ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں بالآخر وہ گھڑی آ پہنچی‘ جس کا نہ صرف افغان عوام بلکہ متحارب امریکہ اور طالبان کے علاوہ بین الاقوامی برادری بھی بے تابی سے انتظار کر رہی تھی۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا یکم مئی 2021 سے شروع ہو گا‘ اور امسال 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ امریکی صدر کے اعلان کے بعد نیٹو ممبران نے بھی اپنی افواج کو اسی ٹائم لائن کے مطابق افغانستان سے نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ امید ہے کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بارے میں یہ آخری اور حتمی اعلان ہو گا۔ اس سے قبل سابق صدور اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن دے چکے تھے‘ مگر وہ اس پر عمل درآمد نہ کر سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے سے پہلے طالبان اور افغان حکومت کے مابین ملک کے آئندہ سیاسی اور انتظامی نظام پر سمجھوتہ چاہتا تھا تاکہ افغانستان میں ایسی خانہ جنگی اور انارکی کی صورتحال پیدا نہ ہو جیسی 1988 میں جنیوا معاہدے کے تحت سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد پیدا ہو گئی تھی۔ سوویت فوجوں کے انخلا کے ساتھ ہی امریکہ بھی افغانستان سے غائب ہو گیا۔
سوویت افواج کو افغانستان سے نکل جانے پر مجبور کرنے کے سلسلے میں امریکہ نے مجاہدین کیلئے اسلحے اور ہتھیاروں کے انبار لگا دیئے تھے‘ لیکن سوویت یونین کو افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں نیچا دکھانے کا مقصد پورا ہو گیا تو امریکہ افغانستان سے ایسا بھاگا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ امریکہ کی سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ہلیری کلنٹن کے مطابق امریکہ کی یہ بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ روسی فوجوں کے انخلا اور امریکہ کی عدم دلچسپی کے نتیجے میں افغانستان میں ایک خلا پیدا ہوا‘ جسے القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیم نے پُر کیا‘ اور جس کا منطقی نتیجہ 11ستمبر 2001 کا واقعہ تھا‘ جس نے پوری دنیا کی سیاست کو پلٹ کر رکھ دیا۔ 7 اکتوبر 2001 کو افغانستان کے شہروں اور دیگر مقامات پر ہوائی حملوں کے ساتھ افغانستان میں جس جنگ کا آغاز کیا‘ اس سے اپنی جان چھڑانے کیلئے امریکہ نے متعدد بار کوشش کی‘ لیکن ہلیری کلنٹن کے مطابق امریکہ 1990 جیسی غلطی نہیں دہرانا چاہتا تھا۔ ہلیری کلنٹن کے ایک مشہور قول کے مطابق‘ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کو نکالنے پر آمادہ ہے‘ مگر افغانستان کو اکیلا چھوڑنے پر تیار نہیں‘ جس کا مطلب یہ تھاکہ فوجوں کے انخلا کے بعد بھی امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی چاہتا تھا۔ اس کا ایک مقصد تو وہ تھا جو امریکی برملا بیان کرتے تھے کہ افغانستان کو دہشتگردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا‘ اور ایک مقصد ایسا تھا جسے امریکی تسلیم نہیں کرتے تھے‘ مگر دنیا پر واضح تھا کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ سے امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ افغانستان میں امن عمل کو منطقی اور ناگزیر انجام تک پہنچانے میں اگر اتنا وقت لگا‘ تو اس کی بنیادی وجہ امریکہ کی یہی سوچ تھی‘ جسے طالبان نے مسترد کر دیا تھا اور افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجوں کی غیر مشروط واپسی کے مطالبے پر اڑے رہے۔
29 فروری 2020 کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو انہی شرائط کے تحت طالبان سے معاہدہ کرنا پڑا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے یکم مئی کو افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے بدلے میں طالبان سے غیرملکی افواج کے خلاف جنگ‘ افغانستان میں آئندہ کے سیاسی اور آئینی ڈھانچے کے بارے میں انٹرا افغان ڈائیلاگ اور افغانستان کو امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانیاں حاصل کر لیں‘ مگر اس معاہدے میں اتنی خامیاں تھیں کہ امریکہ کے عسکری اور سفارتی حلقوں نے اسے امریکہ کی طرف سے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیا۔ اسی وجہ سے جو بائیڈن بھی اس معاہدے پر عمل درآمد نہ کر سکے‘ حالانکہ اوباما انتظامیہ میں نائب صدر کی حیثیت سے وہ افغانستان سے امریکی افواج کے جلد انخلا کے حق میں تھے؛ تاہم گزشتہ ماہ کے اوائل میں وائٹ ہائوس میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں انہیں اعلان کرنا پڑا کہ ٹرمپ طالبان معاہدے کے تحت امریکہ کیلئے یکم مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کو نکالنا ممکن نہیں۔ حالیہ اعلان‘ جس کے تحت امریکہ نے فوجی انخلا کے عمل کو یکم مئی سے شروع کرکے 11 ستمبر 2021 تک مکمل کرنے کا عہد کیا ہے‘ ایک یکطرفہ اعلان ہے اور طالبان نے اسے مسترد کر دیا ہے‘ لیکن امید ہے کہ وہ اپنی سابقہ دھمکی کے مطابق امریکی یا غیرملکی فوجوں پر حملے سے احتراز کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے اپنے ایک بیان کے ذریعے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے امریکی افواج پر حملہ کیا تو امریکہ بھرپور جوابی کارروائی کرے گا۔ طالبان کو معلوم ہے کہ امریکہ اہلیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر طالبان نے امریکی اور افغان افواج پر حملے جاری رکھے تو نہ صرف افغانستان کے ہمسایہ ممالک‘ جن میں پاکستان‘ ایران اور روس بھی شامل ہیں‘ میں ان کے خلاف سخت ردِ عمل پیدا ہوگا بلکہ ملک کے اندر بھی طالبان مختلف افغان سیاسی حلقوں کی تنقید کا نشانہ بنیں گے۔ افغانستان کے اندر اور باہر یہ اتفاق رائے ابھررہا ہے کہ افغانستان میں فوری طورپر جنگ بندی ہو‘ طالبان اپنی سابقہ حکومت 'امارات افغانستان‘ کی بحالی کے بجائے ملک کی موجودہ حکومت اور دیگر سیاسی دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں متفقہ عبوری حکومت میں شریک ہوں‘ لیکن افغان طالبان موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یکم مئی کے بعد کیا وہ دھمکی پر عمل کرتے ہوئے غیرملکی افواج پر حملے کرتے ہیں یا نہیں‘ یہ واضح نہیں؛ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے مکمل انخلا تک کسی بین الاقوامی کانفرنس یا مذاکرات میں حصہ نہیں لیں گے۔ مطلب یہ ہواکہ 24 اپریل سے استنبول میں امریکہ کی تجویز پر اور اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی افغانستان کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کیلئے جو بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے‘ اس کا بھی مستقبل مخدوش ہے‘ کیونکہ طالبان نے ابھی تک اس میں شرکت کا اعلان نہیں کیا۔ دوسری طرف امریکہ اور اتحادی افغانستان سے اپنی افواج کی واپس پر تو تیار ہیں‘ مگر یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے کہ غیرملکی افواج کے انخلا‘ جو اب یقینی نظر آرہا ہے‘ کے بعد افغانستان کی صورتحال کیا ہوگی۔
امریکہ‘ روس اور چین کوشاں ہیں کہ استنبول کانفرنس کے شرکا امریکی تجویز یعنی افغانستان میں فوری جنگ بندی کے بعد ایک عبوری حکومت قائم ہو جس میں طالبان بھی شامل ہوں‘ پرراضی ہوجائیں۔ پاکستان‘ ایران‘ وسطی ایشیا کی ریاستیں‘ روس اور چین اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں لیکن افغان حکومت اور افغان طالبان نہیں مان رہے۔ طالبان نے اگرچہ یقین دہانی کرائی ہے کہ غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد وہ افغان حکومت کو چھوڑکر ملک میں دیگر سیاسی دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کرکے انتقالِ اقتدار کا مسئلہ حل کرلیں گے‘ لیکن وہ 'امارات اسلامی افغانستان‘ کی بحالی پر اصرار سے دستبردار نہیں ہوئے۔ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق اس آخری یلغار کیلئے طالبان اپنے مورچوں میں تیار بیٹھے ہیں۔ افغانستان کی تاریخ گواہ ہے افغانوں کے ہاتھ میں بندوق ہوتو وہ مذاکرات کے بجائے لڑکر مسئلے کے حل کوترجیح دیتے ہیں۔ موجودہ صورتحال اس لحاظ سے اور بھی تشویشناک ہے کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ افغان فوج کو راستے سے ہٹانا ان کیلئے کوئی مشکل نہیں۔ اس لئے بیرونی افواج کے انخلا کے بعد مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے ایک پُرامن حل کا امکان کم نظر آتا ہے۔ طالبان کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے ایک پرامن حل پر رضا مندی کے بغیر بیرونی افواج کا انخلا افغانستان کو ایک خوفناک خانہ جنگی سے دوچار کرسکتا ہے۔