غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملوں اور بھاری توپ خانے کے ذریعے بمباری سے ڈھائی سو کے قریب فلسطینی شہید اور پندرہ سو کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں۔ املاک کو جو نقصان پہنچا‘ وہ اس کے علاوہ ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 2005میں انخلا کے بعد اسرائیلی مسلح افواج متعدد بار غزہ میں فلسطینی باشندوں خصوصاً حماس‘ جو غزہ میں 2006 سے منتخب نمائندہ جماعت کی حیثیت سے چلی آ رہی ہے‘ کے ٹھکانوں کو اپنے سفاکانہ حملوں کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ اس ضمن میں 2008 اور 2014 کی اسرائیلی جارحیت کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں جنگوں میں سینکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔
اس سال جمعۃ الوداع کے مبارک دن اسرائیل نے غزہ کے نہتے اور معصوم شہریوں کے خلاف جو جارحیت شروع کی‘ اس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع اور املاک کی تباہی کے دلخراش مناظر دیکھنے میں آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا قیام ہی عالمی احتجاج اور مخالفت کے ماحول میں عمل آیا تھا۔ فلسطینیوں اور ہمسایہ عرب ممالک کے خلاف اسرائیلی جارحیت‘ جس میں 1967 کی جنگ میں بیت المقدس سمیت شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ بھی شامل ہے‘ کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے انبار لگے ہوئے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے اسرائیل کی مذمت کے بیشمار بیانات اس کے علاوہ ہیں‘ لیکن اس دفعہ دنیا کے کونے کونے سے غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے خلاف جو آوازیں بلند ہوئیں‘ ان کی مثال نہیں ملتی۔ اس دفعہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں صرف عرب اور مسلم ممالک ہی پیش پیش نہ تھے بلکہ یورپ اور خود امریکہ کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
مسلم ممالک میں پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور اسے روکنے کی کوششوں میں اتنا نمایاں اور فعال کردار ادا کیا کہ مسلم دنیا کے تمام حلقوں میں اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ہر سطح پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف‘ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا ۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس سلسلے میں مسلم اور عرب دنیا کو موبلائز کیا اور مسلم ممالک کے سربراہوں کے ساتھ رابطہ قائم کرکے ایک متحدہ اور مؤثر پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کی۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) کو متحرک کیا گیا اور اس کے پلیٹ فارم سے اسرائیلی جارحیت کو فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی طرح حکومتِ پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے رابطہ قائم کرکے عالمی ادارے کو اسرائیل کے خلاف اقدام کرنے پر زور دیا۔ وزیر خارجہ نے اسرائیلی بربریت کیخلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھرپور تقریر کی۔ اس سے پہلے انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کی جارحیت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور یوں قومی جذبات کی نمائندگی کی۔ پاکستان میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے کا ایک منفرد پہلو یہ تھا کہ یہ صرف حکومت تک محدود نہیں بلکہ اس میں سیاسی پارٹیوں کے کارکن‘ عام شہری‘ طلبا و طالبات اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی شامل ہوئے۔ مظاہروں کا سلسلہ بھی محض بڑے شہروں تک محدود نہیں بلکہ چھوٹے شہروں اور قصبوں تک پھیلا ہوا ہے‘ اور ان میں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ پورے عالمِ اسلام میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جہاں اسرائیل کی جارحیت کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت میں اتنے وسیع پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہو۔
