افغانستان میں امریکہ کی سرکردگی میں نیٹو افواج اور طالبان کے مابین 20 سالہ جنگ کے دوران امریکہ اور پاکستان کے مابین سٹریٹیجک پارٹنرشپ تھی‘ جس کے تحت واشنگٹن کو افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کو رسد اور سپلائز کیلئے زمینی اور فضائی راستے فراہم کئے گئے تھے۔ پاکستان اس کے علاوہ دہشتگردی کے خلاف عالمی اتحاد کے رکن کی حیثیت سے امریکہ کا قریبی اتحادی بھی تھا۔ اس کے بدلے میں پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ اور دو طرفہ بنیادوں پر امداد مہیا کی جاتی تھی۔ اگرچہ اس دوران پاکستان پر افغان طالبان خصوصاً حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کے الزامات عائد کئے جاتے رہے اور 'ڈومور‘ کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا؛ تاہم امریکہ افغانستان میں جنگ کیلئے پاکستان کی جیو سٹریٹیجک اہمیت کا معترف تھا۔ اس بنیاد پر پاکستان ان چند ممالک میں شامل تھا‘ جنہیں امریکہ نے نان نیٹو اتحادی کا درجہ دے رکھا تھا۔
اب جیسا کہ افغانستان کی جنگ ختم ہو چکی ہے‘ امریکی افواج افغانستان سے جا چکی ہیں اور طالبان پورے سارے ملک پر قابض ہو چکے ہیں‘ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کی کیا نوعیت اور سمت ہو گی؟ اس ضمن میں مختلف زاویہ نگاہ سے مختلف آرا پیش کی جا رہی ہیں‘ لیکن سرکاری موقف معلوم کرنے کیلئے امریکہ کے مشہور تھنک ٹینک The Stimson Center نے حال ہی میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد محمد خان کو افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد کی صورتحال کے مختلف پہلوئوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل پر اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ پروگرام کی مہمان سنٹر کے سائوتھ ایشیا پروگرام کی نئی ڈائریکٹر الزبتھ تھریلکِلڈ (Elizabeth Threlkeld) تھیں اور ماڈریٹر کے فرائض سنٹر کے سینئرفیلو کرنل ڈیوڈ سمتھ سرانجام دے رہے تھے۔
پروگرام کے آغاز میں ایمبیسیڈر ڈاکٹر اسد نے افغانستان میں طالبان کی برق رفتار پیشقدمی کے سیاق و سباق میں پاکستان کی انٹرا افغان ڈائیلاگ کے ذریعے پُرامن انتقالِ اقتدارکے لیے کوششوں کا ذکر کیا۔ اپنی مختصر لیکن مدلل تقریر میں انہوں نے ان خدشات کو بے بنیاد قرار دیاکہ دوحہ مذاکرات کے موقع پر طالبان نے جو وعدے کئے تھے‘ کابل پر قبضے کے بعد ان کی طرف سے کئے گئے چند اقدامات سے ان وعدوں کی نفی ہوتی ہے‘ مثلاً عبوری حکومت میں قدامت پسند رہنمائوں کی شمولیت‘ نان پشتون لسانی گروپوں اور عورتوں کو نمائندگی دینے میں ناکامی اور خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی۔ ڈاکٹر اسدکا موقف تھا کہ طالبان نے جو وعدے کئے وہ پورے ہوئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے فوجی انخلا کے دوران امریکی افواج پر فائرنگ سے گریز اور 15 اگست کے بعد کابل ایئرپورٹ سے ہزاروں غیرملکی اور افغان باشندوں کی روانگی میں سہولت کاری کی مثال دی۔ کرنل سمتھ نے دو تین سوالات اٹھائے۔ پہلا سوال سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کا کانگریس کے روبرو ایک بیان اور اس پر وزیراعظم عمران خان کے ریمارکس سے متعلق تھا‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں گزشتہ بیس برسوں کے دوران پاکستان کے کردار اور مستقبل کے تقاضوں کی روشنی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کا از سرِ نوجائزہ لے رہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہاکہ اس عرصے میں پاکستان کا کردار ایک جیسا نہیں تھا۔ اس سے ان کی غالباً مراد یہ تھی کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی میں پاکستان نے ممکنہ طورپر سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ سیکرٹری بلنکن کے اس بیان کو وزیر اعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں جاہلانہ قرار دیا‘ جس کی وجہ سے کرنل سمتھ کے مطابق وائٹ ہائوس میں پاکستان کے خلاف سخت ناراضی پائی جاتی ہے۔
کرنل سمتھ کا دوسرا سوال یہ تھا کہ پاکستان کے دعوے کے برعکس امریکہ اور پاکستان کے مابین انسدادِ دہشتگردی پر نقطہ نظر کی یکسانیت نہیں رہی۔ پاکستان اس سے مراد داعش‘ القاعدہ اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں سرگرم دیگر انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی مراد لیتا ہے‘ جبکہ امریکہ اس کارروائی کو حقانی نیٹ ورک اوردیگر دہشتگرد تنظیموں کے خلاف توسیع قرار دینا چاہتا ہے۔ ایمبیسیڈر اسد کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی امریکہ اور پاکستان‘ دونوں باہمی تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘ کرنل سمتھ نے سوال کیا کہ انسدادِ دہشتگردی پر نقطہ نظرکے اس اختلاف کے ساتھ پاک امریکہ تعلقات کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟
ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایمبیسیڈر اسد نے افغانستان میں امریکہ کی مدد کرنے کی وجہ سے دہشتگردوں کے ہاتھوں پاکستان کے بھاری جانی اور مالی نقصان کا ذکر کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کی کہ کوئی دہشتگرد تنظیم کسی دوسرے ملک کے خلاف پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر رہی ہے۔ انٹونی بلنکن کے بیان کے حوالے سے ایمبیسیڈر اسد نے کہا کہ اس سے پاکستان کو مایوسی ہوئی ہے۔ عالمی برادری کو طالبان اور افغانستان کو الگ الگ نہیں سمجھنا چاہئے‘ 40 برسوں کے بعد افغانستان میں قیام امن کا پہلی دفعہ حقیقی موقع پیدا ہوا ہے۔ دنیا کو ایک مستحکم اور پرامن افغانستان کی خاطر طالبان حکومت کی مشکلات پر قابو پانے میں مدد کرنی چاہئے۔
پروگرام میں شامل دیگر حضرات کے سوالات کو مجموعی طور پر پیش کرتے ہوئے مہمان الزبتھ تھریلکلڈ نے کہا کہ طالبان کی عبوری حکومت کی ساخت اور خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی اور طالبان کے سابقہ دور میں نافذ سخت سزائوں کی بحالی کے اعلان پر عالمی برادری میں تشویش پائی جاتی ہے۔ کرنل سمتھ کا خیال تھاکہ طالبان کے اس رویے سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایمبیسیڈر اسد نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں افغانستان کے مسئلے پر پاکستان اور امریکہ کے مابین اختلافات رہے اور آئندہ بھی رہیں گے‘ لیکن پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے ڈس انگیج نہیں ہو سکتے۔ اپنے اس موقف کے حق میں انہوں نے چین‘ روس اور امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کی طرف سے طالبان کو اپنے وعدوں کے مطابق ملک میں ایک Inclusive حکومت اور عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کے احترام کی طرف راغب کرنے کی کوششوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستانی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی اور ترسیلات زرکا سعودی عرب کے بعد ایک بڑا منبع ہے جبکہ تعلیم‘ صحت‘ زراعت‘ آبی وسائل کی مینجمنٹ اورتوانائی کے شعبوں میں دونوں کے مابین اہم تعاون جاری ہے۔ قدرتی آفات کے مواقع پر امداد فراہم کرنے والے ممالک میں امریکہ باقی سب ملکوں سے آگے رہا ہے۔
پروگرام کو سمیٹتے ہوئے مہمان الزبتھ تھریکلڈ نے پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں چند مثبت اشاروں کا ذکر کرتے ہوئے خبردارکیا کہ پاک امریکہ تعلقات پر بداعتمادی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں کیونکہ امریکہ میں یہ تاثر عام ہے کہ طالبان کی کامیابی میں پاکستان نے سہولت کارکا کردار ادا کیا ہے اور اس سلسلے میں کانگریس کے اندرسے سخت بیانات آئے ہیں۔ مستقبل میں پاک امریکہ تعلقات کا بڑی حد تک انحصار دہشتگردی اور انسانی حقوق کے بارے میں طالبان کے رویے میں تبدیلی اور افغانستان کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کو دہشتگردوں سے لاحق خطرے کو کم کرنے میں پاکستان کی کوششوں کی کامیابی پر ہوگا۔