پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے اگرچہ عدالت عالیہ لاہور میں اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے‘ مگر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنے حق میں جلد فیصلے کی امید نہیں‘ اس لئے انہوں نے ملک میں رہتے ہوئے اپنی پارٹی کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف کی حیثیت سے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ وقت بھی موزوں ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں سالانہ بجٹ پیش ہونے والا ہے اور بجٹ سیشن میں کوئی بھی اپوزیشن حکومت کے تخمینوں کو آڑے ہاتھوں لینے کے موقع سے محروم نہیں رہنا چاہے گی۔ اس لئے حال ہی میں قائدِ حزبِ اختلاف کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں پارلیمانی رہنمائوں کا اجلاس منعقد کرنے کا شہباز شریف کا فیصلہ ایک اہم اور بر وقت اقدام ہے۔ اس سے اپوزیشن کو منظم اور فعال کرنے کیلئے ان کے عزم کا پتا چلتا ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اجلاس کامیاب رہا اور تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہو کر قائدِ حزبِ اختلاف کی قیادت میں اسمبلی کے اندر حکومت کو ٹف ٹائم دینے پر راضی ہیں۔ اس اجلاس میں اگرچہ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر‘ بلاول بھٹو زرداری نے شرکت نہیں کی‘ تاہم ان کی پارٹی کا ایک مضبوط نمائندہ وفد اجلاس میں موجود تھا۔
شہباز شریف کی سرگرمیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سال بجٹ سیشن میں پوری تیاری کے ساتھ اپوزیشن کو لیڈ کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصدکے لئے انہوں نے اپنی پارٹی کی اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کا ایک اہم اجلاس بھی بلایا جس میں سابق وزرائے خزانہ اور اقتصادی امور کے ماہرین نے شرکت کی۔ یہ ایک ورچوئل اجلاس تھا اور اس میں نون لیگ کی سابقہ حکومت میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بھی شرکت کی۔ ابھی اس اجلاس میں شرکا کی طرف سے پاکستانی معیشت کی موجودہ صحت کے بارے میں تجزیوں اور آرا کی تفصیلات موصول نہیں ہوئیں‘ مگر یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان ماہرین نے معیشت کے بارے میں حکومت کے حالیہ دعووں کی قلعی کھولنے کے لئے اپوزیشن اور مسلم لیگ (ن) کو مطلوبہ معلومات فراہم کر دی ہوں گی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پہلے ہی معیشت کی ترقی کے بارے میں حکومت کے پیش کردہ اعدادوشمار اور دعووں کو من گھڑت‘ بے بنیاد اور زمینی حقائق کے منافی قرار دیا جا چکا ہے۔ وفاقی وزرا‘ مشیران‘ معاونینِ خصوصی اور خود وزیر اعظم کی طرف سے شرح نمود میں اضافے اور معیشت کے بارے میں ترقی کے دعووں کے دفاع میں متواتر بیانات کے باوجود‘ عوام ان پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ روزمرہ استعمال کی عام اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں روزانہ کے حساب سے اضافہ جاری ہے۔ مہنگائی میں ہوشربا اضافے کو روکنے میں ناکامی سے عوام میں حکومت کے بیانیے کے بارے میں شکوک و شبہات بدستور موجود ہیں‘ جبکہ اپوزیشن کے موقف کو عام شہریوں میں پذیرائی مل رہی ہے۔
حکومت کیلئے یہ صورتحال یقیناً پریشان کن ہے اور اس کا تدارک کرنے کیلئے حکومت اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے۔ ان میں حکومت کے موقف کے دفاع میں وزارت اطلاعات و نشریات کا بھرپور استعمال سرِ فہرست ہے۔ حکومت کی جانب سے پارٹی اور حکومت کے رہنمائوں اور ترجمانوں‘ وزیر اعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی پر مشتمل ''کرائسس مینجمنٹ گروپ‘‘ (Crisis Management Group) کا 31 مئی کو بلایا جانے والا اجلاس ظاہر کرتا ہے کہ حکومت معیشت کے بارے میں اپنے دعووں پر عوام کو قائل کرنے کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اپوزیشن بجٹ منظور ہونے سے تو نہیں روک سکتی مگر حکومت کے دعووں کو کھوکھلا ثابت کر کے اس پر عوام کے اعتماد کو اور بھی ٹھیس پہنچا سکتی ہے۔ جوں جوں بجٹ سیشن قریب آ رہا ہے‘ حکومت کی بد حواسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بد حواسی میں اپوزیشن کی طرف سے ایک منظم اور مدلل تنقید کا سامنا کرنے کے بجائے وزیر‘ مشیر‘ معاونین خصوصی اور ترجمان بے ربط اور بیشتر حالات میں ایک دوسرے سے متضاد بیانات جاری کر رہے ہیں۔ نتیجتاً اپوزیشن کا انداز جارحانہ اور حکومت کا مدافعانہ شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 31 مئی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی اور حکومت کے ترجمانوں کو تاکید کی کہ وہ معیشت کے مثبت پہلوئوں سے عوام کو آگاہ کرنے کیلئے مزید سخت محنت کریں۔
