افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں جو خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے‘ وہ بتدریج درست ثابت ہو رہے ہیں۔ مقامی‘ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر حتیٰ کہ خود امریکہ میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھاکہ عجلت میں کئے گئے انخلا کا فیصلہ افغانستان کو ایک خوفناک جنگ میں جھونک دے گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس‘ جو افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر بحث کیلئے بلایا گیا تھا‘ میں افغان نمائندے نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس کے ملک میں جنگ موجودہ سے بھی زیادہ خوفناک مرحلے میں داخل ہونے والی ہے اور اگر سلامتی کونسل نے اسے رکوانے کیلئے عملی اقدامات نہ کئے تو افغانستان کے شہری علاقوں میں خونریز جنگ چھڑجائے گی‘ جس میں زیادہ جانی نقصان شہریوں کا ہوگا۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان ڈی بورا لائنز (Deborah Lyons) نے صورتحال کی اس سے بھی زیادہ دردناک تصویر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ ایک خطرناک موڑپر پہنچنے والی ہے‘ جس کے نتائج ملک کی سرحدوں سے باہر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر اپنی رپورٹ میں انہوں نے کہاکہ حالیہ دنوں میں ملک کے دیہی علاقوں پر تیزی اور آسانی سے قبضہ کرنے کے بعد طالبان کی شہروں کی طرف پیشقدمی اورسرکاری افواج کے ساتھ جنگ نے افغانستان میں شام اور سابق یوگوسلاویہ میں تباہی اوربربادی جیسا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ صرف پچھلے تین ماہ کے دوران ایک ہزار سے زیادہ افرادہلاک ہو چکے ہیں اوران سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے ہیں‘ جبکہ رہائشی علاقوں‘ ہسپتالوں اور پُلوں کو بیدردی سے تباہ کیا جا رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ عام جنگوں سے مختلف ہے اور اس کی تباہ کاریوں نے حال ہی میں شام میں خانہ جنگی کی یاد تازہ کردی ہے۔ سلامتی کونسل کے ارکان کو ان کی عالمی امن اور سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری یاد کرواتے ہوئے ڈی بورا نے درخواست کی کہ اقوام متحدہ کا یہ بااختیار ادارہ ایک واضح اور غیرمبہم اعلان کرے کہ شہروں میں جنگ فوراً بند کی جائے۔ اس قسم کے اعلان کی فوری اور اشد ضرورت اس لئے ہے کہ افغان ڈیفنس فورسز نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر شہری علاقوں کا نہ صرف دفاع کریں گی‘ بلکہ جن علاقوں پرطالبان نے قبضہ کرلیا ہے‘ انہیں بھی آزاد کروائیں گی۔ اس کے پیش نظر انہوں نے شہری آبادی سے اپیل کی ہے کہ وہ نقصان سے بچنے کیلئے اپنے گھروں سے نکل جائیں کیونکہ طالبان انہیں اپنے دفاع کیلئے بطور ڈھال استعمال کررہے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ نے افغان فوج کی مدد کیلئے بھاری بمبار طیارے بی52 اور سپکٹیٹر افغانستان بھیجنا شروع کر دیئے ہیں۔ ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ پہلے ہی طالبان کے ٹھکانوں کو بمباری کا نشانہ بناتا چلا آ رہا ہے۔ بھاری بمبار طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شمولیت سے جنگ اوربھی تیز ہو جائے گی۔ جوں جوں جنگ کا دائرہ پھیلتا جا رہاہے‘ اس میں غیرافغان ریاستی اور غیرریاستی عناصر کی براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کے اندیشے میں بھی اضافہ ہو رہاہے۔ سلامتی کونسل میں افغان نمائندے نے دعویٰ کیا کہ اس جنگ میں طالبان اکیلے نہیں بلکہ القاعدہ اورداعش کے علاوہ علاقے کے دیگر دہشتگرد اور انتہاپسند گروہوں کے رضاکار ان کی صفوں میں شامل ہیں۔ افغان نمائندے کے دعوے کے مطابق ازبکستان میں سرگرم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے رضاکار افغانستان کے صوبے فرح‘ جوزمان‘ تھاکر اور بدخشاں میں طالبان کے ہمراہ سرکاری فوجوں کے خلاف جنگ میں شریک تھے۔
افغانستان کی یہ پھیلتی ہوئی جنگ ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی اور افغانستان میں عالمی ادارے کے مشن کی سربراہ ڈی بورا سلامتی کونسل میں پیش کردہ اپنی رپورٹ میں اس اندیشے کی طرف واضح اشارہ کر چکی ہیں۔ افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھنے والے ممالک میں بھی اس کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے ان ممالک یعنی پاکستان‘ ایران‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان نے اپنی فوجیں افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر جمع کردی ہیں‘ اگرچہ طالبان نے ہمسایہ ممالک کو یقین دلایا ہے کہ وہ نہ صرف ان سرحدوں کا احترام کریں گے بلکہ اپنی سرزمین کو کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال کی اجازت بھی نہیں دیں گے۔ افغانستان میں جاری جنگ کو ان تمام ممالک میں انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اس کے اثرات سے بچنے کیلئے سرحدی دفاع کو مضبوط کیا جا رہاہے۔ ازبکستان نے روس کے ساتھ مل کر حال ہی میں افغان سرحد کے ساتھ ساتھ فوجی مشقیں کی ہیں۔ ان فوجی مشقوں کا معائنہ کرنے کیلئے روسی فوج کے چیف آف دی جنرل سٹاف جنرل ویلری گرسیموف (Valery Gerasimov) نے مشقوں کے ایریا کا دورہ کیا اوراپنے ریمارکس میں کہاکہ ان مشقوں کا مقصد افغانستان کی طرف سے اٹھنے والے خطرے کا مشترکہ طورپر مقابلہ کرنا ہے۔ گزشتہ ہفتے بحرِ کیسپین کے ساحل پرواقع ترکمانستان کے شہر 'اوازا‘ (Avaza) میں وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کی کانفرنس ہوئی‘ جس کا مقصد افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر وسطی ایشیا کی سلامتی کو لاحق خطرات کا جائزہ لینا اور ضروری اقدامات کرنا تھا۔ یادرہے کہ وسطی ایشیا کی ان ریاستوں کا روس کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہے‘ جس کے تحت روس نے ان ریاستوں کے بیرونی دفاع کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ تاجکستان میں روس سے باہر روس کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ جون میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنے تاجک ہم منصب ایمون علی رحمانوف کے ساتھ ملاقات میں کسی بھی بیرونی خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے روس کی طرف سے مکمل حمایت اور مددکا یقین دلایا تھا۔ پاکستان کیلئے افغانستان میں جنگ کا جاری رہنا خصوصی طور پر باعثِ تشویش ہے کیونکہ پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا ہمسایہ ملک ہے۔ افغانستان کے ساتھ ملنے والی تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی سرحد کے اس پار افغانستان میں رہنے والے پشتونوں کے ساتھ قریبی نسلی‘ ثقافتی‘ لسانی اور خونی رشتے ہیں۔ ان کے علاوہ ابھی تک تیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین پاکستان کے صوبوں کے پی اور بلوچستان میں عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ تقریباً پچاس ہزار پاکستانی اور افغان پشتون پاک افغان سرحد کو پانچ مقامات سے مختلف ضروریات مثلاً تجارت‘ کاروبار‘ علاج معالجہ اور تعلیم کیلئے ہر روز کراس کرتے ہیں۔
ان حالات میں جیساکہ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے‘ پاکستان کے لئے ان میں سے دہشتگردوں کو پہچان کر الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ افغانستان میں اگر طالبان شہروں پر دبائو جاری رکھتے ہیں تو افغان سرکار فوجوں کی اعانت کے لئے امریکی فضائیہ کی طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری ناگزیر ہو جائے گی کیونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر بحث کے پیشِ نظر امریکہ اور نیٹو ممالک کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی بزورِ طاقت قائم کی جانے والی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ مغرب میں بعض حلقے افغانستان میں طالبان کی موجودہ جنگی کارروائیوں کو نسل کشی کا نام دے رہے ہیں۔ امریکہ یہ بھی باربار اعلان کرچکا ہے کہ فوجی انخلا کے باوجود افغان ڈیفنس فورسز کی مدد جاری رہے گی۔ اگر طالبان بین الاقوامی برادری اورخصوصاً سلامتی کونسل کی اپیل پر جنگ بندی پر راضی نہیں ہوتے تو امریکہ اور نیٹو مشترکہ طور پر بلقان میں کوسوو جیسے آپریشن کے تحت طالبان کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