"DRA" (space) message & send to 7575

امریکہ‘ چین اور پاکستان …(2)

بین الاقوامی سیاسی امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ جس طرح گزشتہ یعنی بیسویں صدی کا دوسرا نصف حصہ امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سیاسی‘ نظریاتی‘ سائنسی اور عسکری شعبوں میں شدید محاذ آرائی (کولڈ وار) سے جانا جاتا ہے‘ اسی طرح 21ویں صدی امریکہ اور چین کے مابین کولڈ وار سے پہچانی جائے گی بلکہ بعض ماہرین کے نزدیک یہ سرد جنگ شروع ہو چکی ہے اور اس کے اہم ایشوز ہیں: امریکہ اور چین کے مابین تجارتی تنازعات‘ امریکہ کی طرف سے چین میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے مسئلے کو اچھالنا‘ امریکہ کی نظر میں چین کی دفاعی قوت میں غیرمعمولی اضافہ‘ چین کی طرف سے ہانگ کانگ میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف سخت اقدام‘ امریکہ کی جانب سے چین پر کورونا وائرس (کووڈ19)کو دنیا بھر میں پھیلانے کا الزام۔ (چین نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی‘ اور اسے ٹرمپ کی غیرذمہ دارانہ پالیسی قرار دیا)۔ بحرِہند‘ جنوبی چین پر چین کے دعووں کی امریکہ کی طرف سے مخالفت‘ چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں تحریک کے خلاف چین کے اقدامات اور سی پیک کی امریکہ کی طرف سے مخالفت‘ بھی چین امریکہ سرد جنگ کے اسباب بتائے جاتے ہیں۔
بحرالکاہل اور جنوب مشرقی ایشیا کا خطہ 1950 کے عشرے سے ہی امریکہ اور چین کے مابین مخاصمت کا مرکز رہا ہے‘ مگر اب اس میں جنوبی ایشیا اور بحرہند کوبھی شامل کر لیا گیا ہے کیونکہ گزشتہ دودہائیوں سے چین نے جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں قریبی تعلقات قائم کررکھے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال سی پیک ہے جو اصل میں پاک چین دوطرفہ معاہدے پر مبنی ہے‘ لیکن چین اور پاکستان نے خطے کے دیگر ممالک‘ جن میں بھارت‘ افغانستان‘ ایران شامل ہیں‘ کو بھی شریک ہونے کی دعوت دے رکھی ہے۔ سی پیک قدیم شاہراہ ریشم کی بحال کیلئے چین کے ایک بڑے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہے۔ بی آر آئی منصوبہ چین نے 2013-14 میں شروع کیا تھا اور اس کے تحت تقریباً 1.2 ٹریلین امریکی ڈالرز کے خرچ سے دنیا بھر کے ممالک کو تجارتی‘ ثقافتی اور اقتصادی طور پر آپس میں جوڑنے کیلئے سڑکوں‘ ریلویز اور تیل و گیس کی پائپ لائنوں کے بہت بڑے منصوبے تعمیر کیے جائیں گے۔ امریکہ کی نظر میں یہ منصوبہ دنیا پر غلبہ پانے کی چینی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ سی پیک اس بڑے منصوبے کا ایک حصہ ہے‘ اور چونکہ پاک امریکہ تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے میں دونوں ملکوں کے مابین اختلافات کی وجہ محض افغانستان کی موجودہ صورتحال پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی ہی نہیں بلکہ چین‘ جسے امریکہ اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے‘ کیساتھ پاکستان کے قریبی سیاسی‘ معاشی اور قومی تعلقات پر بھی امریکہ خوش نہیں‘ اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دونوں یعنی امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
قدرتی طور پر پاکستان میں امریکہ کے رویے پر عوام میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی حال ہی میں ایک بیان میں اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس رویے کو انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا۔ پاکستان اور چین کے مابین قریبی تعلقات اور دوستی پر امریکی اعتراضات کوئی نئی بات نہیں۔ 1960 کی دہائی میں جب پاکستان اور چین کے مابین سرحدوں کے تعین اور اسلام آباد بیجنگ رابطے بڑھانے کے حوالے سے پیشرفت ہوئی تو امریکہ کی طرف سے سخت رد عمل آیا۔
1970 کی دہائی کے آغاز میں جب امریکہ اور چین کے مابین تعلقات بحال ہوئے تو پاک امریکہ کے تعلقات بھی بہتر ہوگئے۔ اس کا مظاہرہ 1971 کی جنگ میں امریکہ کے پاکستان کی طرف جھکائو اور ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں کے نتیجے میں 1974 میں پاکستان کو امریکی اسلحے اور ہتھیاروں کی سپلائی کی بحالی کی صورت میں ہوا۔ 1990 کی دہائی میں پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی اور پاکستان پر امریکی پابندیوں کے نفاذ کا تعلق پاک چین دوستی سے نہیں بلکہ پاکستان کے جوہری پروگرام سے تھا‘ لیکن اب جبکہ چین امریکہ کی نظر میں دنیا کے دیگر خطوں کے علاوہ جنوبی ایشیا میں بھی اس کے مفادات کیلئے خطرہ بن چکا ہے‘ پاک امریکہ تعلقات ایک دفعہ پھر دبائو کا شکار ہیں۔ پاکستان کیلئے یہ صورتحال مشکل ہے‘ کیونکہ ہمارے لیے امریکہ سے بھی اچھے تعلقات اور قریبی تعاون ضروری ہے۔
