صرف سات ماہ کے عرصے میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا شیرازہ بکھرنے کی بڑی وجہ اس اتحاد میں شامل دس میں سے (پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر) نو پارٹیوں کی طرف سے 26 مارچ کو ''لانگ مارچ‘‘ کے ساتھ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر اصرار بتائی جاتی ہے۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی اپنی 12 اپریل کی پریس کانفرنس میں پی ڈی ایم کی قیادت کی طرف سے پی پی پی پر استعفے ٹھونسنے کا الزام لگایا تھا۔ اس ضمن میں پی ڈی ایم کے لیڈر اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ایک بیان کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے‘ جس میں انہوں نے مبینہ طور پر استعفوں کو لانگ مارچ سے نتھی کر دیا تھا‘ لیکن پی ڈی ایم کی تشکیل سے لے کر اس کی تحلیل تک‘ تمام حالات و واقعات‘ پارٹی رہنمائوں کے بیانات‘ جن میں مولانا صاحب کا بیان بھی شامل ہے‘ کا غور سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اگرچہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے مسئلے پر پیپلز پارٹی کا موقف‘ مسلم لیگ (ن) اور اتحاد میں شامل دیگر پارٹیوں سے الگ تھا‘ مگر یہ اختلاف اتحاد ٹوٹنے کا اصل سبب نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی اور پی ایم ایل این دو الگ الگ مطمح نظر کے ساتھ پی ڈی ایم میں شامل ہوئیں اور جوں جوں اس اتحاد کی چھتری تلے سیاسی جدوجہد میں تیزی آئی‘ دونوں پارٹیوں کے مابین نقطہ نظر کا اختلاف وسیع تر ہوتا چلا گیا اور آخر ایسا موقع آیا جب اس کا واشگاف الفاظ میں اظہار کیا جانے لگا۔
یہ موقع اس وقت آیا جب مسلم لیگ (ن) کے قائد‘ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 16 اکتوبر 2020 کے روز گوجرانوالہ کے جلسے میں اپنے آن لائن خطاب میں اداروں اور شخصیات کے نام لے کر انہیں اپنی حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور 2018 کے انتخابات میں وزیر اعظم عمران خان کو عوام پر مسلط کرنے کا الزام لگایا۔ بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک غیرملکی چینل سے انٹرویو میں کہا تھاکہ انہیں اس پر دھچکا لگا۔ اس کا صاف مطلب یہ تھاکہ نون لیگ کے برعکس پی پی پی سیاست میں مداخلت کی مخالفت پر آمادہ تھی‘ مگر براہ راست اداروں اور ان کے سربراہوں کا نام لے کر ذمہ داری عائد کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ ہوا تھا۔ اس کے بعد جتنے جلسے ہوئے پیپلز پارٹی اور نون لیگ سٹیج اور پنڈال‘ دونوں جگہ برابر کے جوش و جذبے کے ساتھ ایک تھیں‘ بلکہ جلسوں میں دونوں جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کے درمیان قربت‘ یگانگت اور تعاون دیکھ کر یقین ہونے لگتا تھا کہ کئی دہائیوں پر مشتمل ایک لمبے عرصے تک ایک دوسرے کی حریف رہنے والی یہ دونوں جماعتیں اتحاد اور تعاون کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہیں‘ لیکن سٹیج سے ہٹ کر دیگر مقامات پر ان دونوں سیاسی پارٹیوں کی قیادت کی تقریریں اور بیانات واضح طور پر ایک دوسرے سے مختلف پیغامات دے رہے تھے۔ پی پی پی اور نون لیگ‘ دونوں کا ہدف حکومت کو گرانا تھا‘ اور دونوں اس کیلئے ہر وہ طریقہ استعمال کرنے پہ تیار تھیں‘ جس کی آئین اور قانون میں اجازت ہے۔ یہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ان ہائوس تبدیلی کی شکل میں ہو سکتا تھا‘ یا وزیر اعظم کے استعفے کی صورت میں بھی۔