پاکستان کی حکومت اور عوام کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت میں ملک گیر احتجاجی مظاہرے کوئی نیا یا انوکھا واقعہ نہیں‘ بلکہ ایسے معاملات کی جڑیں قیامِ پاکستان سے بھی پہلے کے دور سے جڑی ہوئی ہیں۔ 1917 میں جب برطانیہ نے بدنامِ زمانہ بالفور ڈیکلریشن جاری کرکے فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس کی مخالفت اور مذمت میں ہندوستان کے مسلمان بھی عالمِ اسلام‘ خصوصاً عربوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ ہندوستان میں مسلم لیگ کی قیادت میں جب مسلمانوں کے حقوق کے لیے تحریک نے زور پکڑا تو اپنے حقوق کے حصول کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف احتجاج بھی ان کے سیاسی ایجنڈے میں شامل ہوتا تھا‘ بلکہ مسلم لیگ کے سالانہ جلسوں میں سب سے پہلے فلسطینیوں کے حق میں قرارداد منظور کی جاتی تھی۔ فلسطین ان چند بین الاقوامی مسائل میں سے ایک ہے‘ جس پر بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے قبل اظہارِ خیال کرتے ہوئے پاکستان کے موقف کو واضح ترین الفاظ میں بیان کر دیا تھا‘ اور پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد یہ پہلا مسئلہ تھا‘ جس پر جنرل اسمبلی میں جاری بحث میں حصہ لینے کیلئے ملک کے پہلے وزیرِ خارجہ چودھری ظفراللہ خان کو خصوصی طور پر وہاں بھیجا تھا۔ چودھری ظفراللہ خان نے اقوام متحدہ میں فلسطین کا مقدمہ جس انداز میں لڑا‘ اور عربوں کے موقف کا جن دلائل کے ساتھ دفاع کیا‘ اس پر اسمبلی میں عرب ممالک کے نمائندے بھی دنگ رہ گئے تھے اور انہوں نے پاکستانی مندوب کے سامنے اعتراف کیا تھاکہ جن تاریخی حقائق اور معاشی اعدادوشمار کے ساتھ انہوں نے تقسیمِ فلسطین اور اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی‘ ان سے وہ خود آگاہ نہ تھے۔ فلسطین کے مسئلے پر پاکستان نے جس دلیری سے عربوں کی حمایت کی‘ اس کی وجہ سے عرب ملکوں میں پاکستان کیلئے زبردست خیرسگالی پیدا ہوئی تھی۔
1948 میں جب عربوں اور اسرائیل کے مابین پہلی جنگ چھڑی تو لیاقت علی خان پاکستان کے وزیرِ اعظم تھے۔ انہوں نے پاکستان کے طول و عرض میں فلسطینیوں کے حق میں نکالے گئے جلوسوں کے شرکا کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان کی طرف سے عربوں کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں ریاستِ پاکستان کی ایک ایسی پالیسی متعین کی‘ جو ایک مستقل حیثیت اختیار کر چکی ہے‘ اور اگر بعد میں آنے والی حکومتوں میں سے کسی نے اس سے روگردانی کی کوشش کی یا اس کے برعکس موقف اختیار کیا تو اسے زبردست عوامی دبائو کے تحت اپنا وہ مؤقف تبدیل کرنا پڑا۔ مثلاً 1956 میں سویز بحران کے موقع پر جب اس وقت کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے حملہ آور طاقتوں یعنی برطانیہ‘ فرانس اور اسرائیل کی حمایت کی تو پاکستان میں عوام کے زبردست احتجاج کے پیشِ نظر انہیں اپنی مغرب نواز پالیسی ترک کرنا پڑی تھی۔اسی طرح پاکستان کی معاہدہ بغداد‘ جو بعد میں سینٹو کے نام سے مشہور ہوا‘ میں شمولیت کو ملک میں کبھی عوامی تائید حاصل نہ ہو سکی‘ کیونکہ یہ امریکہ کے دبائو کے تحت عرب قوم پرستی کے خلاف تشکیل دیا گیا تھا۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف لڑنے والی شامی فضائیہ کی مدد کی تھی‘ اور کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کے پائلٹ نے ایک اسرائیلی طیارہ مار گرایا تھا۔ 1973 کی جنگ میں تو پاکستان نے کھل کر عربوں کا ساتھ دیا تھا اور اس کا سب سے نمایاں مظاہرہ فروری 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد تھا۔ یہ کانفرنس وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ایما پر بلائی گئی تھی‘ اور اس میں فلسطین کی تنظیم برائے آزادی (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات نے بھی شرکت کی تھی۔ کانفرنس میں جو قراردادیں منظور کی گئیں‘ ان میں بیشتر کا تعلق مسئلہ فلسطین سے تھا۔ مسئلہ فلسطین پر اور اسرائیل کے بارے میں پاکستانی حکومت کی پالیسی اور عوام کے جذبات اب بھی وہی ہیں‘ جن کا اظہار مسلمانانِ ہند نے قیامِ پاکستان سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ اس کے تحت پاکستانی عوام اسرائیل کو ایک جارح اور غیر قانونی ریاست سمجھتے ہیں‘ جس نے فلسطینیوں کے علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