اگرچہ دنیا میں امریکہ کو چیلنج کرنے والے کئی طاقت کے مراکز پیدا ہو چکے ہیں‘ لیکن امریکہ اب بھی عسکری اور اقتصادی لحاظ سے دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے‘ اور اسی بنا پر عالمی سطح پر غالب سیاسی‘ معاشی اور عسکری اثرورسوخ کا مالک ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر کوئی ملک حتیٰ کہ چین بھی امریکہ کے ساتھ محاذآرائی نہیں چاہتا۔ پاکستان کیلئے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات اور تعاون تاریخی لحاظ سے نہیں‘ بلکہ سیاسی‘ ثقافتی‘ اقتصادی اور تجارتی لحاظ سے بھی نہایت اہم ہیں۔ اس وقت امریکہ پاکستانی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ مختلف قدرتی آفات کے موقع پر اس وقت بھی سب سے زیادہ عطیہ دینے والا ملک امریکہ ہی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ کی مرضی کے بغیر عالمی اقتصادی اداروں سے قرضہ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود پاکستان چین کے ساتھ تعلقات کے مسئلے پر ہر قیمت پر امریکی دبائو کے خلاف مزاحمت کرے گا‘ اور اگر امریکہ اپنے اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کرے گا تو بلا کسی شک و شبہ کے پاکستان کا فیصلہ چین کے حق میں ہو گا‘ لیکن میرا خیال ہے کہ ایسی نوبت نہیں آئے گی۔ اس کی تین وجوہات ہیں: امریکہ اور مغربی تجزیہ کاروں کی چین امریکہ سرد جنگ کی باتوں کا تعلق پروپیگنڈے سے زیادہ اور حقیقت سے کم ہے‘ مثلاً اب تک چین نے کسی موقع پرکسی خطے میں امریکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا‘ بلکہ امریکی اشتعال انگیزیوں کے مقابلے میں اعتدال اور ضبط سے کام لیا ہے۔ اس کی مثال بحرِ جنوبی چین میں‘ چین کو اطلاع دیئے بغیر امریکہ کی طرف سے جنگی بحری جہاز داخل کرنے کا حالیہ واقعہ ہے۔ چین نے اس پر احتجاج تو کیا‘ لیکن جوابی کارروائی نہیں کی۔ سوویت یونین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ (1945-1990) کے برعکس امریکہ اور چین اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگرچہ امریکی تجارتی خسارہ دونوں ملکوں کے مابین تنازع کا ایک بڑا سبب ہے‘ مگر سابق صدر ٹرمپ کے دور میں چین نے امریکہ سے درآمدات میں اضافہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کرکے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ تیسرے‘ چین نے کبھی پاکستان سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو کم کرنے کا‘ امریکہ سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ نہیں کیا‘ بلکہ علاقائی امن و استحکام کی خاطر اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں چین نے پاکستان اور امریکہ کے مابین قریبی اور مثبت تعاون کی حمایت کی ہے۔ یہاں تک کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کی موجودگی کی چین نے کبھی مخالفت نہیں کی‘ البتہ وہ کسی ملک کو ساتھ ملا کر چین کے خلاف امریکہ کے جارحانہ عزائم کا مخالف ہے۔ دنیا بھر میں‘ یہاں تک کہ یورپ میں بھی‘ چین کی صلح جویانہ اور اعتدال پر مبنی ڈپلومیسی کو پسند کیا جا رہا ہے۔ کورونا وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے چین نے جس طرح دنیا کے 80 سے زائد ممالک کو ویکسین اور طبی عملہ بھیج کر مدد کی ہے‘ اس سے چین کے بارے میں دنیا بھر میں خیرسگالی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماضی کی طرح چین کے خلاف امریکہ کی اشتعال انگریز پالیسی چین کی انسانیت پر مبنی ڈپلومیسی کی وجہ سے ناکام ہوگی‘ اور پاکستان جیسے ملک کو چین یا امریکہ کے مابین انتخاب کرنے کے مشکل امتحان سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ پاکستان چین اور امریکہ سے بیک وقت باہمی تعاون پر مبنی تعلقات قائم رکھ سکتا ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں