"DRA" (space) message & send to 7575

صدرِ تاجکستان کا دورہ اور بدلتی ہوئی صورتحال

گزشتہ صدی کی آخری دہائی کے دوران چند ایسے تلاطم خیز واقعات رونما ہوئے جنہوں نے عالمی سیاست‘ خصوصاً ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات میں ایسی بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں کہ دنیائے سیاست کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ان واقعات میں اہم ترین دوسری جنگِ عظیم کے بعد ابھرنے والی دو سپر پاورز یعنی سوویت یونین اور امریکہ کے مابین تقریباً 45 سال سے جاری سرد جنگ کا خاتمہ ہے۔ اس اہم تاریخی واقعہ کے نتیجے میں جو مزید تبدیلیاں پیدا ہوئیں‘ ان میں دیوارِ برلن کا مسمار ہونا‘ مشرقی یورپ میں کمیونزم کا خاتمہ‘ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنا اور وسطی ایشیا کی آزاد ریاستوں کا ظہور میں آنا شامل ہے۔
وسطی ایشیا کی یہ چھ مسلم ریاستیں انیسویں صدی کے وسط سے سوویت یونین کا حصہ چلی آ رہی تھیں اور 1917 کے کمیونسٹ انقلاب نے اس کی سیاست‘ معیشت اور ثقافت پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ اگرچہ سوویت یونین کے یورپی حصے کے مقابلے میں ان وسطی ایشیا کی ریاستوں میں صنعتی ترقی نہ ہو سکی اور یہ خطہ یورپی سوویت یونین میں قائم شدہ صنعتوں کے لئے قدرتی اور معدنی خام مال کا ذریعہ بنا رہا‘ تاہم کمیونزم کے تقریباً 80 سالہ دور میں اس خطے میں لمبی اور کشادہ سڑکوں‘ ہائی ویز اور ریل روڈ کے ذریعے نہ صرف ان ریاستوں کو آپس میں مربوط کر دیا گیا‘ بلکہ تعلیم کے شعبے کو اس قدر ترقی دی گئی کہ کوئی شخص ان پڑھ نہ رہا۔ اسی طرح کوئی گھر بجلی‘پانی‘ ٹیلی وژن اور فرج کی سہولتوں سے محروم نہ تھا۔ سوویت دور میں ان ریاستوں کے باشندوں کو رہنے کے لئے مکان مفت ملتے تھے اور بیروزگاری نام کی کسی چیز کا وجود نہیں تھا۔ ذرائع پیداوار اور اہم اشیائے ضرورت کی تقسیم کا نظام چونکہ ریاست کے کنٹرول میں تھا‘ اس لئے لوگوں کو مہنگائی کے مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ تعلیم مفت‘ رہائش مفت‘ روزگار کی ضمانت‘ بجلی گیس کم قیمت پر دستیاب اور مارکیٹ پر حکومت کا سخت کنٹرول تھا۔
وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کے عوام اتنے بلند معیارِ زندگی کے تحت رہ رہے تھے کہ ارد گرد کے مسلم ممالک میں رہنے والے ان کے ہم مذہب بھائی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مشرقی یورپ میں کمیونزم کے زوال کے بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے لگا اور اس کے یورپی حصے یکے بعد دیگرے ماسکو سے آزاد ہونے لگے تو وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں سوویت یونین سے علیحدگی میں عدم دلچسپی بلکہ تردد کا اظہار کر رہی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ریاستوں کا انفراسٹرکچر‘ معیشت‘ سیاسی‘ تعلیمی اور ریاستی نظام ماسکو سے اتنا جڑا ہوا تھا کہ علیحدگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان ریاستوں کی آبادی کی اکثریت اسلام کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور کمیونزم کا 80 سالہ دور بھی انہیں اسلام سے دور نہ کر سکا تھا‘ لیکن ہر ریاست میں حکمران گروہ کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا‘ جو اپنی سوچ کے اعتبار سے عام باشندوں سے مختلف تھے۔ 1991 میں جب سوویت یونین کی تحلیل کا اعلان کر دیا گیا اور اس میں شامل غیر روسی یونٹس کو علیحدگی کا اختیار دے دیا گیا تو وسطی ایشیا کی ریاستوں نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا‘ یوں مسلم ممالک کا ایک نیا بلاک وسطی ایشیا کی ریاستوں کی صورت میں معرضِ وجود میں آ گیا۔
وسطی ایشیا کی ان مسلم ریاستوں کی آزادی کا عالمِ اسلام‘ خصوصاً پاکستان میں زبردست خیر مقدم کیا گیا۔ پاکستان میں اس اہم تبدیلی پر اسی لئے خوشی اور جوش و جذبے کا اظہار کیا گیا کہ جنوبی ایشیا کے مسلمان اپنی تہذیب‘ زبان‘ ثقافت‘ مذہب‘ فکر‘ اقدار‘ علم و ادب اور متعدد صورتوں میں اپنی شناخت کیلئے وسطی ایشیا کو بطور سورس (Source) پیش کرتے ہیں۔ یورپی نوآبادیاتی نظام کے عروج اور جنوبی ایشیا پر غلبے سے قبل وسطی ایشیا اور برِ صغیر پاک و ہند کے درمیان گہرے تجارتی اور ثقافتی روابط تھے۔ مشہور شاہراہ ریشم‘ جو ازمنہ قدیم سے چین اور یورپ کے درمیان وسطی ایشیا‘ ایران اور مشرق وسطیٰ کے ذریعے تجارتی سامان کے علاوہ انسانوں اور انسانی فکر‘ ثقافت‘ علوم کی ترسیل کا ذریعہ تھی‘ کی تین شاخیں جنوبی ایشیا سے گزرتی تھیں۔ ان میں سے ایک شاہراہ قراقرم ہے‘ جس کے متوازی پاک چین اکنامک کوریڈور (CPEC) تعمیر کیا جا رہا ہے۔
یورپی نوآبادیاتی نظام نے صدیوں سے قائم تجارت اور قوموں کے درمیان رابطے کے اس نظام کو منقطع کر دیا تھا‘ مگر یورپی نوآبادیاتی نظام کے زوال اور سرحدوں کے خاتمے نے پُرانے نظام کو پھر سے بحال کرنے کی راہ ہموار کر دی۔ ظاہر ہے کہ وسطی ایشیا کی نوآزاد مملکتوں کا اس میں کلیدی کردار ہے‘ مگر تین دہائیاں ہونے کو ہیں‘ یہ ریاستیں اب بھی ایک عبوری دور سے گزر رہی ہیں۔ آزادی کے ساتھ انہیں جن اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ ابھی تک قائم ہیں اور وسطی ایشیا کے ممالک کی سلامتی اور استحکام کے لئے بدستور خطرے کی علامت ہیں۔
ان ممالک میں تاجکستان بھی شامل ہے‘ جو قدرتی اور معدنی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود وسطی ایشیا کی تمام چھ ریاستوں میں غریب ترین ملک شمار کیا جاتا ہے‘ لیکن پاکستان کے لئے یہ ملک متعدد وجوہات کی بنا پر خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک تو تاجکستان‘ وسطی ایشیا کا واحد ملک ہے جس کی سرحد 16 کلومیٹر لمبے واکھان کوریڈور کے ذریعے براہ راست پاکستان سے ملتی ہیں۔ اسی کوریڈور کے ذریعے تاجکستان کا رابطہ افغانستان اور چین سے بھی ہے۔ اس طرح تاجکستان چین‘ افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ایک ایسے چہار فریقی میکنزم کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے‘ جس کے ذریعے یہ چاروں ممالک تجارت‘ توانائی‘ ٹرانسپورٹ اور سیاحت کے شعبوں میں علاقائی تعاون برائے ترقی کا عمل تیز کر سکتے ہیں۔ تاجکستان پانی سے بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے۔ اس کا ہمسایہ ملک کرغیزستان بھی اس قدرتی دولت سے مالامال ہے۔ اسی کی وجہ سے ان دو ممالک اور پاکستان و افغانستان کے درمیان CASA-1000 کے نام سے پن بجلی کو وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا پہنچانے کے لئے ایک منصوبہ زیرِ تعمیر ہے‘ لیکن نہ تو ابھی تک یہ منصوبہ مکمل ہوا ہے اور نہ دیگر شعبوں مثلاً دو طرفہ تجارت‘ سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں کوئی قابلِِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خطے کے مخدوش سکیورٹی صورت حال ہے‘ جس میں افغانستان میں گزشتہ تقریباً 20 برسوں سے جاری جنگ کا سب سے نمایاں حصہ ہے۔
وسطی ایشیا کی ریاستیں وسائل کے باوجود اگر ابھی تک ترقی نہیں کر سکیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ریاستوں کو اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے مابین ایک معاہدے کے تحت اگرچہ امریکی افواج واپس جا رہی ہیں‘ مگر امریکی انخلا کے بعد کی غیر یقینی صورت حال نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے لئے نئے خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران اگرچہ دونوں ممالک نے ایک درجن کے قریب ایم او یوز پر دستخط کئے ہیں مگر اصل مسئلہ افغانستان کے بارے میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورت حال ہے۔ تاجکستان اور افغانستان کے مابین 1400 کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد ہے۔ ماضی میں تاجکستان کو جس اندرونی خلفشار کا سامنا کرنا پڑا‘ اس میں افغانستان کی خانہ جنگی نے کافی کردار ادا کیا ہے۔ تاجکستان کو ڈر ہے کہ افغانستان سے امریکیوں کے نکل جانے کے بعد خطہ ایک دفعہ پھر عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ اس موضوع پر بات چیت کے لئے تاجک صدر نے حال ہی میں روس کا دورہ کر کے صدر پیوٹن سے بات چیت کی اور پاکستان کے دورے کا بھی یہی سب سے اہم مقصد تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں