ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ نہ صرف حکومت بلکہ ملکی حالات کو غیر جانبدارانہ زاویے سے دیکھنے والے مبصرین بھی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو سیاسی طور پر مردہ قرار دے چکے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ مارچ میں پیپلز پارٹی کی علیحدگی سے پی ڈی ایم کو جو دھچکا لگا تھا، اس سے اپوزیشن کا یہ اتحاد سیاسی طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ اگرچہ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن اور ''ن‘‘ لیگ کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم کو فعال بنانے کی کوشش کر رہے تھے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن میں دوسری سب سے بڑی جماعت‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ جس کی ملک کے دوسرے سب سے اہم صوبے میں حکومت بھی ہو‘ کے بغیر ایسی احتجاجی تحریک نہیں چلائی جا سکتی جو موثر اور کامیاب ہو۔
پی ڈی ایم کو بھی اس حقیقت کا احساس ہے‘ اسی لئے نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو ہدایت کی گئی تھی کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے بعض مواقع پر اشتعال انگیز اور براہ راست تنقید پر مبنی بیانات کے باوجود جوابی الزامات کی پالیسی اختیار نہ کریں؛ تاہم نون لیگ میں ایک دھڑا ایسا موجود ہے جو پی پی پی کی موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے، اس کی پی ڈی ایم میں عدم شمولیت موخرالذکر کیلئے سیاسی لحاظ سے مفید سمجھتا ہے کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل باقی جماعتوں کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی موجود ہے اور وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ یکسوئی سے اپنا ٹارگٹ حاصل کر سکتی ہیں۔ پی ڈی ایم کے اندر اس سوچ کے حامل گروپ کی نمائمدگی ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کرتے ہیں‘ جنہوں نے ایک سے زیادہ مواقع پر اعلان کیا کہ اس نظریاتی ہم آہنگی اور یکسوئی کی بنیاد پر پی ڈی ایم میں شامل باقی جماعتیں وقت آنے پر ایک انتخابی اتحاد میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی بھی احسن اقبال کے اس مؤقف سے متفق ہیں۔ اسی لئے انہوں نے متعدد بار اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ پی پی پی کے الگ ہونے کے بعد پی ڈی ایم پہلے سے زیادہ متحد اور مضبوط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی پی پی اور اے این پی کے الگ ہونے کے بعد پی ڈی ایم میں کوئی نئی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی بلکہ ان دونوں جماعتوں کے نکل جانے کے بعد پی ڈی ایم میں فیصلہ سازی سہل ہو گئی ہے اور ہر فیصلہ متفقہ اور بغیر کسی تحفظات کے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران مخالفین کی طرف سے اس کے مستقبل کے بارے میں جو پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں، پی ڈی ایم نے انہیں غلط ثابت کر دیا ہے۔ فیصل آباد میں اس کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے سیاسی حریفوں کے دعووں کے برعکس پی ڈی ایم ''ایک مردہ گھوڑا‘‘ اور ''چلا ہوا کارتوس‘‘ نہیں بلکہ اس میں اب بھی جان، توانائی اور مخالفین کی نیندیں حرام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
فیصل آباد کے کامیاب جلسے سے حوصلہ پاکر پی ڈی ایم نے احتجاجی جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ پی ڈی ایم کے ایک رہنما مولانا حمداللہ کے مطابق مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا یہ سلسلہ دو ہفتے کیلئے شروع کیا گیا ہے‘ لیکن اس میں توسیع ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا یہ احتجاجی پروگرام طویل المیعاد بنیادوں پر شروع کیا گیا ہے اور وہ اسے اپنے حتمی ٹارگٹ یعنی حکومت کی تبدیلی اور مڈٹرم انتخابات کے حصول تک جاری رکھے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے موجودہ احتجاجی تحریک کے بارے میں حال ہی میں جو بیان دیا‘ اس میں اس جانب اشارے نظر آتے ہیں‘ مثلاً انہوں نے کہاکہ مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف پی ڈی ایم نے جلسوں، ریلیوں اور دھرنوں پر مشتمل جس احتجاجی تحریک کا آغاز کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس سے وہ مقصد بھی حاصل ہو جائے جس کے حصول کیلئے ''لانگ مارچ‘‘ ضروری سمجھا جا رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا اب بھی سمجھتے ہیں کہ جلسے، جلوسوں اور دھرنوں سے حکومت کو گھر بھیجا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں پی ڈی ایم کے سربراہ کی یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے جلسے، جلوس اور احتجاجی مظاہرے کسی حکومت کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتے کیونکہ حکومت میں تبدیلی لانے کے یہ قانونی اور آئینی طریقے نہیں ہیں اور اگر کوئی پارٹی یا پارٹیوں کا اتحاد غیرآئینی اور غیرقانونی طریقوں سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا تو حکومت کو اس کو ناکام بنانے کیلئے ہر اختیار استعمال کرنے کا حق حاصل ہے‘ البتہ عوام کے تمام طبقے اگر سڑکوں پر آ جائیں اور احتجاج ایک عوامی تحریک کا رخ اختیار کرے تو بات مختلف ہوگی۔ ایوب خان کے سیاسی نظام کی مخالفت کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کی طرف سے 1962ء میں صدارتی نظام کے نفاذ سے ہی شروع ہو گئی تھی‘ لیکن جب 1968ء میں طلبا کے ساتھ مزدور، تاجر طبقہ، اساتذہ، وکیل اور نچلے درجے کے سرکاری ملازم بھی ایوب خان کے غیرمنصفانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو مارچ 1969ء میں ایوب خان کو مستعفی ہوکر اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرنا پڑا۔
پی ڈی ایم نے جلسوں اور جلوسوں کی حد تک نمایاں کامیابی حاصل کی ہے لیکن اسے عوامی تحریک کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ حقیقت پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں‘ جلوسوں کے پہلے دور میں واضح ہوگئی تھی کیونکہ ان جلوسوں میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت پارٹیوں کے کارکنوں یا ہمدردی رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ طبقات جن کی شرکت سے احتجاج ایک تحریک میں بدل جاتا ہے، ابھی پی ڈی ایم کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ عوام کی اکثریت حکومت سے خوش ہے یا حالات پر مطمئن ہیں۔ جیسا کہ تازہ ترین عوامی سروے سے ظاہر ہوتا ہے‘ عوام کی اکثریت حکومت کی پالیسیوں کی سمت کو غلط سمجھتی ہے اور اسے مہنگائی‘ افراط زر اور بیروزگاری کی ذمہ دار قرار دیتی ہے، لیکن پی ڈی ایم کی تحریک کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں۔ حکومتی اراکین اور پی ٹی آئی کے رہنما اگر یہ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی تازہ ایجی ٹیشن سے بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں تو وہ ٹھیک کہتے ہیں، مگر انہیں فکرمند ہونے کی جتنی اب ضرورت ہے‘ پہلے کبھی نہ تھی۔ اس لیے کہ معاملات کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے میں ناکامی سے حکومت کی پاپولیریٹی کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا ہے، مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے، شہروں میں گندگی کے ڈھیر ہیں، جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رشوت، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری اور سمگلنگ عام ہے لیکن حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔
پہلے سمجھا جا رہا تھا کہ قومی سطح پر لیڈرشپ کیلئے عمران خان کا کوئی متبادل نہیں۔ اب اس سوچ میں نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ دوسرے حلقوں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ ماضی کا تجربہ سامنے رکھتے ہوئے پی ڈی ایم اگر اپنی احتجاجی تحریک کا مومینٹم اگلے انتخابات تک جاری رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے۔ اسی وجہ سے اب اس کا فوکس وزیراعظم کے استعفے یا حکومت کو گھر بھیجنے پر نہیں بلکہ ''فوری صاف اور شفاف انتخابات ‘‘ پر ہے۔