یوں تو پچھلی یعنی 20ویں صدی اپنے آغاز سے انجام تک تلاطم خیز انقلابی تبدیلیوں اور واقعات سے بھری پڑی ہے‘ جن کے عالمی سیاست پر بہت اہم اور دور رس اثرات مرتب ہوئے‘ مگر اس کا ساٹھ (1960) کا عشرہ متعدد وجوہات کی بنا پر منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے تھوڑا پہلے یورپی نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے والی اقوام کی ایک بڑی تعداد اقوام متحدہ کی رکن بنی تھی‘ مثلاً 1945 میں جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے ارکان کی تعداد 51 تھی‘ اور ان میں سے بھاری اکثریت کا تعلق یورپ یا 'نئی دنیا‘ (مغربی نصف کرۂ ارض) شمالی اور لاطینی امریکہ سے تھا۔ تب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈوں میں بحث کے لئے شامل مسائل کا تعلق بھی یورپ یا لاطینی امریکہ سے ہوتا تھا‘ لیکن 1950 کے عشرے میں شروع ہو کر 1960 کی دہائی کے نصف حصے تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ارکان کی تعداد 117 ہو چکی تھی۔
نئے اراکین کی بھاری اکثریت کا تعلق برِ اعظم افریقہ کی نو آزاد قوموں سے تھا۔ اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے والی ان آزاد قوموں کی وجہ سے عالمی ادارے کی سیاست میں بھی انقلابی تبدیلی آئی اور جہاں جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں بحث صرف برلن‘ آسٹریا یا کوریا کے مسائل تک محدود تھی‘ تب عالمی ادارے میں افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والے ممالک کی شمولیت سے نئے مسائل پر بحث بھی اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے ایجنڈوں پر نمایاں نظر آنے لگی تھی‘ مثلاً افریقہ میں نسل پرستی‘ الجیریا اور ویت نام میں غیر ملکی نوآبادیاتی تسلط کے خلاف جنگ‘ چین اور امریکہ کے مابین کشیدگی اور عرب اسرائیل تنازع۔
یہ وہی دورتھا جب مائوزے تنگ (Mao Zedong) کے تیسری دنیا (Third World) کے نظریے کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس دور میں فرانس میں طلبا کی قیادت میں ملک کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک ایسی احتجاجی تحریک شروع ہوئی جس نے فرانس کی نہ صرف حکومت بلکہ معیشت کو بھی مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ تحریک طلبا کے سرکاری دفاتر پر قبضوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاجی جلوسوں کے ساتھ 'امریکی سامراج مردہ باد‘ جیسے نعروں اور پُرانے اور روایتی اداروں‘ پُر تعیش اندازِ زندگی (Consumerism) کو ختم کرنے کے مطالبات کے ساتھ مئی 1968 میں پیرس سے شروع ہوئی تھی۔ فرانس کے ایک کروڑ دس لاکھ مزدوروں نے جب اس تحریک میں شرکت کا اعلان کیا تو ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو گئی۔ صدر چارلس ڈیگال کو چھپ کر جرمنی بھاگنا پڑا۔ یہ تحریک اگرچہ صرف سات ہفتے جاری رہی‘ مگر دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں تھا‘ جو اس تحریک کے تخیلات (Ideas) سے متاثر نہ ہو ا ہو ۔ نہ صرف یورپ بلکہ امریکہ اور خاص طور پر تیسری دنیا میں روایتی انقلابی سیاسی نظریات سے ہٹ کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف انقلابی تحریکوں میں طلبا ہراول دستے کے طور پر کردار ادا کر رہے تھے۔ ''مزدور کسان طلبا اتحاد زندہ باد‘‘ ''سرمایہ داری اور امریکی سامراج مردہ باد‘‘ ''سوشلزم اور کمیونزم زندہ باد‘‘ کے نعروں سے پوری دنیا گونج رہی تھی۔ امریکہ میں یونیورسٹی کے طلبا کی تنظیموں کی ایک فیڈریشن کا نعرہ تھا ''نو کلاس ٹوڈے اینڈ نو کلاس سوسائٹی ٹومارو‘‘۔
جن ملکوں میں ان آئیڈیلز اور نعروں نے اپنا اثر دکھایا‘ ان میں پاکستان بھی شامل تھا‘ اور ملک کے دونوں حصوں میں نوجوان طبقہ‘ خصوصاً طلبا سیاسی بحث مباحثہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ لاہور میں ان سرگرمیوں کا سب سے بڑا اور غالباً واحد مرکز پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ ملک معراج خالد کا مال روڈ اور بیڈن روڈ کے سنگم اور ریگل چوک کے سامنے لکشمی مینشن میں واقع دفتر تھا۔ وہاں ''پاک چائنہ فرینڈشپ ایسوسی ایشن‘‘ ''پاک کیوبا فرینڈشپ سوسائٹی‘‘ ''پاک فلسطین فرینڈشپ سوسائٹی‘‘ اور ''افریقی ایشیائی یکجہتی تحریک‘‘ کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی اور اس کا ایک علیحدہ گروپ مزدور کسان پارٹی‘ دونوں کبھی کبھی یہاں اپنے اجلاس منعقد کرتی تھیں۔
ایسی مجالس میں حاضرین کی بڑی تعداد کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا پر مشتمل ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ ٹریڈ یونین ورکرز کی بھی ایک بڑی تعداد حاضرین میں شامل ہوتی تھی۔ متعدد سیاسی رہنما اور اہم ادبی شخصیات بھی ان اجلاسوں میں اکثر موجود ہوتی تھیں۔ لوگ مقررین کی باتیں بڑے شوق اور غور سے سنتے تھے۔ جب بھی ایسا کوئی اجلاس ہوتا‘ ملک صاحب کے دفتر کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہوتا تھا‘ اور اجلاس میں شرکت کے شائقین میں سے جو دیر سے آتا تھا‘ اسے باہر انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ان اجلاسوں کو زینت بخشنے والے رہنمائوں اور سرکردہ شخصیات میں سی آر اسلم‘ میجر (ر) اسحاق محمد‘ میاں عارف افتخار (میاں افتخارالدین کے صاحب زادے اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما) کے علاوہ حیات محمد خان (آل پاکستان میوزک کانفرنس)‘ ممتاز محمد خان (پاک چین فرینڈشپ ایسوسی ایشن) اور سینئر صحافی حسین نقی‘ مسعود اللہ خان اور منہاج برنا بھی شامل تھے۔
یہ انہی دنوں کا ذکر ہے۔ مجھے یاد ہے وہ 1966 تھا‘ جب ذوالفقار علی بھٹو ملک معراج خالد کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے اور جن چند افراد پر مشتمل گروپ سے انہوں نے ملاقات کی‘ گروپ میں شامل لوگوں کے ساتھ حالاتِ حاضرہ‘ خصوصاً پاکستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور اپنے مستقبل کے سیاسی پروگرام کی طرف اشارہ کیا‘ اس میں مشہور طالب علم رہنما طارق علی‘ حسین نقی‘ مسعود اللہ خان اور منہاج برنا کے علاوہ خاکسار بھی شامل تھا۔ جناب بھٹو‘ ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہو چکے تھے‘ لیکن انہوں نے ابھی ایک علیحدہ پارٹی کی تشکیل کا اعلان نہیں کیا تھا‘ بلکہ گھنٹہ‘ ڈیڑھ گھنٹہ کی اس ملاقات میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) میں ایک فارورڈ گروپ بنانے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ غالباً ملک معراج خالد کے دفتر ان کی آمد اور ملاقات کی غایت بھی یہی تھی‘ کیونکہ ملک معراج خالد پاکستان مسلم لیگ (کنونشن)‘ جس کی سربراہی صدر ایوب خان کے پاس تھی‘ کے رکن تھے‘ مگر ''ضمیر کا بحران‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھ کر پارٹی سے اپنے اختلافات کا اظہار کر چکے تھے۔ جناب بھٹو ان سے ملاقات کر کے اپنے پروگرام کے بارے میں رائے اور ملک صاحب کی مجوزہ فارورڈ گروپ میں شمولیت کے امکان کا جائزہ لینا چاہتے تھے‘ لیکن جیسا کہ بعد کے حالات نے ثابت کیا‘ بھٹو صاحب نے کنونشن لیگ میں ایک فارورڈ گروپ تشکیل دینے کا ارادہ ترک کر دیا اور ایوب خان کی کابینہ سے علیحدگی کے دو سال بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
کنونشن لیگ میں فارورڈ گروپ بنانے اور اس کی قیادت کے ذریعے ملکی سیاست میں حصہ لینے کے ارادے کو ترک کرنے کی غالباً وجہ یہ تھی کہ کنونشن لیگ میں نمایاں سیاست دانوں کا کوئی گروپ ایوب خان کے خلاف بغاوت میں ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ باقی سیاسی جماعتوں‘ جن میں پاکستان مسلم لیگ (کونسل) ‘ جماعتِ اسلامی‘ نیشنل عوامی پارٹی اور اسلام لیگ شامل تھیں‘ نے متحدہ اپوزیشن پارٹیز (COP) کی چھتری تلے ایوب خان کے بالواسطہ انتخابات‘ بی ڈی سسٹم اور صدارتی نظام پر مبنی حکومت کے خلاف تحریک چلا رکھی تھی‘ لیکن بھٹو کی ان میں سے کسی میں بھی شمولیت کی گنجائش نہ تھی‘ کیونکہ ان سب پارٹیوں کا متفقہ مطالبہ 1956 کے آئین کی بحالی تھا‘ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بصیرت پاکستان کی سیاست میں 1956 کے آئین سے کہیں آگے کے محرکات کو دیکھ رہی تھی۔ (جاری)