"DRA" (space) message & send to 7575

جنوبی اور وسطی ایشیا کے باہمی رابطے

وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے حالیہ دورے کے موقع پر پاک سعودی بزنس فورم کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاک بھارت تعلقات کیلئے مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت اور افادیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس دیرینہ مسئلے کے حل کی صورت میں دونوں ملکوں کو زبردست معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ بھارت، پاکستان اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کے ملکوں کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات قائم کر سکتا ہے اور پاکستان اپنی ہمسائیگی میں واقع دو بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں سے استفادہ کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست ہے۔ پاکستان کے راستے افغانستان اور ایران‘ اور اس سے آگے وسطی اور مغربی ایشیا کے ملکوں کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط قائم کرنا بھارت کا پرانا خواب ہے اور اسے حقیقت میں بدلنے کیلئے ماضی میں بھارت نے متعدد بارکوشش بھی کیں۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی اس کے بڑے دلدادہ تھے۔ 1978ء میں جنتا پارٹی کی حکومت کے سربراہ‘ وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے اس تجویز کے ساتھ پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا‘ لیکن پاکستان کا مؤقف تھا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا‘ اس تجویز پر عمل درآمد ممکن نہیں۔
آج بھی پاکستان کا وہی مؤقف ہے اور وزیر اعظم نے اسی موقف کو دہرایا ہے۔ اس سے قبل ہر حکومت یہی مؤقف دہراتی رہی ہے‘ لیکن نہ مسئلہ کشمیر حل ہوا اور نہ بھارت اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کو پاکستان کے راستے تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے کا موقع ملا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بات مؤقف کے بار بار دہرانے سے نہیں بنتی بلکہ اس سے آگے کی بات کرنے سے بنتی ہے۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے‘ اس کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مؤقف میں اتنا فرق ہے کہ مستقبل قریب میں اس کے حل کی کوئی امید نہیں‘ اور وسطی ایشیا کی ریاستیں اور افغانستان بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی پچھلی حکومت کے دور میں کابل نے ایران کے راستے بھارت کے ساتھ اپنی تجارت میں اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کی دو طرفہ تجارت ڈھائی بلین ڈالر سے کم ہو کر چند ملین ڈالر رہ گئی تھی۔
طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ تجارت میں اضافے کے امکانات ایک دفعہ پھر روشن ہو گئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ یہ تجارت طالبان حکومت سے پہلے کی سطح پر آ جائے۔ دونوں طرف سے اسی ٹارگٹ کو حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پاکستان نے افغانستان کی پاکستان کو بہت سی برآمدات پر درآمدی ڈیوٹی کم کر دی ہے۔ افغانستان کے راستے پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ میں اضافے کے بھی امکانات بڑھ گئے ہیں۔ پاک چائنہ کوریڈور، سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین خالد منصور نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ سی پیک کے دوسرے فیز کا فوکس افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک کوریڈور کی توسیع اور افغانستان کے راستے پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ میں اضافے پر ہو گا۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں کی بھی یہ دیرینہ خواہش ہے اور افغانستان میں قیام امن کے بعد اس کے جو امکانات روشن ہوئے ہیں، خطے کے تمام ممالک کی طرف سے ان کا خیر مقدم کیا جائے گا‘ لیکن وسطی ایشیا کے ممالک کی اصل دلچسپی اور توجہ بھارت کی وسیع کنزیومر مارکیٹ ہے‘ جس کیلئے وہ پاکستان کے راستے رسائی چاہتے ہیں۔ اگرچہ چین ان ریاستوں سے دستیاب تیل اور گیس کا بہت بڑا خریدار ہے اور روس کے ساتھ بھی ان ممالک کے قریبی تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں، مگر پڑوس میں واقع وہ بھارت کی بہت بڑی منڈی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پاکستان کی حیثیت ان ممالک کے نزدیک جنوبی ایشیا کے رابطوں کے قیام کیلئے ایک پل کی ہے۔