سالانہ بجٹ 11 جون کو قومی اسمبلی میں پیش ہو گا۔ اس لئے اس کے مندرجات اور سفارشات کا اس کے بعد ہی پتہ چلے گا‘ لیکن اپوزیشن کی طرف سے ٹف ٹائم کو حکومت ابھی سے محسوس کرنے لگی ہے۔ ایک ماہ قبل ایسی صورتحال نہیں تھی۔ پی ڈی ایم سے ملک کی تیسری بڑی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کی علیحدگی کے بعد حکومت بڑے اعتماد کے ساتھ اپوزیشن کے خاتمے کا اعلان کر رہی تھی۔ ایک موقع پر وزیر اعظم نے تو پارٹی اور حکومت کے ترجمانوں کو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ ٹی وی ٹاک شوز یا اپنے ٹویٹر پیغامات میں اپوزیشن کا نام لینا چھور دیں بلکہ حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے مثبت شکل میں پیش کر کے اس کی پاپولیریٹی کے گرتے ہوئے گراف کو اونچا کرنے کی کوشش کریں‘ مگر اب تو ہر موقع پر ہر اجلاس میں اور ہر تقریر میں جناب وزیر اعظم کو اپوزیشن خصوصاً شریف خاندان کی اربوں کھربوں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیجی گئی دولت کو واپس لانے کے عزم پر وہی لمبا لیکچر سناتے ہیں‘ جسے سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے ہیں‘ لیکن وہ شاید ایسا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اپوزیشن حکومت کی ہر کمزوری پر‘ خواہ وہ معیشت کے شعبے میں ہو یا گورننس اور خاجہ پالیسی کے محاذ پر‘ تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں نیب کی حراست میں مہینوں گزارنے کے باوجود نہ تو حکومت کی توقع کے مطابق نون لیگ کے رینک اینڈ فائل میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوا اور نہ ہی اس کی ٹاپ لیڈرشپ کے حوصلے پست ہوئے‘ بلکہ حکومت پر اس کی تنقید میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیزی آ گئی ہے۔ اس کا ایک سبب حکومت کی مایوس کن کارکردگی ہے‘ لیکن نواز شریف کی عدم موجودگی میں شہباز شریف نے نہ صرف نون لیگ کو متحد رکھا ہے بلکہ اپوزیشن میں شامل مختلف الخیال اور ایک دوسرے سے الگ نظریات کی حامل جماعتوں کو پارلیمانی اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے حکومت کو الرٹ ہونے پر مجبور بھی کر دیا ہے۔ اگرچہ شہباز شریف‘ پی پی پی اور اے این پی کو واپس پی ڈی ایم میں نہیں لاسکے‘ لیکن ان دونوں جماعتوں کی شہباز شریف کی قیادت میں ایک موثر اور متحد پارلیمانی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر رضا مندی شہباز شریف کی بڑی کامیابی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر کی سیاسی دور اندیشی اور پختگی کی روشن دلیل ہے۔
پی ڈی ایم میں دراڑ پڑنے کے بعد حکومت اور اس کے حامی تبصرہ نگاروں کا خیال تھا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف ایک موثر کردار ادا کرنے کے بجائے نون لیگ اور پی پی پی کے مابین الزام تراشیوں کے تبادلے میں الجھ کر رہ جائے گی۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے مابین اب بھی کشیدگی اور اختلافات ہیں‘ مگر شہباز شریف نے انہیں بڑھاوا دینے کے بجائے میانہ روی اور مصالحانہ رویہ اختیار کر کے پی ڈی ایم کے فریم ورک میں نہ سہی مگر پارلیمانی اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر راضی کر لیا ہے۔ ایشو ٹو ایشو کی بنا پر اگر پارلیمنٹ سے باہر نون لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو جاتی ہیں تو یہ حکومت کو یہ سوچنے پر مجبور کرنے کے لئے کافی ہو گا کہ کیا ای سی ایل کے ذریعے شہباز شریف کو ملک سے باہر جانے سے روکنے کا فیصلہ درست تھا؟