پی پی پی کے برعکس مسلم لیگ (ن) حکومت کی تبدیلی کے مقابلے میں اس نظام میں تبدیلی کی بات کرتی رہی جس کے تحت نہ صرف انتخابی عمل میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں‘ بلکہ ایک منتخب اور آئینی حکومت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ لاہور میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس سے خطاب اور گوجرانوالہ جلسے میں اپنی تقریر (آن لائن) میں نواز شریف نے جو پیغام دیا‘ جسے اب عرفِ عام میں نواز شریف کا بیانیہ کہا جاتا ہے‘ کا صاف مطلب یہ تھاکہ حکومت کی تبدیلی سے زیادہ ضروری نظام میں تبدیلی ہے کیونکہ جیساکہ نون لیگ کے ایک سینئر رہنما نے گزشتہ برس کہا تھا: اگر نظام میں تبدیلی نہ کی گئی یعنی آئین کی حکمرانی قائم نہ کی گئی‘ اداروں کو آئین کے مطابق ان کے دائرہ اختیار میں رہنے کا پابند نہ بنایا گیا‘ عوام کو صاف شفاف اور بغیر کسی دبائو کے اپنے نمائندے چننے کا موقع نہ دیا گیا اور آئینی و جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت کو عوامی مینڈیٹ کے مطابق اندرونی اور بیرونی پالیسیاں مرتب کرنے اور ان پر عمل درآمد کی اجازت نہ دی گئی تو تحریکِ عدم اعتماد یا نئے انتخابات کے ذریعے نئی حکومت تشکیل دینے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ نواز شریف کے بیانیے کے مطابق گزشتہ 73 برسوں میں کسی جمہوری اور سول حکومت کو اس کے مینڈیٹ کے مطابق اندرونی اور بیرونی مسائل کو آئین اور عوامی مینڈیٹ کے مطابق حل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی‘ اور اگر کسی حکومت نے اس کی کوشش کی تو اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ کھیل 1953 میں خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد سے اب تک جاری ہے اور پاکستان کے عوام کے سامنے جاری رہا ہے‘ لیکن اس کا کھلے عام ذکر اور اس پر بحث کم ہوتی رہی ہے‘ اور اگر اس کا ذکر ہوتا رہا ہے تو نون لیگ کے رہنما سعد رفیق کے مطابق یہ چھوٹے صوبوں تک محدود تھا ''پہلے یہ باتیں چھوٹے صوبوں میں ہوا کرتی تھیں‘ پنجاب کے عوام کو ان میں سے کچھ کی سمجھ آتی تھی اور کچھ کی نہیں آتی تھی‘ لیکن اب یہ باتیں پہلی دفعہ پنجاب سے اٹھ رہی ہیں‘‘۔ سعد رفیق کے مطابق‘ یہ ہے اصل تبدیلی اور نواز شریف کا بیانیہ۔
یہ صحیح ہے کہ احسن اقبال اور نون لیگ کے دیگر رہنما نئے انتخابات کا تواتر کے ساتھ مطالبہ کر چکے ہیں‘ لیکن شاہد خاقان عباسی جیسے رہنمائوں کا موقف ہے کہ نظام میں تبدیلی کے بغیر‘ انتخابات بے سود ہیں۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر پی پی پی کی تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے انہوں نے دلیل پیش کی کہ موجودہ نظام کا حصہ بن کر پنجاب میں حکومت کا حصول ''بے سود‘‘ اور ''بے مقصد‘‘ ہے ''جب تک نظام آئین کے مطابق نہیں ہوتا‘ ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے‘ سودے بازی کرکے ہم اس نظام کا حصہ نہیں بن سکتے‘‘۔ ان کے مطابق پی پی پی اس کیلئے تیار ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کو یہ قبول نہیں۔ یہ موقف صرف نون لیگ نے ہی نہیں بلکہ چھوٹے صوبوں کی قوم پرست جماعتوں نے بھی اپنا لیا ہے‘ اور اس کے تحت وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے لیے بھی تیار ہیں۔ استعفوں کا مقصد صرف حکومت کی تبدیلی ہی نہیں بلکہ موجودہ نظام پر پورا پورا دبائو ڈالنا ہے تاکہ نئے انتخابات آئین کی بالا دستی اور ووٹ کی مکمل عزت پر مبنی فریم ورک کے اندر ہوں‘ جس کے بعد کسی ادارے کیلئے اپنی آئینی حدود سے باہر اختیارات استعمال کرنے کی گنجائش نہ رہے۔ پیپلز پارٹی نون لیگ کے ساتھ اتنے لمبے سفر پر ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں۔ جہاں تک اسمبلیوں سے استعفوں کا تعلق ہے‘ اس پر شروع سے ہی پی ڈی ایم کا متفقہ موقف رہا ہے کہ اس کا استعمال آخری آپشن کے طور پر اور باہمی اتفاق رائے سے ہوگا۔ لانگ مارچ کے ساتھ مولانا فضل الرحمن نے استعفوں کو لازمی قرار نہیں دیا تھا بلکہ رائے دی تھی کہ استعفوں کی صورت میں لانگ مارچ کی ''افادیت‘‘ میں اضافہ ہو گا۔ پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کی وجہ استعفوں پر جھگڑا نہیں‘ بلکہ دونوں پارٹیوں کے مابین ملک میں آئندہ سیاسی نظام کی نوعیت اور اس کے حصول کیلئے جدوجہد پر اختلافات ہیں۔ اس کی وجہ سے اتحاد میں شامل جماعتوں نے دو دھڑوں میں بٹ کر اپنی راہیں جدا کر لیں۔