اگرچہ اپنی ضروریات کیلئے بھارت بھی ان ممالک سے گیس درآمد کرنے کی کوشش کررہا ہے، لیکن بھارت کے مقابلے میں وسطی ایشیا کی توانائی برآمدات کیلئے پاکستان ایک محدود مارکیٹ ہے۔ اسے ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا (TAPI) گیس پائپ لائن کے منصوبے کی تعمیر میں ترکمانستان کی طرف سے پیش کردہ تحفظات کی شکل میں واضح کیا جا سکتا ہے۔ ترکمانستان نے اس منصوبے سے اس وقت تک اتفاق نہیں کیا تھا جب تک پاکستان نے اس میں بھارت کی شمولیت پر رضا مندی ظاہر نہیں کی۔ اس طرح یہ منصوبہ جو ابتدا میں صرف ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ہونے کی وجہ سے TAP کہلاتا تھا، بھارت کی شمولیت سے TAPI ہوگیا۔
سی پیک کی افغانستان اور وسطی ایشیا تک توسیع سے بھی پاکستان کو اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سی پیک کا اصل مقصد انفراسٹرکچر کی تعمیر اور علاقائی روابط کے ذریعے مختلف خطوں کے درمیان inter regional ٹریڈ کو فروغ دینا ہے۔ افغانستان‘ وسطی ایشیا اور ایران کی سی پیک میں شمولیت سے پاکستان پر بھارت کے ساتھ تجارتی راہداری کی سہولت مہیا کرنے پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ افغانستان کی طرف سے تو یہ دباؤ گزشتہ دس برس سے ڈالا جا رہا ہے کیونکہ 2010ء میں پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدہ کے تحت افغانستان کو پاکستان واہگہ کے راستے اپنے ٹرکوں میں تجارتی اشیا‘ جن میں اکثریت پھلوں اور سبزیوں کی ہوتی ہے، کو بھارت برآمد کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن پاکستان کے راستے بھارتی درآمدات کی اجازت نہیں۔ اس وجہ سے افغان ٹرکوں کو واہگہ، اٹاری پوسٹ پر اپنا سامان اَن لوڈ کرکے خالی وطن جانا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کی سابقہ حکومت اکثر ناراضی کا اظہار کیا کرتی تھی اور اسی ناراضی کی وجہ سے اکثر دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کشیدہ رہتے تھے۔
طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے افغان برآمدات کیلئے اپنے دروازے کھول دئیے لیکن پاکستان کے راستے بھارتی تجارتی اشیا لانے پر بدستور پابندی ہے۔ سی پیک میں شمولیت کے بعد انٹرا ریجنل ٹریڈ کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے کا مطالبہ زور پکڑ جائے گا اور اس تحریک میں افغانستان سب سے آگے ہوگا کیونکہ افغانستان کی معیشت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کے فروغ کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی اور ان ہمسایہ ممالک میں پاکستان‘ ایران‘ وسطی ایشیا کے ساتھ ساتھ بھارت بھی شامل ہے۔ قدیم زمانے سے قائم ثقافتی، تجارتی اور مذہبی روابط بھی وسطی اور جنوبی ایشیا کے مابین قربت کا باعث ہیں۔ معلوم نہیں پاکستان اور خصوصاً موجودہ حکومت نے ان محرکات کے نتائج اور ان نتائج کے تحت پیدا ہونے والے چیلنجز کے بارے میں کوئی سوچ بچار کی ہے یا نہیں۔ ابھی تک وزیر اعظم کی حکومت کی ساری توجہ افغانستان کی صورتحال پر مبذول ہے اور وزیر خارجہ کے بیرون ممالک دوروں اور ان ممالک کی قیادت کے ساتھ بات چیت کا مرکز افغانستان میں ممکنہ انسانی المیے کی طرف بین الاقوامی برادری کی توجہ دلا کر افغان عوام اور حکومت کیلئے فوری طور پر امداد کا اہتمام کرنا ہے، مگر خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال سے پیدا ہونے والے نئے چیلنجز سے بھی پاکستان کو نمٹنا پڑے گا۔ ان میں سب سے نمایاں جنوبی اور وسطی ایشیا کے مابین connectivity کے فروغ کیلئے پاکستان کے نئے کردار پر واضح پالیسی کی تشکیل ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں