سندھ حکومت نے کورونا وائرس کے نئے مریضوں کی تشویشناک حد تک بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر جونہی لاک ڈائون کا اعلان کیا‘ پی پی پی کے سیاسی مخالفین نے تنقید کی توپوں کے منہ کھول دیئے۔ ایم کیو ایم کا خاص طور پر وہ دھڑا جو پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت میں شامل ہے‘ شروع سے ہی کراچی میں لاک ڈائون کا مخالف رہا ہے‘ لیکن وزیر اعظم عمران خان سے لے کر گورنر سندھ عمران اسماعیل تک کئی لوگوں کی نظر میں سندھ حکومت کا یہ اقدام ناقابلِ قبول ہے کیونکہ اس کے ذریعے ملکی معیشت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ کم و بیش چار وفاقی وزرا نے سندھ حکومت کے اس اقدام کوتنقید کا نشانہ بنایا۔ تنقید کرنے والوں میں وزیر اقتصادی منصوبہ بندی اسد عمر‘ جو این سی او سی کے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں‘ بھی شامل ہیں‘ حالانکہ ان کا اپنا ایک بیان ریکارڈ پر ہے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کو روکنے کے لیے سندھ حکومت نے جو لاک ڈائون نافذ کیا تھا‘ اس نے ملک کے باقی حصوں میں اس مہلک بیماری کو روکنے میں بہت مدد فراہم کی تھی۔ سندھ حکومت کے اس اقدام کی تقلید کرتے ہوئے باقی صوبوں نے بھی مارچ 2020 میں مکمل لاک ڈائون نافذ کر کے اپنے شہروں اور دیہاتوں میں وائرس کے پھیلائو کو روکنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کر لی تھی۔
صوبوں کی جانب سے یہ اقدام این سی او سی کے کسی فیصلے کی روشنی میں نہیں کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے وبا کی صورت میں تیزی سے پھیلتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے از خود یہ فیصلہ کیا تھا۔ انہی دنوں وزیر اعظم عمران خان نے ایک بیان میں خود فرمایا تھا کہ صوبے اپنے حالات کے مطابق از خود فیصلے کر سکتے ہیں۔ سندھ حکومت کے حالیہ اقدام کے تناظر میں وزیر اعظم کا یہ بیان درست ہے کہ لاک ڈائون کی صورت میں سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ مزدوروں اور غریب لوگوں کو بھوک اور غربت سے بچائیں‘ لیکن انسانی زندگی کے تحفظ کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔ پاکستان کا اپنا تجربہ یہ ہے کہ لوگ سختی کے بغیر ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کرتے۔
لاک ڈائون دنیا بھر میں وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مؤثر ترین طریقہ تسلیم کیا گیا‘اور اسے ہر ملک میں آزمایا گیا۔ اس لئے سندھ حکومت کی جانب سے لگائے جانے والے لاک ڈائون کی مخالفت ناقابلِ فہم ہے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ نہ تو مکمل اور نہ ہی طویل لاک ڈائون ہے بلکہ اس میں متعدد شعبوں اور صنعتوں کو استثنا دیا گیا ہے‘ مثلاً برآمدی صنعتی کارخانے کھلے رہیں گے۔ گروسری‘ بیکری‘ پھل‘ سبزی‘ گوشت‘ دودھ اور دہی کی دکانیں کھلی رہیں گی۔ ریستوران مکمل طور پر بند نہیں ہوں گے‘ صرف ان ڈور اور آئوٹ ڈور ڈائننگ پر پابندی ہے لیکن ٹیک اوے کی رات کے بارہ بجے تک اجازت ہے۔ موٹر سائیکل پر دو سواریوں کی پابندی کا اعلان کیا گیا تھا‘ مگر صوبائی حکومت نے اس کو ختم کرکے صرف محرم کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ اسی طرح گاڑی میں دو سے زیادہ اشخاص کے بیٹھنے پر بھی پابندی کا اعلان کیا گیا تھا‘ لیکن حکومت نے اس حکم کو بھی واپس لے لیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے فوری‘ مکمل اور پندرہ دن کے لیے لاک ڈائون پر اصرار کیا تھا‘ عوام کی مشکلات کے پیش نظر محدود لاک ڈائون کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔
دیہاڑی دار مزدوروں کی بات کرنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ بڑے شہروں میں ایسے مزدوروں کا 95 فیصد تعلق سیزنل لیبر سے ہے‘ جو ہر عید پر بڑے شہروں سے دور اپنے اپنے علاقوں کو سدھار جاتے ہیں۔ انہیں شہروں میں پوری تعداد میں واپس مزدوری کے لیے آنے میں 15 سے30 دن لگ جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے سال بھر کے بعد اپنے بیوی بچوں‘ رشتے داروں اور دوستوں کے ہمراہ عید منانی ہوتی ہے۔ بقر عید‘ جو کہ عیدالفطر کے مقابلے میں ایک دن کے بجائے تین دن پر محیط ہوتی ہے‘ سے لطف اندوز ہونے کے لیے بے چارے پردیسی اور بھی زیادہ اپنے گھروں میں وقت گزارتے ہیں۔ پھر اسی موقع پر انہیں کئی شادی بیاہ کی تقریبات بھی نمٹانا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید کو تین ہفتے ہونے کو ہیں‘ لیکن بڑے شہروں میں سیزنل لیبر ابھی تک پوری طرح واپس نہیں آئی۔ سندھ حکومت نے 8 اگست تک جزوی طور پر لاک ڈائون لگایا ہے اور عوام کو یقین دلایا ہے کہ اس کے بعد لاک ڈائون کے تحت پابندیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ اگست کے پہلے ہفتے میں لاک ڈائون کی وجہ سے عوام کے تمام طبقے متاثر ہوں گے‘ مگر شہروں میں کام کی تلاش میں دیہاڑی دار مزدوروں کی متاثرین کی تعداد کم ہو گی کیونکہ وہ کم از کم ایک ماہ بعد شہروں کا رخ کریں گے۔
پاکستان بھر میں کورونا وائرس کی وبا کی چوتھی لہر نے جس شدت کے ساتھ ملک کے ہر حصے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے‘ اس کی روشنی میں سندھ حکومت کا صوبے‘ خاص طور پر کراچی میں لاک ڈائون نافذ کرنے کا فیصلہ نہ صرف بروقت بلکہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں مثبت کیسز کی اوسط شرح (8.8 فیصد) کے مقابلے میں کراچی میں 23 فیصد سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔ وفاقی اور صوبائی‘ دونوں حکومتوں کی اس طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور دیگر طبی ماہرین فوری اور موثر اقدامات پر زور دے رہے تھے۔ سندھ کی صوبائی حکومت بھی اس سلسلے میں اپنے خدشات کا اظہار کر رہی تھی کیونکہ وبا میں مبتلا ہونے والے نئے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافے کا رجحان عید سے پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ 18 جولائی کو صوبائی حکومت کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے کراچی میں پریس کانفرنس میں خبردار کیا تھا کہ صوبائی دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کورونا وبا بہت خطرناک حد تک پھیل چکی ہے اور صرف دس دن کے اندر اس میں مبتلا مریضوں کی شرح 8.5 سے 23.12 فیصد تک بڑھ چکی ہے‘ صورت حال بڑی تیزی کے ساتھ خراب ہو رہی ہے اور ڈر ہے کہ اگر فوری اور موثر اقدامات نہ کئے گئے تو حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی سندھ حکومت کے خدشات سے اتفاق کرتے ہوئے صوبے‘ خصوصاً کراچی میں 15 دن کیلئے مکمل لاک ڈائون کی سفارش کی تھی۔ پھر سندھ حکومت نے جلد بازی سے اجتناب کرتے ہوئے صوبے میں باقی سٹیک ہولڈرز‘ خصوصاً تاجر برادری کو اعتماد میں لینے کیلئے بات چیت کے کئی سیشن منعقد کئے تھے۔ کراچی کے تاجر‘ صنعت کار اور کاروباری طبقہ لاک ڈائون کے مکمل خلاف تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ اگر حکومت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تو کاروباری طبقے اور اس سے وابستہ سینکڑوں خاندانوں کو پالنے والے ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار ہونے سے بچایا جائے۔
تاجر برادری کا مطالبہ اور موقف بالکل جائز ہے‘ اور حکومت خواہ وہ وفاقی ہو یا صوبائی‘ اس کا فرض ہے کہ لاک ڈائون سے متاثر ہونے والے غریب مزدوروں کو بے روزگاری اور بھوک سے بچائے‘ لیکن چونکہ صوبائی حکومت کے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں‘ اس لیے وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ وہ لاک ڈائون سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کو کم سے کم سطح پر رکھنے میں سندھ حکومت کی مدد کرے‘ اور اس میں سیاسی مصلحتوں کو آڑے آنے کی اجازت نہ دے۔ این سی او سی نے کہا ہے کہ وہ صوبائی حکومت کو ایس او پیز نافذ کرنے میں ہر قسم کی مدد فراہم کرنے پر تیار ہے‘ مگر کراچی‘ حیدر آباد اور سندھ کے بڑے شہروں میں صورت حال ایس او پیز کی حد سے بہت آگے جا چکی ہے‘ جیسا کہ میڈیا کے قابلِ اعتماد ذریعے کی طرف سے کہا گیا ہے‘ سندھ حکومت کا فیصلہ وبا کے خطرے کے پیشِ نظر کیا گیا ہے‘ امید ہے اسے سیاسی رنگ دے کر اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