حکومت کو درپیش تمام اندرونی اور بیرونی چیلنجز میں سے اگر کوئی سب سے زیادہ سنگین اور حل کیلئے فوری توجہ کا مستحق ہے، تو وہ مہنگائی ہے‘ جس میں حکومت کے دعووں کے برعکس کمی کے بجائے روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے مگر وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اراکین اور حکام اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس کی مختلف توجیہات پیش کر رہے ہیں، لیکن ان توجیہات سے عوام کا پیٹ نہیں بھرا جا سکتا اور نتیجہ یہ ہے کہ کوئی رائے عامہ کا سروے ہو یا میڈیا رپورٹ، عوام کے سارے طبقے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نالاں ہیں۔ حکومت اس ایشو کو جس انداز سے نظر انداز کر رہی ہے اور عوام کو آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی سے نجات دلانے کے بجائے اس کی ذمہ داری اپنے سیاسی مخالفین پر ڈال رہی ہے، اس کی کسی سابقہ حکومت میں مثال نہیں ملتی۔
آغاز میں حکومت مہنگائی کے مسئلے کو سرے سے تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں تھی۔ اس کے نزدیک مہنگائی دراصل حکومت کے خلاف عوام میں بے چینی پیدا کرنے کیلئے، اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے، چنانچہ اعلیٰ ترین سطح پر فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی کابینہ کے ارکان، مشیران‘ معاونین اور ترجمان عوام کے پاس جائیں اور انہیں سمجھائیں کہ یہ ''پرانے پاکستان‘‘ کی نمائندہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کا ''نئے پاکستان‘‘ کے خلاف چھوڑا ہوا ایک شوشہ ہے جس کا مقصد حکومت کو بدنام کرکے سٹیٹس کو (status Quo) برقرار رکھنا ہے‘ لیکن عوام سے براہ راست رابطے اور مہنگائی پر مکالمے سے وزیروں اور مشیروں کو جو تجربہ حاصل ہوا، اس کے بعد انہیں اس اپروچ کو ترک کرنا پڑا اور بیروزگاری و مہنگائی کے شکار لوگوں کا براہ راست سامنا کرنے کے بجائے میڈیا پر اس اہم مسئلے پر اپنی تھیوریز پیش کرنا شروع کر دیں۔
ان تھیوریز کا اگر جائزہ لیا جائے تو حکومت کی گزشتہ تین برسوں کی کارکردگی کو سماجی اور معاشی مسائل حل کرنے کیلئے گورننس کے ایک نادر ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس ماڈل کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ تاثرات حقیقتوں سے زیادہ اہم ہیں۔ اس کو سادہ زبان میں یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ حقیقت سے کچھ بھی ہو اس کی اپنی مرضی کے مطابق پرسیپشن پیدا کرکے لوگوں کو حقیقت کے برعکس سوچنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور اس کام کو سرانجام دینے کیلئے اطلاعات کے ذرائع کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ عالمی بالادستی کی خواہشمند قومیں یہی حربہ استعمال کر رہی ہیں‘ یعنی انیسویں صدی کے برعکس قوموں کے درمیان اب علاقوں اور قدرتی وسائل مثلاً تیل، گیس، معدنیات وغیرہ پر براہ راست قبضہ کرنے کے بجائے ذرائع ابلاغ اور اطلاعات کو کنٹرول کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور جو قوم بہتر ٹیکنالوجی کے ذریعے ذرائع اطلاعات پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے‘ وہی ورلڈ پاور کہلانے کی مستحق ہے۔
اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے عوام کو درپیش حقیقی مسائل کی ایسی پرسیپشن پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ متاثرین یا تو ان مسائل کو بھول جائیں یا ان کی ذمہ داری سیاسی مخالفین پر ڈال دیں‘ مثلاً ایک وفاقی وزیر کا اصرار ہے کہ مہنگائی کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں بلکہ سابقہ (پی پی پی اور ن لیگ) حکومتیں ہیں جن کی کرپشن سے موجودہ مہنگائی نے جنم لیا۔ اس دعوے کی انسپائریشن براہ راست سربراہ حکومت کے اس بیان سے لی گئی ہے جس میں کئی بار کہا گیا کہ اعلیٰ ترین سطح پر کرپشن اور منی لانڈرنگ ملک میں مہنگائی کی سب سے بڑی اور براہ راست وجہ ہے۔ چند وفاقی وزرا ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک مہنگائی کے ذمہ دار اصل میں عوام ہیں جو دو روٹی کے بجائے ایک روٹی کھانے اور چینی کے دو چمچوں یا ایک چمچے سے بالترتیب ایک چمچ یا آدھا چمچ استعمال کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اس بیان سے ڈھائی سو سال قبل انقلاب فرانس کے دور کا واقعہ یاد آ جاتا ہے‘ جب ملکہ نے احتجاجی مظاہرین کو تجویز دی کہ بھوک مٹانے کیلئے اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کھائیں۔ ایوب خان کے دور میں ملک میں گندم کی قلت پر کنٹرول کیلئے، لوگوں کو گندم کے بجائے آلو کھانے کی طرف راغب کرنے پر غور کیا گیا تھا۔
حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے اس لئے حکومت کے بس سے باہر ہے‘ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد عالمی معیشت میں کساد بازاری سے بیروزگاری و مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے لیکن کورونا وائرس سے معاشی طور پر متاثر ہونے والے ان ممالک نے بہتر حکمت عملی کے ذریعے ان چیلنجز پر جلد قابو پا لیا اور معاشی بحالی کے بعد ان میں مہنگائی اور بیروزگاری کی سطح نیچے آنا شرع ہو گئی ہے۔ ان میں پاکستان کے کچھ ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں۔ حکومت کو سوچنا چاہیے اور اس سلسلے میں لوگوں کو تسلی بخش وضاحت پیش کرنا چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کی شرح نمو سب سے کم کیوں ہے؟ اسی وجہ سے مہنگائی کم نہیں ہو رہی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں یعنی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت کے جائزے کی بنیاد پر جو اعدادوشمار پیش کئے ہیں، ان کے مطابق آئندہ مالی سال میں بھی ملک کی معیشت کم شرح نمو اور زیادہ افراط زر کی وجہ سے زیرِ بار رہے گی۔
ان معاشی اشارات کی روشنی میں یہ امید کم ہی کی جا سکتی ہے کہ عوام کو مہنگائی سے نجات ملے گی، لیکن حکومت کی سوچ الگ نظر آتی ہے۔ اتنی مہنگائی کے باوجود اگر پارٹی کو آزاد کشمیر میں اور سیالکوٹ کے ایک ضمنی الیکشن میں دوسری سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ مہنگائی سے وزیر اعظم کی پاپولر سپورٹ کم نہیں ہوئی بلکہ پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری کی سطح موجودہ سطح سے زیادہ ہو تب بھی عمران خان ملک کے سب سے پاپولر لیڈر رہیں گے۔ اس کی وجہ سے پی ٹی آئی کے نزدیک اپوزیشن خصوصاً پی پی پی اور نون لیگ کے خلاف اس کی کامیاب میڈیا مہم ہے۔ تین برسوں سے احتساب کا عمل جاری ہے۔ دونوں پارٹیوں کی ٹاپ لیڈرشپ کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کا کوئی کیس ثابت نہیں ہو سکا مگر پی ٹی آئی کی قیادت سمجھتی ہے کہ میڈیا کے ذریعے نواز شریف، زرداری اور شہباز شریف کو عوام کی نظروں میں ''کرپٹ اور منی لانڈرنگ کے مجرم‘‘ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ملک میں خان صاحب کا کوئی متبادل نہیں‘ اس لئے مہنگائی میں جتنا مرضی اضافہ ہو، لوگوں کو شکایتیں بھی بڑھتی جائیں اور اپوزیشن شوق سے اس پر سیاست کرے لیکن عمران خان کی ''مقبولیت‘‘ پر اثر نہیں پڑے گا۔ ویسے بھی وزیر اعظم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ عوام کی قربانی کے بغیر ''نئے پاکستان‘‘ کی تعمیر ممکن نہیں۔ مہنگائی کو برداشت کرنا بھی ایک قربانی ہے اور مزید مہنگائی اور بیروزگاری کی صورت میں عوام کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کیلئے حکومت کی نااہلی اور بیڈ گورننس کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس کے ذمہ دار خود عوام ہیں۔ کرپٹ، بدعنوان اور مجرم حکومت کے تحت ایک دہائی چپکے سے گزارنے سے جو گناہ ان سے سر زد ہوا‘ آخر اس کی سزا تو ملنی چاہیے۔