"DRA" (space) message & send to 7575

افغانستان کی صورتحال اور ہمسایہ ممالک

کابل میں داخل ہونے کے بعد افغان طالبان کی طرف سے مسلسل بین الاقوامی برادری‘ خصوصاً ہمسایہ ممالک کو یہ یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین بیان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے اپنی دوسری پریس کانفرنس میں جاری کیا گیا ہے۔ اس بیان میں طالبان کے اس موقف کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ طالبان نہ تو کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی کو افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی اجازت دیں گے۔
طالبان کی طرف سے اس قسم کے بیانات اور یقین دہانیوں کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ بین الاقوامی برادری‘ خصوصاً ہمسایہ ممالک کو خدشہ ہے کہ اب جبکہ افغانستان میں جنگ ختم ہو گئی ہے‘ تو ان کے ہاں موجود انتہا پسند اور عسکریت پسند تحریکوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے ملکوں میں واپس آ کر ان تحریکوں کی تقویت کا باعث بن سکتے ہیں۔ بین الاقوامی ذرائع کے مطابق اس وقت افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں 20 کے قریب دہشت گرد گروپ اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں‘ جن میں ازبکستان اسلامی موومنٹ‘ ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ اور تحریکِ طالبان پاکستان بھی شامل ہیں۔ طالبان یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ متعدد ممالک کے شہری ان کی صفوں میں شامل ہو کر امریکہ اور افغانستان کی سابقہ حکومت کے خلاف لڑائیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ان ممالک کے خدشات کو دور کرنے کے لیے طالبان کے ترجمان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان غیر ملکی جنگجوئوں کو ان کے ملکوں میں واپس جانے کا موقع نہیں دیا جائے گا‘ لیکن ان یقین دہانیوں کے باوجود ہمسایہ ممالک کے خدشات میں کمی واقع نہیں ہوئی‘ اور وہ طالبان کی حکومت سے ان عناصر کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے زیادہ موثر اور عملی اقدامات کے خواہش مند ہیں۔
افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کے مسئلے کی اپنی ایک تاریخ اور پس منظر ہے۔ اکتوبر 2001 میں امریکہ کی طرف سے افغانستان پر حملے اور طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے کا سبب یہی مسئلہ تھا۔ امریکہ کا الزام تھا کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں پنٹاگون پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اور اس منصوبہ بندی کا ماسٹر مائنڈ القاعدہ کا رہنما اسامہ بن لادن تھا۔ اس وقت امریکہ نے طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے کر دیا جائے تاکہ نائن الیون کے واقعہ میں اس کے ملوث ہونے پر اس کے خلاف مقدمہ چلایا جا ئے‘ لیکن ملا عمر نے صاف انکار کر دیا تھا اور یہی انکار7 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان کے خلاف 20 سالہ جنگ کا باعث بنا تھا۔ فروری 2020 کے دوحہ معاہدے‘ جس کی بنیاد پر افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا عمل میں آیا‘ کا دوسرا اہم نکتہ بھی یہی تھا کہ طالبان آئندہ افغانستان کی دھرتی کو امریکہ یا اس کے کسی بھی اتحادی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان اور امریکہ کے مابین سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دوحہ معاہدے پر دستخط کئے گئے تھے اور ان کی افغان پالیسی سے اختلاف کرنے والے کئی امریکی سفارت کاروں نے اس وقت کہا تھا کہ طالبان کی طرف سے قبول کی جانے والی یہ شرط مبہم ہے اور فریقین اس کی متضاد تشریحات کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996 تا 2001) کے دوران چین‘ روس اور وسطی ایشیا کے ممالک کے علاوہ پاکستان کو بھی شکایت تھی کہ ان ملکوں کے امن و امان اور سلامتی کے خلاف سرگرم بعض گروپ افغانستان کی دھرتی کو استعمال کر رہے تھے‘ اور طالبان کی طرف سے ان تنظیموں کی سرگرمیوں کو نہ صرف نظر انداز کیا جا رہا تھا بلکہ مبینہ طور پر انہیں سہولیات بھی فراہم کی جا رہی تھیں۔
2001 میں طالبان حکومت ختم ہو گئی اور دسمبر 2001 میں معاہدہ بون کے تحت پہلے حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی افغانستان کے صدر منتخب ہوئے‘ مگر افغانستان میں حکومت کی تبدیلی سے ٹرانس نیشنل دہشت گردی میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی بلکہ الٹا اس میں تیزی آ گئی اور دہشت گردی کے علاوہ منشیات اور انسانی سمگلنگ جیسے جرائم میں ملوث لوگ بھی سرگرم عمل ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں حکومت کی رٹ صرف دارالحکومت کابل تک محدود تھی۔ باقی سارا افغانستان یا تو طالبان کے کنٹرول میں تھا یا ٹرانس نیشنل کرائمز (دہشت گردی‘ منشیات اور انسانی سمگلنگ) میں ملوث عناصر کے لیے کھلا میدان تھا۔ ایک اطلاع کے مطابق دہشت گردی‘ انتہا پسندی کے علاوہ افغانستان سے براستہ وسطی ایشیا اور پاکستان منشیات کی سمگلنگ سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ افغانستان کی 20 سالہ طویل جنگ میں منشیات کی سمگلنگ زوروں پر رہی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے نہ صرف دہشت گردی بلکہ افغانستان میں جنگ کو بھی بڑھاوا ملا۔
چین‘ روس اور وسطی ایشیا کی ریاستیں اس انتظار میں ہیں کہ طالبان کب اور کیسے اس لعنت کو ختم کرتے ہیں کیونکہ طالبان نے دارالحکومت کابل اور متعدد دوسرے شہروں پر قبضہ تو کر لیا ہے مگر آبادی پر ابھی انہیں مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوا۔ یہ بھی کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں کہ جنگ کے دوران طالبان کے زیر کنٹرول علاقے افیون کی کاشت کا مرکز رہے اور طالبان نے امریکہ اور کابل انتظامیہ کے خلاف جنگ کی فنانسنگ کے لیے منشیات کی سمگلنگ پر ٹیکس سے حاصل شدہ رقوم کا استعمال کیا۔ اس لیے بین الاقوامی برادری کو ابھی پورا یقین نہیں کہ طالبان اقتدار سنبھالنے کے بعد اتنی جلدی دہشت گردی اور منشیات کے سمگلروں کی سرگرمیوں پر قابو پا لیں گے‘ کیونکہ اشرف غنی کی حکومت کی مکمل شکست کے باوجود تاحال افغانستان میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے‘ جس کا تازہ ترین ثبوت کابل ایئرپورٹ پر گزشتہ روز ہونے والے خود کُش حملے ہیں۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو طالبان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ پچھلے 20 برسوں‘ خصوصاً ان دو دہائیوں کے آخری پانچ برسوں‘ میں افغانستان کی سرزمین سے ان کے خلاف دہشت گردی کی جو کارروائیاں ہوتی رہی ہیں‘ ان کا خاتمہ کریں۔ طالبان پاکستان کے خدشات سے آگاہ ہیں۔ اس لیے انہوں نے پاکستان کو بھی یقین دلایا ہے کہ وہ پاکستان مخالف کسی دہشت گرد تنظیم کو افغانستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاک افغان سرحد کے اس پار سے ہماری فوجی چوکیوں اور عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنانے والی دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی کو مخاطب کرتے ہوئے طالبان نے کہا ہے کہ نئے افغانستان میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ طالبان نے ٹی ٹی پی پر واضح کیا کہ وہ مسلح کارروائیاں بند کر کے پاکستان سے اپنے معاملات طے کریں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے بیانات سے تاثر ملتا ہے کہ حکومتِ پاکستان طالبان کی یقین دہانیوں سے مطمئن ہے اور اسے یقین ہے کہ طالبان ٹی ٹی پی یا کسی بھی دہشت گرد تنظیم یا غیرملکی انٹیلی جنس کو افغانستان میں رہ کر پاکستان کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے‘ لیکن ٹی ٹی پی کا معاملہ اتنا آسان نہیں اور ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ افغان طالبان کا ان پاکستانی طالبان کے بارے میں کیا رویہ ہو گا۔ اس حوالے سے انہیں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان کی جیلوں میں بند ٹی ٹی پی کے رہنمائوں کو افغان طالبان نے رہا کر کے پاکستان کے حوالے نہیں کیا بلکہ ٹی ٹی پی اور پاکستان کے مابین ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ اس پیشکش پر ابھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں