتا ہے کہ انخلا ذمہ دارانہ انداز میں عمل میں آئے‘ جس کا دراصل مطلب یہ ہے کہ امریکہ فوجی انخلا سے قبل افغانستان میں آئندہ کی حکومت اور سیاسی نظام کے بارے میں دیگر دو متحارب گروپوں یعنی افغان حکومت اور طالبان کے مابین سمجھوتا چاہتا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ نے طالبان سے امریکی افواج کے انخلا کی تاریخ یکم مئی سے نومبر 2021 تک بڑھانے کی تجویز دی ہے‘ اور ساتھ ہی انخلا کے بعد افغانستان میں انارکی اور خانہ جنگی کو روکنے کیلئے ایک منصوبہ پیش کیا ہے‘ جس پر ماہِ رواں میں ترکی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں غور کیا جا رہا ہے۔ اس کانفرنس میں افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک مثلاً پاکستان‘ ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے علاوہ امریکہ‘ روس‘ چین اور بھارت بھی شریک ہوں گے۔ امریکہ کے اس منصوبے کیلئے حمایت حاصل کرنے کی خاطر امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اور ڈیفنس بالترتیب انٹونی بلنکن اور لائیڈ آسٹن نے یورپی اتحادیوں اور افغان صدر سے صلاح مشورہ کیا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کی جگہ ایک عبوری سیٹ اپ قائم کیا جائے اور فوری جنگ بندی کی جائے۔ امریکی منصوبہ کانفرنس میں پیش ہونے سے پہلے ہی مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا ہدف بنتا جا رہا ہے۔ صدر غنی کی حکومت نے عبوری حکومت کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے چھ ماہ تک نئے صدارتی انتخابات کی تجویز پیش کی ہے‘ اور ان میں طالبان کو شرکت کی دعوت دی ہے‘ مگر طالبان نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے‘ البتہ انہوں نے ترکی میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی ہامی بھر لی ہے‘ مگر فوری اور مکمل جنگ بندی سے انکار کر دیا ہے‘ بلکہ امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فروری 2020 کے معاہدے کے تحت افغانستان سے اپنی اور نیٹو اتحادیوں کی باقی ماندہ افواج نکال لے‘ ورنہ طالبان امریکہ کو معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے امریکی اور نیٹو افواج پر دوبارہ حملوں کا آغاز کر دیں گے۔ افغانستان کی سرکاری فوجوں پر طالبان کے حملے پہلے ہی جاری ہیں‘ بلکہ گزشتہ ایک سال میں ان میں تیزی سے آئی ہے۔ پہلے طالبان کے حملوں کا نشانہ سرکاری افواج کی چیک پوسٹیں اور فوجی تنصیبات ہوا کرتی تھیں‘ لیکن فروری 2020 کے معاہدے کے بعد ان حملوں کا دائرہ افغانستان کے شہروں بشمول کابل تک وسیع ہو چکا ہے۔ ان حملوں میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد‘ جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں‘ ہلاک ہوئی ہے۔ طالبان نے سول سوسائٹی کے اراکین کو بھی ٹارگٹ کرنا شروع کردیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق طالبان نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صحافت سے منسلک افراد کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ ان کو طالبان کی حمایت میں اخبارات یا ٹی وی پر بیانات دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جو صحافی ان کی گائیڈ لائن سے ہٹ کر اپنے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کرتے ہیں‘ انہیں اغوا کرکے خفیہ عقوبت خانوں میں ٹارچر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو صحافی اپنے نظریات یا سرگرمیوں کی وجہ سے ان کیلئے قابلِ قبول نہ ہوں‘ انہیں بم دھماکوں سے اڑا دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کے مطابق طالبان اپنے حملوں میں خواتین صحافیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
صدر جو بائیڈن جب بارک اوباما کی انتظامیہ میں نائب صدر تھے تو افغانستان سے امریکی افواج کے جلد انخلا کے حامی تھے‘ مگر اب انہوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے‘ اور موجودہ حالات میں افغانستان کو امریکی اور نیٹو افواج سے خالی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ اس کی وجہ انہیں ملنے والی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں ہیں‘ جن میں کہا گیا ہے کہ طالبان امریکی افواج کے انخلا کے بعد بزور طاقت کابل پر قبضہ کرنے کی تیاری کئے بیٹھے ہیں۔ اس صورت میں افغانستان میں خوفناک خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے‘ جس کیلئے دنیا نہ صرف طالبان کے ساتھ امریکہ کو بھی مورد الزام ٹھہرائے گی بلکہ امریکی رائے عامہ بھی صدر بائیڈن کے خلاف ہو سکتی ہے کیونکہ گزشتہ تقریباً 19 برسوں کے دوران افغان معاشرے میں نوجوان طبقے خصوصاً خواتین نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے شعبوں میں جو پیشرفت کی ہے‘ اس کے ضائع ہو جانے کا قوی اندیشہ ہے کیونکہ طالبان اپنی سابق حکومت کو بحال کرکے اپنا سخت گیر نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے باوجود‘ طالبان اتنی آسانی سے کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں میں افغان معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ افغان سول سوسائٹی اب اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں‘ اور اگر طالبان نے طاقت دکھائی تو اسے سول سوسائٹی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
افغان صدر اشرف غنی پُراعتماد ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز امریکی افواج کی مدد کے بغیر بھی طالبان کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے متعدد مواقع پر طالبان کی طرف سے شہروں پر قبضہ کرنے کی کوششوں کی افغان فوج کے ہاتھوں ناکامی کا حوالہ دیا۔ افغانستان کی صورتحال کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی‘ البتہ یہ یقینی ہے کہ اس جنگ کا جلد خاتمہ ممکن نہیں۔ امریکی کانگریس کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق امریکی افواج کے انخلا کے بعد‘ افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں‘ تاہم افغان فوج اور دیگر گروپس کی طرف سے مزاحمت کی وجہ سے خانہ جنگی طول پکڑ سکتی ہے۔ ان ممکنہ منظر ناموں کی وجہ سے تمام سٹیک ہولڈرز اس ماہ ترکی میں اقوام متحدہ کی زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی کانفرنس پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ مسئلے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ طالبان اپنی گزشتہ حکومت ہر قیمت پر بحال کرنا چاہتے ہیں اور ان کے مقابلے میں افغان حکومت‘ افغان سول سوسائٹی اور بین الاقوامی برادری طالبان کو آئندہ سیاسی سیٹ اپ میں شریک کرنے کو تو تیار ہیں مگر رجعت پسند حکومت کی بحالی پر کسی قیمت پر تیار نہیں۔ ملک میں بڑے تصادم سے صرف اسی صورت میں بچا جا سکتا ہے‘ جب ان دو انتہائی پوزیشنوں کے مابین کوئی قابلِ قبول فارمولا تلاش کیا جا سکے۔