افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا جاری ہے اور امید ہے کہ صدر جو بائیڈن کے بیان کے مطابق یہ عمل 11 ستمبر سے قبل مکمل ہو جائے گا۔ طالبان کو بھی یقین ہے کہ اگلے تین‘ ساڑھے تین ماہ میں آخری امریکی سپاہی دیگر غیر ملکی فوجیوں کے ہمراہ افغانستان سے رخصت ہو جائے گا۔ شاید اسی لئے ان کے تازہ ترین حملوں کا نشانہ امریکی اور غیر ملکی افواج کے بجائے افغانستان کی سرکاری افواج اور تنصیبات بن رہی ہیں‘ لیکن اس وقت سب سے اہم جو سوال پوچھا جا رہا ہے‘ یہ ہے کہ فوجی انخلا کے بعد افغانستان اور اس کے ارد گرد کے خطے کے بارے میں امریکہ کی پالیسی کیا ہو گی؟ اس سوال کا مختصر اور سیدھا سادہ جواب تو یہ ہے کہ یہ پالیسی‘ اُس پالیسی سے مختلف ہو گی‘ جو اس نے 1989 میں افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے بعد اپنائی تھی۔
موجودہ اور سابقہ امریکی حکومتوں کے اہم عہدے دار خود ایک سے زیادہ مرتبہ اعتراف کر چکے ہیں کہ افغان مجاہدین کو جدید ترین اور مہلک ترین اسلحہ سے لیس کر کے روسی افواج کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد امریکہ کا افغانستان سے مکمل طور پر لا تعلق ہو جانا ایک غلطی تھی۔ اس سے افغانستان میں ایک خلا پیدا ہوا جسے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے پُر کیا‘ جس کا بالآخر نتیجہ 11 ستمبر 2001 (نائن الیون) کے واقعہ کی صورت میں نمودار ہوا۔ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا بھی یہی موقف ہے‘ یعنی فوجوں کے انخلا کے باوجود امریکہ افغانستان کے سکیورٹی اور دیگر معاملات کے ساتھ اپنا تعلق برقرار رکھے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے کے ساتھ امریکہ کے اہم سٹریٹیجک مفادات وابستہ ہیں اور ان مفادات کے تحفظ کے لئے امریکہ کی جو بھی حکمتِ عملی تشکیل پائے گی‘ افغانستان کو اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ اس خطے میں امریکہ کے نزدیک اس کے سٹریٹیجک مفادات کون سے ہیں‘ اور فوجی انخلا کے بعد بھی وہ کون سے ذرائع ہیں‘ جن کی بنیاد پر امریکہ افغانستان کے معاملات پر اثر انداز ہو سکتا ہے یا ہونا چاہے گا؟ ایک زمانے میں افغانستان میں امریکہ کی فوج ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔ اب اس کی تعداد پچیس سو ہے اور اگر سپیشل سروسز کے دستے کو بھی شامل کر لیا جائے تو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد تین ہزار بنتی ہے‘ لیکن اس سے کہیں زیادہ تعداد میں پرائیویٹ سکیورٹی فورسز ہیں۔
چین کی طرح متعدد دیگر ممالک کو بھی یقین ہے کہ افغانستان سے رسمی اور باقاعدہ فوجی انخلا کے بعد امریکہ غیر سرکاری طور پر معقول تعداد میں فوجی جوانوں پر مشتمل ایک دستہ افغانستان میں تعینات رکھے گا تا کہ نہ صرف افغانستان بلکہ جنوبی‘ مغربی اور وسطی ایشیا کے حالات پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ اس کے لئے امریکہ افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں پرائیویٹ سکیورٹی فورسز‘ ڈیفنس کنٹریکٹرز اور مقامی پارٹنرز کے ساتھ گزشتہ 20 برسوں کے دوران میں پیدا کئے گئے اپنے روابط استعمال کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں تو نکال رہا ہے‘ مگر اس سے دست بردار نہیں ہو رہا‘ بلکہ ان تین خطوں پر مشتمل وسیع علاقے کی سکیورٹی صورت حال پر نظر رکھنے کیلئے نہ صرف افغانستان بلکہ ہمسایہ ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا۔
امریکی سنٹرل کمان کے کمانڈر نے تجویز دی ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکہ کو افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں فوجی اڈے حاصل کرنے چاہئیں تاکہ طالبان کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی یا القاعدہ اور داعش کے دہشتگردوں کی طرف سے افغانستان میں بالا دستی حاصل کرنے کی صورت میں امریکہ افغانستان میں کارروائی کر سکے۔ اس تجویز کی بنیاد پر بائیڈن انتظامیہ نے اگرچہ ابھی تک کوئی پالیسی فیصلہ نہیں کیا ہے‘ لیکن سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کے ایک حالیہ بیان سے‘ کہ امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال پاکستان کیلئے ایک کڑے امتحان کی حیثیت رکھتی ہے‘ گمان ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان کے آسمانوں تک رسائی کیلئے پاکستان سے مراعات حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے اس قسم کی کسی بات چیت کی تردید کی گئی ہے‘ لیکن پاکستان کی قیادت سے امریکہ کے ٹاپ سکیورٹی حکام کی حالیہ ملاقاتوں (ان میں وزیر اعظم کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور ان کے امریکی ہم منصب کے مابین ملاقات بھی شامل ہے) سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی انخلا کے بعد کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستانی کردار پر امریکہ اور پاکستان کے مابین اعلیٰ سطح پر اہم صلاح مشورہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں کسی بھی یک طرفہ کارروائی کی مخالفت‘ اور انٹرا افغان ڈائیلاگ کی بنیاد پر ایک عبوری حکومت کے قیام کی حمایت ظاہر کرتی ہے کہ جہاں تک امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں امن اور استحکام کا مسئلہ ہے‘ پاکستان اور امریکہ اس معاملے میں ایک پیج پر ہیں‘ لیکن اصل مسئلہ خطے میں امریکہ کے ان سٹریٹیجک مفادات کا ہے‘ جن کے تحت چین کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ امریکی افغانستان سے عجلت میں اس لئے رخصت ہو رہے ہیں کہ وہ طالبان کے ہاتھوں جانی نقصان اٹھا رہے تھے۔ علاوہ ازیں اس لئے کہ افغانستان کی جنگ انہیں بہت مہنگی پڑ رہی تھی‘ اور امریکی رائے عامہ اس کے خلاف ہو رہی ہے‘ یا کم از کم اسے ایک غیر ضروری جنگ سمجھنے لگی ہے۔ کسی حد تک یہ تینوں وجوہات درست ہیں کیونکہ امریکی ایک لاکھ فوج اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود طالبان کو عسکری لحاظ سے زیر نہیں کر سکے ہیں۔ اب تک امریکہ افغانستان کی جنگ پر تین ٹریلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر چکا ہے‘ لیکن اگر ہم ویت نام اور افغانستان کی جنگوں میں امریکہ کے جانی نقصان کا موازنہ کریں تو امریکہ کو افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے دوران کم جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے‘ مثلاً ویت نام میں امریکی محکمہ دفاع کے مطابق 58220 امریکی فوجی ہلاک یا لا پتا ہوئے تھے‘ افغانستان میں اس کے مقابلے میں امریکہ کے 2442 فوجی ہلاک ہوئے۔ اس لئے جانی نقصان کے لحاظ سے افغانستان میں امریکی مداخلت اتنی نقصان دہ ثابت نہیں ہوئی‘ البتہ مالی لحاظ سے یہ جنگ امریکہ کیلئے ناقابلِ برداشت بوجھ ثابت ہو رہی ہے‘ لیکن طالبان کی شرائط اور افغانستان کو ایک غیر یقینی صورتحال میں چھوڑکر جانے کا ایک اور سبب بھی ہے۔ اس کا انکشاف سیکرٹری آف دی سٹیٹ انٹونی بلنکن نے 19 اپریل 2021 کو اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا ''امریکہ نے جن مقاصد کیلئے افغانستان میں مداخلت کی تھی‘ وہ حاصل ہو گئے ہیں‘‘۔ ان کے مطابق امریکہ بنیادی طور پر القاعدہ کی دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے افغانستا ن کی جنگ میں کودا تھا‘ اب یہ خطرہ افغانستان سے باہر کسی اور جگہ منتقل ہو چکا ہے‘ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ اب اپنی توانائیاں اور وسائل دیگر چیلنجز مثلاً چین‘ کورونا وائرس کی عالمی وبا وغیرہ پر خرچ کرے (افغانستان کے علاوہ) ہمارے ایجنڈے میں اور بھی اہم مسائل ہیں‘ جن میں چین کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ بھی شامل ہے‘ جس پر امریکہ کو پوری توانائی اور وسائل کے ساتھ توجہ مبذول کرنے کی ضرروت ہے۔
مبصرین کے مطابق جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت کے ساتھ مل کر چار ملکی اتحاد کے باوجود امریکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کی دلدل میں پھنسے رہنا ہے۔ امریکہ اب اس دلدل سے نکل کر سنکیانگ‘ تبت اور لداخ کے محاذوں پر چین پر دبائو ڈالنے کی کوشش کرے گا‘ چنانچہ افغانستان سے فوری انخلا کے بعد علاقے کی ممکنہ صورت حال کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ (جاری)